خبریں

دیوانگنا کلیتا گرفتاری: ٹوئٹس سے ناراض ہوئی دہلی پولیس سے عدالت نے کہا، نشانہ آپ نہیں

پنجرہ توڑممبردیوانگنا کلیتا کی گرفتاری کے بعد ہوئے کچھ ٹوئٹس پر دہلی پولیس کو اعتراض تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے اس پر کہا کہ ٹوئٹس میں جہادی، لیفٹسٹ سازش جیسے نیریٹو‘ہندوتوا کی مشینری’کے ذریعے پھیلانے کی بات کی گئی ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ پولیس یہ مشینری ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

نئی دہلی:دہلی پولیس کی جانب سےمیڈیا میں منتخب جانکاری لیک کرنے کے معاملے میں پنجڑہ توڑگروپ  کی ممبردیوانگنا کلیتا کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے شنوائی پوری کر لی ہے۔کلیتا نےپولیس کی جانب سےان کے خلاف کچھ شواہد لیک کرنے کا الزام لگایا ہے۔ وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بارے میں میڈیا ٹرائل چلواکر ہمدردی  حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

دہلی پولیس نے شنوائی کے دوران ان ٹوئٹس کی مخالفت کی، جو کلیتا کو حراست میں لینے کے بعد کیے گئے تھے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق،پولیس نے کہا کہ ٹوئٹس میں انہیں مبینہ طور پر ‘ہندوتوا مشینری’ کہہ کر مخاطب کیا جانا اور کچھ نہیں بس ہمارےملک کو نقصان پہنچانا ہے۔

جسٹس وبھو باکھرو کے سامنے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل (اےایس جی)امن لیکھی نے کئی ٹوئٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘جو وہ کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان پر مقدمہ چلاکر…بےقصورلوگوں کومجرم  بنانے کے مقصد سے بڑے پیمانے پر ہندوتوا مشینری کام کر رہی ہے۔’

لیکھی نے آگے کہا، ‘یہ غیرذمہ دارانہ ہے…کیا اس طرح سے آپ پولیس کوفرقہ وارانہ رنگ دینا چاہ رہے ہیں… آپ کی جو بھی رائے ہو لیکن آپکے کمنٹ مہذب  ہونے چاہیے۔ یہ بےحد غیر مہذب کمنٹ ہے۔ یہ اور کچھ نہیں ہمارے ملک کو نقصان پہنچانا ہے۔ دونوں فریق  کی جانب  سے اس کا دھیان رکھا جانا چاہیے…’

اس پر جسٹس باکھرو نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ کسی ادارہ کے خلاف نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہادیوں، حقوق نسواں کے علمبردار، بائیں بازوکی  سازشیں وغیرہ  جیسے نیریٹو ہندوتوا کی مشینری کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ پولیس یہ مشینری ہے۔’

اس پر لیکھی نے کہا، ‘جو بھی مدعا ہو، مجھے لگتا ہے کہ کچھ چیزوں کوایسے ہی چھوڑ دیا جانا چاہیے۔’اس پر جسٹس باکھرو نے کہا، ‘ہمارے سامنے بھی یہی مسئلہ ہے۔ ایک طرح سے دیکھیں تو سوشل میڈیا ایک بےلگام گھوڑے کی طرح ہے۔ آپ کو نہیں پتہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ہر ایک کو ٹارگیٹ کیا جاتا ہے…لیکن یہ جانور کی طرح ہی ہے۔ ایسا صرف آپ کے ادارے کے ساتھ نہیں ہے، باقی اداروں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔’

حالانکہ اے ایس جی لیکھی نے آگے کہا، ‘جیسا لگتا ہے ویسا نہیں ہے کہ ہم میڈیا ٹرائل کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔’قابل ذکر ہے کہ31سالہ جے این اسٹوڈنٹ ا کلیتا کو 23 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ابھی وہ تہاڑ جیل میں عدالتی حراست میں ہیں۔

کلیتا نے ایک اپیل میں عدالت سےپولیس کو ان کے کیس کے بارے میں ہدایت دینے کو کہا تھا کہ جب تک اس کی جانچ التوا میں ہے، تب تک اس کے بارے میں میڈیا کو ان پر لگے الزامات کی جانکاری نہ دی جائے۔

ان کی عرضی  کے مطابق، انہیں چار ایف آئی آر میں ملزم بنایا گیا ہے، جن میں سے ایک ان کے دسمبر 2019 میں مبینہ طور پر دریا گنج میں ہوئے مظاہروں  میں شامل ہونے اور دوسرا اس سال فروری میں جعفرآباد میں ہوئے اینٹی سی اے اے  مظاہروں میں ان کے رول  کو لے کر درج کی گئی ہیں۔

