خبریں

دہلی: کیا صحافی ترون سسودیا نے واقعی خودکشی کی؟

دہلی کے ایمس ٹراما سینٹر میں کووڈ 19 کا علاج کرا رہے دینک بھاسکر سے وابستہ صحافی ترون سسودیا کی گزشتہ چھ جولائی کو موت ہو گئی۔ ایمس انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ہاسپٹل کی چوتھی منزل سے کود کر جان دے دی۔ موت کی جانچ کیے جانے کے مطالبے کے بعد وزیر صحت نے ایک جانچ کمیٹی بنائی ہے۔

صحافی ترون سسودیا۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

صحافی ترون سسودیا۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: دہلی کے ایمس ٹراما سینٹر میں کووڈ 19 کا علاج کرا رہے دینک بھاسکر کے 37 سالہ صحافی ترون سسودیا کی گزشتہ  چھ جولائی کی دوپہر موت ہو گئی، جس کے بعد ایمس انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ہاسپٹل کی چوتھی منزل سے کود کر اپنی جان دے دی۔ترون دہلی میں ہندی اخبار دینک بھاسکر میں بطور ہیلتھ رپورٹر کام کررہےتھے۔ان کی موت کی جانکاری ملنے پر دہلی کے تمام صحافیوں نے ان کی موت کو خودکشی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کو لےکر سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی اور لوگ ترون کو لےکر اپنے تجربے لکھنے لگے۔ کچھ لوگ موت کی جانچ کی مانگ بھی کرنے لگے۔

اس کے بعد چھ جولائی کی شام کو ہی وزیر صحت ہرش وردھن نے ایک ٹوئٹ کرکے معاملے کی جانچ کے لیے چار رکنی کمیٹی کی تشکیل  کا اعلان  کیاتھا۔اس کے بعد سات جولائی کو دہلی کے صحافیوں نے پریس کلب میں اکٹھا ہوکر لاک ڈاؤن کے ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے علامتی مظاہرہ کیا اور معاملے کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ جوڈیشیل  جانچ کی مانگ کی۔اس دوران صحافیوں نے ایمس کی جانب سے جاری بیان میں ان کی خودکشی کی کہانی پر سوال اٹھائے۔

دراصل، ایمس نے بیان جاری کرکے کہا تھا، ‘صحافی کو ایمس کے جئےپرکاش نارائن اپیکس ٹراما سینٹر میں24 جون کو کووڈ 19 کی وجہ سے بھرتی کرایا گیا تھا۔ ان کی حالت میں سدھار ہو رہا تھا اور انہیں آئی سی یو سے جنرل  وارڈ میں منتقل کیے جانے کی تیاری تھی۔’بیان میں آگے کہا گیا تھا، ‘اسی سال مارچ میں جی بی پنت ہاسپٹل میں ان کے برین  ٹیومر کا آپریشن ہوا تھا۔ ٹراما سینٹر میں علاج کے دوران انہیں(ترون)دورے آتے تھے، جس پر ڈاکٹروں نے ان کا چیک اپ کرکے دوا دی تھی۔’

بیان کے مطابق،‘اہل خانہ کو ان کی حالت کے بارے میں لگاتار جانکاری دی جاتی تھی۔ آج (چھ جولائی)تقریباً1:55 بجے پر وہ ٹی سی 1 سے باہر بھاگے، جہاں وہ بھرتی تھے۔ ہاسپٹل کے اسٹاف  ان کے پیچھے بھاگے اور انہیں روکنے کی کوشش کی۔ وہ چوتھی منزل پر چلے گئے اور وہاں ایک کھڑکی کا شیشہ توڑ کرنیچے چھلانگ لگا دی۔’اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ صحافی کو فوراً ایک ایمبولینس سے ٹراما سینٹر کے آئی سی یو لے جایا گیا۔ انہیں بچانے کی کوشش کی گئی، لیکن بدقسمتی سے سوموار 3:35 بجے ان کی موت ہو گئی۔

بہرحال، پریس کلب میں منعقد احتجاجی جلسے میں شامل انڈین وومین پریس کارپس کی جنرل سکریٹری  اور ہیلتھ رپورٹر وینتا پانڈے نے کہا تھا، ‘ایمس میں آئی سی یو سے نکل کر چوتھی منزل پر جاکر شیشہ توڑکر کود جانے کی بات یقین کرنے لائق نہیں ہے۔ اگر ایمس کہہ رہا ہے کہ ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، تب تو ان پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت تھی۔’

