خبریں

اپنے ہی افسر کے خلاف گئی دہلی پولیس، ’حساس‘ بتا کر فسادات کی جانکاری دینے سے کیا انکار

شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کو لےکر دی  وائر کی جانب سے دائر آر ٹی آئی درخواست  پر اپیلیٹ اتھارٹی کی ہدایت کے بعد بھی دہلی پولیس نے جانکاری دینے سے منع کر دیا۔ پولیس نے صرف گرفتار کیے گئے لوگوں، درج کی گئی ایف آئی آر، ہلاک ہونے والوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کی جانکاری دی ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: دہلی پولیس نے ایک بار پھر سے شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق جانکاریاں ،مثلاً ایف آئی آر، ملزمین، ہلاک ہونے والے اور زخمی ہونے والوں  کے نام وغیرہ  کو عوامی  کرنے سے منع کر دیا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ محکمہ کے ایک سینئرافسرنے ان جانکاریوں کو عوامی  کرنے کے لیے کہا تھا۔ لیکن پولیس نے ‘حساس جانکاری’ ہونے کی دلیل دےکر جانکاری دینے سے منع کر دیا۔

معلوم ہو کہ دہلی پولیس نے حال ہی میں فسادات کے سلسلے میں چارج شیٹ دائر کیا ہے۔الزام  ہے کہ اس میں ان لوگوں کے بھی نام بطور ملزم شامل کیے گئے ہیں، جن کا فسادات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ پولیس نے الہند ہاسپٹل کے مالک ڈاکٹر ایم اے انور کو بھی ملزم بنایا ہے، جو فسادات کے دوران متاثرین  کاعلاج کر رہے تھے۔

اس کے علاوہ پولیس پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ صرف ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ  بناتے ہوئے انہی لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے اور دنگا بھڑ کانے والوں کے بجائے متاثرین کو ہی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس کڑی میں جامعہ اور جے این یو کے کئی طالبعلموں اور اس سے وابستہ تنظیموں کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔مقامی لوگوں اور ان جگہوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں، سماجی کارکنوں، دفاعی امور کے ماہرین وغیرہ  کا کہنا ہے کہ اگر وقت رہتے پولیس نے کارروائی کی ہوتی تو ان فسادات کو روکا جا سکتا ہے۔

پولیس پر اٹھ رہے ان سوالوں کی ایک اہم  وجہ یہ ہے کہ ان فسادات سے متعلق بہت بنیادی  جانکاریاں مثلاً، ایف آئی آر، ملزموں کے نام وغیرہ عوامی نہیں کیے جا رہے ہیں اور اچانک سے لوگوں کو گرفتار کرکے  ان پریو اے پی اےکے تحت بھی معاملہ درج ہو رہا ہے۔اس سلسلے میں دی  وائر نے آر ٹی آئی دائر کرکے فسادات کے دوران پولیس کی جانب سے لیے گئے فیصلے اور ان کی طرف سے کی گئی کارروائی کےبارے میں جانکاری مانگی تھی۔

آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے سوال:

  1. 24 فروری 2020 سے 27 فروری 2020 کے بیچ نارتھ -ایسٹ علاقوں میں ہوئے تشددمیں دہلی پولیس نے کل کتنے بلیٹ فائر کئے؟ تشدد متاثرہ علاقوں کی حلقہ وارجانکاری  دی جائے۔

  2. 24 فروری 2020 سے 27 فروری 2020 کے بیچ نارتھ -ایسٹ علاقوں میں ہوئے تشددمیں دہلی پولیس نے کل کتنے آنسو گیس، ربر بلیٹ اور واٹر کینن کا استعمال کیا؟تشدد متاثرہ علاقوں کی حلقہ وار جانکاری دی جائے۔

  3. 24 فروری 2020 سے 27 فروری 2020 کے بیچ نارتھ -ایسٹ د علاقوں میں ہوئے تشدد میں دہلی پولیس کے کل کتنے جوانوں کی تعیناتی کی گئی تھی؟ تشدد متاثرہ علاقوں کی حلقہ وار اور دنوں کے لحاظ سے جانکاری دی جائے۔