کلیتا نے ‘ان الزامات کو بھی خارج کرنے’ کی اپیل کی ہے، جوپولیس کی جانب سے گزشتہ2 جون کو میڈیا کو ایک پریس نوٹ کی شکل میں دیےگئے تھے۔کلیتا کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے وکیل ادت ایس پجاری نے کہا، ‘میڈیا میں جس طرح سے جانکاری لیک ہوئی ہے، یہ اس طرح سے تشویش ناک ہے۔ یہ میرے لیے شدیدتعصبات  پیدا کر رہا ہے۔’

انہوں نے یہ بھی صاف کیا کہ میڈیا میں لیک ہونے کے بعد انہیں چارج شیٹ کی کاپی دی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دو جون کا پریس نوٹ پولیس کی میڈیاایڈوائزری  کے بھی برعکس ہے۔اس بارے میں لیکھی کا کہنا تھا کہ یہ نوٹ ان کے کیس کو متاثر کرنے یا ان کی امیج پر حملہ کرنے کے لیے نہیں دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس کو شیئر کرنے کا مقصد جانکاری پھیلانا تھا…

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیسا الزام لگایا ہے کہ یہ چنندہ لوگوں کو لیک کیا گیا تھا، ایسا نہیں ہے۔ اس کو480 لوگوں کو بھیجا گیا تھا، جو دہلی پولیس اور میڈیااہلکاروں کے ایک وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ میڈیا میں پریس نوٹ جاری کرنے کا مطلب کلیتا کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ان حقائق کو سہی کرنا تھا جس کوگروپ  کے ممبروں نے سوشل میڈیا پر ڈالا تھا کیونکہ ادارے کی جوابدہی بھی اس سے جڑی تھی۔

بتایا گیا کہ دہلی پولیس کے حلف نامے کی شروعاتی سطریں، جس میں ایجنسی نے کہا کہ کلیتا نے خود ہی میڈیا ٹرائل شروع کیا، کے بعد یہ پریس نوٹ جاری کیا گیا تھا۔اس پر عدالت نے کہا کہ یہ رویہ قبول نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر دہلی پولیس اس طرح سے سوچتی ہے تو اسے سدھارنے کی ضرورت ہے۔

لیکھی نے یہ بھی کہا کہ کلیتا نے ان مبینہ ٹوئٹس سے الگ اعلان بھی نہیں کیا ہے۔ اس پر جسٹس باکھرو نے کہا کہ ان سے جڑے ٹوئٹس کاموازنہ سرکار کی کارروائی سے نہیں کی جا سکتی۔انہوں نے کہا،‘اس سے بھی خراب سوچیے کہ جو جانکاری سوشل میڈیا پر ہے یا جو بھی مہم وہاں چلائی جا رہی ہے وہ ملزم یا ان کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔ آپ ان دونوں کا موازنہ  نہیں کر سکتے۔ یہ کوئی بات چیت نہیں ہے جہاں جواب دینا ہی ہوگا۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘کوئی اس بات سے بےقصورثابت نہیں ہو جاتا کہ وہ  ایسا کہتا ہے اور اس کے لیے مہم  چلاتا ہے۔ کسی کے بےقصور ہونے کاامکان  تب ختم ہوتا ہے، جب اس کے ایسا ہونے کے الٹ جانکاری سامنے لائی جاتی ہے۔ تو یہ بات ایک برابر نہیں ہے جو آپ عوامی  طور پر اس مدعے میں شامل ہو گئے ہیں۔’

کلیتا کے وکیل پجاری نے اس پر بھی نوٹس لیا کہ  ورندا کرات نے جب دہلی تشدد کے معاملے میں ایف آئی آر کی کاپیوں کو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی مانگ کی توپولیس نے اس کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ یہ معاملہ حساس ہے اور ایف آئی آر کو عوامی نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے شکایت گزار، گواہوں اورملزمین  کے ناموں کا انکشاف ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حالانکہ پولیس نے خود میڈیا میں پریس نوٹ جاری کرکے اس برعکس  کام کیا۔عدالت نے کہا کہ پولیس یہ نہیں کہہ سکتی ہے کہ عرضی گزارمیڈیا ٹرائل چاہتی ہے اس لیے وہ میڈیا میں جانکاری جاری کر رہے ہیں۔عدالت نے کہا کہ پولیس کے حلف نامے میں کئی الزام لگائے گئے ہیں جو عرضی  سے پرے ہیں، اس لیے اسے واپس لینے کی صلاح دی جاتی ہے۔

اس کے بعد لیکھی نے کہا کہ وہ حلف نامے پر صرف بھروسہ نہیں کریں گے اور اپنی دلیل قانون کو حساب سے رکھیں گے۔معلوم  ہو کہ پولیس حلف نامے میں دہلی پولیس نے کہا کہ کلیتا نے خود ہی اپنی حمایت میں ہمدردی حاصل کرنے اور اپنےحق  میں ماحول تیار کرنے کے لیے ‘میڈیا ٹرائل’ شروع کیا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)