پانڈے نے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کی جانب سے ایمس کے چار ڈاکٹروں کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بناکر معاملے کی جانچ کرانے کےآرڈردیےجانے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔وزیر صحت نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا، میں نے واقعہ  کو لےکر ایمس ڈائریکٹرکو فوراً جانچ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے، جس کے بعد ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی گئی ہے، جو 48 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ پیش کرےگی۔’

وزیر نے بتایاتھا،‘اس کمیٹی میں نیوروسائنس سینٹر کی چیف ڈاکٹر پدما، شعبہ نفسیات  کے پروفیسر آر کے چڈا، ڈپٹی ڈائریکٹر(ایڈمنسٹریشن)ڈاکٹر پانڈا اور فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیب کے ڈاکٹر یو سنگھ شامل ہیں۔’پانڈے کہتی ہیں،‘ایمس اپنے خلاف خود جانچ نہیں کرے گا نہ؟ ایمس کی جانچ کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ معاملے کی جانچ کسی جج یا مجسٹریٹ کے ذریعےکرائی جانی چاہیے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کو سامنے لایا جانا چاہیے۔ ایمس تو کہہ دےگا کہ سکیورٹی گارڈوں کی غلطی کی وجہ سے حادثہ ہوا اور ہم کمپنی کا کنٹریکٹ رد کر رہے ہیں۔ ہمارے رابطہ  کے ایمس کے ڈاکٹر خود حیران  ہیں۔’

وہ کہتی ہیں،‘بہت افسوسناک ہے کہ ایک رپورٹر نوکری کے دوران کورونا سے متاثر ہو جاتا ہے، علاج پر ہے، وہ ڈر رہا ہے اور اس دوران وہ رپورٹنگ بھی کر رہا ہے۔ وہ کچھ کمیوں کو بھی اجاگر کر رہا ہے اور پھر کہہ رہا ہے کہ مجھے خطرہ ہے اور پھر اس کی موت ہو جاتی ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسے کیسے کسی کی اچانک موت ہو سکتی ہے۔’

پریس کلب میں  ہوئے اجلاس میں شامل ایک دیگرصحافی نے کہا، ‘وزیر صحت کی جانب سے بنائی گئی  ایمس کی جانچ سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔ ہم آزادانہ جوڈیشیل جانچ کی مانگ کر رہے ہیں۔ کیسے ایمس کے ہائی سیکورٹی زون میں کورونا کا مریض چوتھی منزل پر بھاگ گیا اور ان کےسکیورٹی گارڈکچھ نہیں کر پاتے ہیں۔ اگر وہ ذہنی  مریض تھے تو انہیں زیادہ نگرانی میں کیوں نہیں رکھا گیا۔’

انہوں نے کہا کہ ہم فیملی  کی مددکے لیے نجی طور پر کچھ پیسے اکٹھے کر رہے ہیں اور فیملی  کی رضامندی پر انہیں دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی پی آئی بی اور دہلی سرکار سے بھی مالی امداد کی مانگ کر رہے ہیں۔اس سے پہلے دہلی کے صحافیوں کے ایک وہاٹس ایپ گروپ کا مبینہ اسکرین شاٹ بھی سوشل میڈیا پر سامنے آیا جس سے مبینہ  طور پر ترون سسودیا بھی جڑے ہوئے تھے۔گروپ میں سسودیا نے اپنے قتل کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ حالانکہ، اس دوران باقی صحافی ساتھیوں نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا۔

دہلی کے صحافیوں کے وہاٹس ایپ گروپ کامبینہ اسکرین شاٹ جس میں مبینہ طور پر صحافی ترون سسودیا نے اپنے قتل کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔

دہلی کے صحافیوں کے وہاٹس ایپ گروپ کامبینہ اسکرین شاٹ جس میں مبینہ طور پر صحافی ترون سسودیا نے اپنے قتل کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔

دی  وائر سے بات کرتے ہوئے ترون کے بھائی دیپک نے کہا، ‘میڈیاہاؤس  ان کے بھائی کو ہراساں  کر رہا تھا۔ پچھلے تین چار دنوں سے ان کی فون پر کوئی بات چیت نہیں ہو پائی تھی۔ ترون پورے دن کام کرتے تھے، لیکن ان کی اسٹوری نہ تو لی جاتی اور نہ ہی چھاپی جاتی تھی۔ انہیں بائی لائن بھی نہیں دی جا رہی تھی۔’