  4. اس دوران تشددسے متعلق کل کتنے کال نارتھ -ایسٹ دہلی کے کن کن علاقوں سے آئے؟ ان کالس پر دہلی پولیس نے کیا کارروائی کی؟

  5. دہلی فسادات کے سبھی ملزمین کے نام، ایف آئی آر نمبر، تھانے کے نام کے ساتھ درج کرنے کی تاریخ کی جانکاری دی جائے۔

اس کے علاوہ اس تشددمیں مارے گئے اور زخمی ہوئے تمام افرادکے نام، پتے، عمر کی جانکاری مانگی گئی تھی۔ د ی وائر نے زخمی  ہوئے سبھی پولیس اہلکاروں  کے نام، ان کاعہدہ  اور زخم کی نوعیت سے متعلق  جانکاری مانگی تھی۔

حالانکہ پہلے تو پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ کی جانکاری دینے سے چھوٹ حاصل دفعات کا ‘غیر قانونی’ استعمال کرتے ہوئے اور اس سے لوگوں کی جان خطرے میں ہونے کا حوالہ دےکر دہلی فسادات سے متعلق کئی اہم  جانکاریوں کاانکشاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے بعد دی  وائر نے اپیل دائر کی، جس پر غور کرتے ہوئے اپیلیٹ اتھارٹی نے نقطہ وارجانکاری دستیاب کرانے کا آرڈردیا۔

گزشتہ 14 مئی 2020 کو دیے اپنےاحکامات  میں شمال مشرقی ضلع کے ڈپٹی پولیس کمشنر اور فرسٹ اپیلیٹ افسر پرکاش سوریہ نے کہا، ‘تمام متعلقہ  دستاویزوں اور پی آئی او/این ای ڈی کے تبصروں  پر غورکرنے کے بعد میں نے یہ پایا پی آئی او/این ای ڈی نے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت طے مدت کے اندر جواب دیا ہے۔ اس کے علاوہ، پی آئی او/این ای ڈی کو یہاں ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ آر ٹی آئی درخواست  کے تحت مانگی گئی نقطہ وار جانکاری 20 دن کے اندر دستیاب  کرائیں۔’

دہلی پولیس کے اپیلیٹ اتھارٹی کی ہدایت۔

دہلی پولیس کے اپیلیٹ اتھارٹی کی ہدایت۔

حالانکہ دہلی پولیس نے ان احکامات کی تعمیل کے بجائے جانکاری دینے سے منع کرنے کے لیے آر ٹی آئی ایکٹ کی ایک اور فعہ  کاذکر کیا۔شمال مشرقی ضلع  کے پبلک انفارمیشن افسر(پی آئی او)اور ایڈیشنل ڈپٹی پولیس کمشنر ایم اے رضوی نے کہا کہ مانگی گئی جانکاری آر ٹی آئی کی دفعہ8(1)(اے، جی، جے اور ایچ) کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ بہت ‘حساس اور اسٹریٹجک’جانکاری ہے۔

اس سے پہلے رضوی نے دفعہ8(1)(جی، جے اور ایچ) کا ہی ذکر کیا تھا اور اس بار انہوں نے 8(1)(اے) بھی جوڑ دیا ہے، جو کہ قومی سلامتی  سے متعلق  دفعہ ہے۔اس کے تحت ایسی جانکاری کاانکشاف نہیں کرنے کا چھوٹ ملی ہوئی ہے، جس سے ہندوستان  کی سالمیت یکجہتی، سلامتی،اسٹریٹجک، سائنسی یااقتصادی مفادات اور دوسرے ممالک  کے ساتھ ملک کے تعلقات متاثر ہوتے ہوں۔

دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 میں کہیں بھی ‘حساس’ لفظ کی وضاحت نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی دفعہ میں شامل ہے ۔ہندوستان  کے جانےمانے آر ٹی آئی کارکن اورسابق انفارمیشن کمشنر شیلیش گاندھی کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس کا یہ جواب پوری طرح سے غیر قانونی ہے اور سی پی آئی او کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپیلیٹ اتھارٹی  کے کے احکامات کی خلاف ورزی کرے۔