وہیں، دہلی میں سسودیا کے ایک سینئر، جنہیں لاک ڈاؤن میں چھنٹنی کے دوران نکال دیا گیا، نے اپنا نام خفیہ  رکھنے کی شرط پر کہا، ‘مجھ سے دو دن پہلے ان سے بھی استعفیٰ مانگا گیا تھا۔ حالانکہ کسی دباؤ میں آکر کمپنی نے انہیں دوبارہ نوکری پر رکھ لیا، لیکن میرے ساتھ ہی انہیں بھی ادارےکے وہاٹس ایپ گروپ سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد دہلی میں ہیلتھ رپورٹنگ کرنے والے سسودیا کو نوئیڈا بھیج دیا گیا اور روز خبریں مانگی جانی لگی تھیں۔’

وہ کہتے ہیں،‘میں پورے یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا ہوں لیکن مجھے بھی یہ پتہ چلا تھا کہ ایمس میں بھرتی رہنے کے دوران ان سے کہا گیا تھا کہ بھرتی ہو تو کوئی بات نہیں، وہیں سے کچھ خبریں کر دو۔ آفس کا معاملہ تو ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ جب بھی جوڈیشیل یا کوئی اور جانچ ہوگی تب یہ سامنے آئےگا۔’

ان الزامات  پر دینک بھاسکر کے نیشنل ایڈیٹر نونیت نے دی  وائر سے کہا،‘وہ ابھی تک بھاسکر کے رپورٹر ہیں اور کسی نے انہیں ہاسپٹل سے رپورٹ کرنے کو نہیں کہا تھا۔ انہیں ادارے میں رکھنے کے عوض میں ان کا اظہار تشکر بھی ہمارے پاس ہے۔ اس لیے جو باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔’

ترون سسودیا کے سینئر آگے کہتے ہیں،‘جو لوگ یہ خبریں پھیلا رہے ہیں کہ ان کا ذہن خراب ہو گیا تھا وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ برین ٹیومر کے علاج کے بعد بھی وہ اچھا کام کر رہے تھے اور انہوں نے ہی یہ خبر بریک کی تھی کہ دہلی میں سرکاری اعدادوشمار سے زیادہ  کورونا سے موتیں ہوئی ہیں۔’

ترون کی ذہنی صحت خراب ہونے کے ایمس کے بیان پر وہ کہتے ہیں،‘برین سرجری ہونے کے بعد وہ کام پر لوٹ آئے تھے۔ میرے وہاں سے نکلنے کے بعد انہیں کورونا ہو گیا اور ایمس میں بھرتی ہونا پڑا۔ ان کے اور ان کی ماں سمیت فیملی  کے تین ممبر پازیٹو ہو گئے۔’

ان کے مطابق، ہو سکتا ہے کہ ان سب کی وجہ سےوہ (ترون)تناؤ میں آ گئے ہوں۔ اس کے بعد ایمس میں یہ خیال آنا شروع ہو گیا کہ کوئی ان کا قتل کرا دےگا، جیسا آپ وہاٹس ایپ اسکرین شاٹ میں دیکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہیں ذہنی  طور پر کوئی پریشانی  نہیں تھی۔’

بتا دیں کہ ترون سسودیا، ان کی ماں کے ساتھ ان کی بھتیجی بھی کورونا کی زد میں  ہیں۔ ترون ایمس میں اور ان کی ماں رام منوہر لوہیا ہاسپٹل میں بھرتی تھیں۔ وہیں ان کی بھتیجی ہوم کورنٹائن ہیں۔

ترون کے سینئر ساتھی کے مطابق،‘اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کے دل  میں وہم بیٹھ گیا اور وہ ڈپریشن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پہلے سے دفتر کا دباؤ جھیل رہے شخص کو اگر ایمس میں بھرتی ہونا پڑ جائے، لگاتار آکسیجن کی ضرورت پڑنے لگے اور ماں بھی آئی سی یو میں بھرتی ہو تو ایسا ہونا فطری ہے۔ اس سے پہلے برین سرجری بھی ہوئی تھی۔ اس حالت کے لیے کسی ایک چیز کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے، بلکہ یہ سبھی چیزیں ذمہ دار ہیں۔’

انہوں نے بتایا کہ دہلی میں اب تک کم سے کم 8-10 لوگوں کو نکالا جا چکا ہے اور ابھی کام کر رہے کئی لوگوں سے استعفیٰ لیا جا چکا ہے جبکہ ملک  بھر میں بہت سارے لوگوں کو نکالا گیا ہے۔جانچ کمیٹی پروہ کہتے ہیں،‘وزیر صحت  نے جانچ کا جوآرڈر دیا ہے، اس میں صرف لیپا پوتی ہوگی۔ آپ کبھی بھی ڈاکٹروں کے اوپر الزام  ثابت نہیں کر پائیں گے۔’