انہوں نے کہا،‘اگر ہندوستان کے پڑوسی ممالک یا ہندوستان  سے جڑی ہوئی کسی دوسرے ملک  کے سلسلے میں جانکاری مانگی جاتی تو وہاں پر اسٹریٹجک  کی دلیل دی جا سکتی تھی۔ یہاں یہ نافذ ہی نہیں ہوتا ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ میں کہیں بھی حساس لفظ کا ذکر نہیں ہے۔ دفعہ8(1)(اے)ملک  اورقومی سلامتی کے تناظر میں ہے۔’

گاندھی نے کہا کہ اس طرح کے غیرذمہ دارانہ  جواب کے لیے دہلی پولیس کے پبلک انفارمیشن افسر پر جرمانہ لگایا جانا چاہیے۔وہیں،انڈین پولیس سروس میں اپنی خدمات دےچکے اور ہندوستان کے سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر یشووردھن آزاد کہتے ہیں کہ ان فسادات کو گزرے چار مہینے ہو گئے ہیں، اس کے بعد کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے کہ جانچ میں رکاوٹ آنے کے نام پر جانکاری چھپائی جائے یا حساس بتایا جائے۔

انہوں نے کہا، ‘پرانے زمانے میں ایسی جانکاری یہ سوچ کر عوامی  نہیں کی جاتی تھی کہ یہ حساس معاملہ ہے اور اگر ہندو مسلم کی جانکاری باہر آ جائےگی تو بےوجہ فساد ہوگا، لیکن 2005 میں آر ٹی آئی ایکٹ آنے کے بعد سے یہ دلیلیں نہیں دی جا سکتی ہیں۔آزاد نے آگے کہا، ‘اگر ایف آئی آر، گرفتاری اور موت کے سلسلے میں جانکاری مانگی جا رہی ہے تو اسے کس بنیادپرچھپایا جا رہا ہے۔ کیا21ویں صدی کے جدید ہندوستان  میں یہ بات معنی رکھتی  ہے کہ ہم 8(1)(اے)کے تحت قومی سلامتی کی دلیل دیں۔ یہ سب توجمہوریت  میں لوگوں کو معلوم ہونا ہی چاہیے۔ یہ بنیادی جانکاری کی طرح لوگوں کو دی جانی چاہیے تاکہ لوگ اس سے مستفید ہوں اور سبق لیں۔’

آر ٹی آئی کی دفعہ8(1)(جی)کے تحت اگر جانکاری کا انکشاف کرنے سے کسی کی جان یا جسمانی تحفظ خطرے میں پڑ جائے یا سلامتی کاموں کے لیے بھروسے میں دی گئی کسی جانکاری یا مدد کے ذرائع کی پہچان ہو جائے، تو ایسی جانکاری کاانکشاف کرنے سے چھوٹ حاصل ہے۔

وہیں دفعہ8(1)(ایچ)کے تحت اگر کسی جانکاری کے انکشاف سے جانچ کی کارروائی یا مجرموں  کا حزب متاثر ہوتا ہے تو ایسی جانکاری کو بھی دینے سے منع کیا گیا ہے۔اسی طرح دھارا 8(1)(جے) کے تحت اگر کوئی ایسی جانکاری ہے، جو کہ نجی ہے اور جس کے انکشاف کا عوامی مفادسے کوئی تعلق  نہیں ہے یا ایسی جانکاری دینے سے کسی کی پرائیویسی میں دخل دینا ہوتا ہے تو اس طرح کی جانکاری دینے سے بھی منع ہے۔

حالانکہ اس اہتمام  میں ایک شرط یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی جانکاری پارلیامنٹ یا ریاستی اسمبلی کو دی جاتی ہے تو اس کو عوام  کو دینے سے منع نہیں کیا جا سکتا ہے۔