ترون کی موت کے بعد ایمس کی جانب  سے جاری بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں،‘ایمس کی لاپرواہی اس کے بیان میں دکھے گی، کسی آدمی کو آپ نے بھاگتے ہوئے دیکھا اور چوتھی منزل پر جاکر وہ کود جائے اور آپ روک نہیں پاے۔ آئی سی یو میں بھرتی آدمی کیسے نکل کر چلا گیا۔ اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ اس کے ذہن میں دقت تھی تو آپ کونگرانی  بڑھانی چاہیے تھی۔’

وہ کہتے ہیں،‘موجودہ جانچ سے کچھ نہیں نکلےگا۔ اس معاملے میں کوئی سچائی  تبھی سامنے آئے گی  جب تک عدالت، پولیس یا سی بی آئی جیسی کوئی آزادانہ جانچ ہوگی۔وزیر صحت ہرش وردھن کی جانب سےبنائی گئی  ایمس کے چار ڈاکٹروں کی کمیٹی  کی ممبر ڈاکٹرایم وی پدما سے د ی وائر نے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے ہمارے کال اور پیغام  کا کوئی جواب نہیں دیا۔

صحافی ترون سسودیا کے لیے انصاف کی مانگ کرتے ہوئے نئی دہلی میں پریس کلب پر مظاہرہ  کرتے صحافی۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

صحافی ترون سسودیا کے لیے انصاف کی مانگ کرتے ہوئے نئی دہلی میں پریس کلب پر مظاہرہ  کرتے صحافی۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

ترون کے ایک دوسرے سابق ساتھی، جنہیں لاک ڈاؤن کے دوران بھاسکر سے نکال دیا گیا، انہوں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر دی وائر کو بتایا،‘سسودیا کو نوکری سے نکالنے کی کوشش جاری تھی جس کی وجہ سے وہ کافی دباؤ میں تھے۔ دہلی سے نکلنے والا اخبار جئے پور سے نکل رہا ہے، جس کی وجہ سے ڈیسک کی ٹیم کو ختم کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ، دہلی کی رپورٹنگ ٹیم ابھی کام کر رہی تھی جس میں یہ شامل تھے۔ یہ ہیلتھ اورمیونسپل بیٹ دیکھتے تھے۔’

ترون کی فیملی  کے بارے میں وہ کہتے ہیں،‘ہمارے سامنے ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہیں دو بیٹیاں ہوئی تھیں۔ پچھلے سال ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور پھر انہیں برین ٹیومر ہوا جس کے بعد پیٹ میں بھی ٹیومر ہوا تھا۔ اتنی ساری پریشانیوں سے نکل کر آنے والے شخص کو دیکھ کر تو نہیں لگتا ہے کہ وہ خودکشی کر سکتا ہے۔’

دی  وائر سے بات کرتے ہوئے پولیس کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ساؤتھ ویسٹ)انگت پرتاپ سنگھ نے کہا، ‘صحافی ترون سسودیا کی موت کے معاملے میں قتل کے خدشے کو لے کرجانچ کے لیے ہمیں کوئی درخواست  نہیں ملی ہے۔’

وہیں، پولیس کودرخواست  دینے کے سوال پر مظاہرہ  میں شامل ایک صحافی نے کہا، ‘ہم ایک درخواست  تیار کر رہے ہیں جس پر ابھی تک 150صحافیوں نے دستخط کیا ہے اور باقی لوگ بھی کریں گے۔وزیر اعظم  کو ایک درخواست  دےکر ہم غیرجانبدارانہ  جانچ کی مانگ کریں گے۔اس میں ہم میڈیا ہاؤس کے رول، ایمس انتظامیہ کی لاپرواہی کی جانچ کی مانگ کے ساتھ فیملی  کی مدد کے لیے اپیل  کریں گے۔’

سماجی کارکن اور وکیل اشوک اگروال نے سسودیا کے انتقال  پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ترون کی خودکشی کے پیچھے معاشی بدحالی کی وجہ  نظر آتی ہے۔ مجھے نہیں پتہ ہے آج کے حالات میں نہ جانے کتنے اور لوگ ایسی ہی حالت  سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے، جس میں ہر فیملی کے لیے یقینی طور پر کم ازکم آمدنی کا انتظام  ہو۔معیشت زندگی ہے۔’