دہلی پولیس کا جواب۔

دہلی پولیس کا جواب۔

ایڈیشنل ڈپٹی پولیس کمشنر ایم اے رضوی نے بتایا کہ دہلی فسادات کے سلسلے میں کل 993 لوگوں کو گرفتار کیا ہے اورکل 751 ایف آئی آر درج کیے گئے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے گرفتار کیے گئے لوگوں اور ایف آئی آر کی تفصیلات عوامی  کرنے سے منع کر دیا۔گزشتہ 11 جون 2020 کو بھیجے اپنے جواب میں انہوں نے کہا، ‘سبھی ایس ایچ او/این ای ڈی سے موصولہ رپورٹ کے مطابق فسادات کے سلسلے میں کل 993 لوگوں کو گرفتار کیا ہے اورکل 751 ایف آئی آر درج کیےگئے ہیں۔ حالانکہ ان کی تفصیلات آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ8(1)(اے، جی، جے اور ایچ) کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ بہت حساس جانکاری ہے۔’

ایک دیگر آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں رضوی نے بتایا کہ دہلی فسادات میں کل 53 لوگوں کی موت ہوئی اور 473 لوگ زخمی ہو گئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فسادات میں کل 108 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ حالانکہ حکام نے یہاں بھی ‘حساس جانکاری’ کی دلیل دےکرہلاک ہونے والے اور زخمیوں  کے نام عوامی کرنے سے منع کر دیا۔

دہلی پولیس کی جانب سے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اس طرح کا جواب دینا سپریم کورٹ اورسینٹرل انفارمیشن کمیشن کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ایف آرآرآئی اپنے آپ میں ایک عوامی  دستاویز ہوتا ہے، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ پولیس نے یہ جانکاری دینے سے بھی منع کر دیا۔ہلاک ہونے والےاورزخمیوں  سے جڑی جانکاری بھی نہیں دی گئی، جو کہ پہلے ہی دہلی کے کئی ہاسپٹل عام کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سال 1994 میں آر راج گوپال بنام تمل ناڈو معاملے میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایف آئی آر جیسےعوامی  دستاویز میں درج کی گئی نجی جانکاری پرائیویسی  کے دائرے میں نہیں ہے۔ اس میں واحد شرط یہ ہے کہ اگر ایف آئی آرجنسی استحصال یا اغوا سے متعلق ہے تو خاتون  کی پہچان اجاگر نہیں کی جاتی ہے۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی نو ججوں کی بنچ نے اپنے تاریخی پرائیویسی  کے حق  والے فیصلے میں برقرار رکھا ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے 2016 کے یوتھ بار ایسوسی ایشن بنام حکومت ہند معاملے میں اہم ہدایت  دی تھی  کہ سرکاری ویب سائٹوں کے ذریعے ایف آئی آر کی جانکاری خود ہی دی جانی چاہیے۔ اس لیے ایف آئی آر سے متعلق جانکاری کو آر ٹی آئی کے تحت منع کرنا ان احکامات کی خلاف ورزی ہوگی۔

دھیان رہے کہ یہ ضرور ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ  8(1) میں مختلف چیزوں سے جڑی جانکاری سے انکشاف کی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر چھوٹ ملی ہوئی جانکاری بھی بڑے پیمانے پر عوامی مفاد سے متعلق  ہے تو یہ جانکاری عوام  کو دی جانی چاہیے۔

آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(2) کے تحت اگر مانگی گئی جانکاری دفعہ 8(1) کے تحت چھوٹ کے دائرے میں ہے تب بھی اگر محفوظ مفاد کے مقابلےعوامی مفادزیادہ  ہے تو ایسی جانکاری کا انکشاف  ضرور کیا جانا چاہیے۔جہاں تک گرفتار کئے گئے اور حراست میں لیے گئے لوگوں کا سوال ہے یہ جانکاری ویسے بھی سی آر پی سی کی دفعہ41سی کے تحت خود سے عوامی  کی جانی چاہیے۔

د ی وائر نے اس آر ٹی آئی کےسلسلے میں پبلک انفارمیشن افسرکے جواب کے خلاف دوسری  اپیل دائر کر دی ہے۔