خبریں

سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کے 11 سال پرانے معاملے میں کارر وائی شروع کی

سال2009 میں پرشانت بھوشن نے تہلکہ میگزین کو دیے ایک انٹرویو میں مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف غلط تبصرہ کیا تھا۔وہیں ایک مبینہ توہین آمیز ٹوئٹ کے الزام میں  بھوشن کے خلاف سپریم کورٹ  میں ہی ایک اور کارروائی چل رہی ہے۔

پرشانت بھوشن۔ (فوٹو : رائٹرس)

پرشانت بھوشن۔ (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سینئر وکیل پرشانت بھوشن اور تہلکہ میگزین کے اس وقت کے مدیرترون تیج پال کے وکیلوں کی جانب سے اور وقت مانگنے کے بعد ان کے خلاف 2009 کے توہین عدالت کے معاملے میں شنوائی چار اگست تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔قابل ذکر ہے کہ سال2009 میں بھوشن نے تہلکہ میگزین کو ایک انٹرویو دیا تھا۔الزام ہے کہ اس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف غلط تبصرہ  کیا تھا۔

جسٹس ارون مشرا کی سربراہی  والی بنچ نے جمعہ کو کہا کہ وہ مبینہ طور پر عدالت کی توہین  کرنے والے افراد کی پیروی کر رہے وکلاء کو تیاری کے لیے وقت دےگی اور اس نے معاملے کی شنوائی چار اگست تک کے لیے ملتوی کر دی۔معاملے میں ثالث سینئروکیل شانتی بھوشن نے کہا کہ انہیں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے دلائل پیش کرنے میں کافی دشوای  ہوتی ہے اور اگر عام  شنوائی شروع ہونے کے بعد معاملے کو سنا جائے تو بہتر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وہ عدالتوں کی ڈیجیٹل ذرائع سے ہو رہی شنوائی کو لےکرراحت محسوس نہیں کرتے۔بھوشن کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے کہا کہ یہ معاملہ پچھلے 9-10برسوں سےزیر التوا تھا اور انہیں اس کی تیاری کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔

بنچ نے کہا کہ آئینی بنچ  تک کے معاملے ویڈیو کانفرنس سے سنے جا رہے ہیں۔ ترون تیج پال کی جانب  سے پیش ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا، ‘اگر ہم نے نو برسوں تک انتظار کیا تو اب مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اتنی کیا جلدی ہے۔’اس پر جسٹس مشرا نے کہا کہ عدالت معاملے کی شنوائی میں جلدبازی نہیں کرےگی۔

جب دھون نے کہا کہ ان کے پاس معاملے کے سبھی ریکارڈ نہیں ہیں اور شاید عدالت کے پاس یہ ریکارڈ ہیں تو اس پر جسٹس مشرا نے کہا، ‘ہم جانتے ہیں مسٹردھون آپ کی یادداشت بہت اچھی ہے اور آپ دلائل دینا بہت اچھے طریقے سے شروع کر سکتے ہیں۔’بنچ نے سینئر وکیل شانتی بھوشن سے کہا کہ وہ بہت بزرگ ہیں اور انہیں اس معاملے میں دلیلیں نہیں دینی چاہیے۔ جسٹس مشرا نے شانتی بھوشن سے کہا، ‘یہ ایک از خود نوٹس کامعاملہ ہے اور آپ کی دلیلیں قانونی نہیں، بلکہ جذباتی  ہیں۔’

سبل نے عدالت سے معاملے میں تیاری کے لیے تھوڑا وقت  دینےکی پھر سے درخواست کی۔اس کے بعد عدالت نے کہا کہ وہ تیاری کے لیے معاملے میں پیروی کرنے کے لیے وکیلوں کو تھوڑا اور وقت دے رہی ہے اور اس نے معاملے پر اگلی شنوائی کے لیے چار اگست کی تاریخ طے کر دی۔

سپریم کورٹ نے ایک نیوزمیگزین‘تہلکہ’کو دیےانٹرویو میں عدالت کے کچھ موجودہ اورسابق ججوں پر مبینہ طور پرالزام لگانے یا نامناسب تبصرہ  کرنے کے لیے نومبر 2009 میں بھوشن اور تیج پال کو ہتک عزت  کا نوٹس جاری کیا تھا۔خاص بات یہ ہے کہ جسٹس ارون مشرا، بی آر گوئی اور کرشن مراری کی ہی بنچ نے پرشانت بھوشن کے دو ٹوئٹ پر ازخود نوٹس لیا ہے اور ان کے خلاف عدالت کی توہین کے ایک دیگر معاملے میں  کارروائی شروع کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا ہے۔

عدالت  نے کہا کہ ان کے بیانات سے پہلی نظر میں ‘انصاف  کے انتظامیہ  کے وقار کو ٹھیس پہنچا ہے۔’لائیولاء کے مطابق، بھوشن نے تہلکہ کی صحافی شوما چودھری کو ایک انٹرویو دیا تھا، الزام لگایا گیا ہے کہ ،اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہا تھا کہ پچھلے 16چیف جسٹس میں سے آدھے کرپٹ تھے۔

شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھوشن نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے پاس ان الزاموں کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔سینئر وکیل ہریش سالوے نے اپنی شکایت میں یہ بھی الزام لگایا ہے کہ بھوشن نے سابق چیف جسٹس ایس ایچ کپاڑیہ پر یہ کہتے ہوئے سنگین الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اسٹرلائٹ کمپنی سے جڑے ایک معاملے کی شنوائی کی، جبکہ اس کی کمپنی میں ان کے شیئرس ہیں۔

سالوے نے یہ شکایت اسٹرلائٹ معاملے میں دائر ایک درخواست  کے توسط سے کی تھی، جس میں وہ امیکس کیوری تھے۔انہوں نے کہا کہ پرشانت بھوشن نے یہ بیان اس حقیقت کوچھپاتے ہوئے دیا کہ معاملے میں پیروی کر رہے وکیلوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ جسٹس کپاڑیہ کا کمپنی میں شیئر ہے اور وکیلوں کی کمیٹی  کے بعد جج نے معاملے کی شنوائی شروع کی تھی۔

پہلی بار چھ نومبر 2009 کو اس وقت کے چیف جسٹس کے جی بال کرشننن اور جسٹس ایس ایچ کپاڑیہ کے سامنے یہ شکایت کی گئی تھی، جنہوں نے ہدایت دی کہ یہ معاملہ تین ججوں کی بنچ کے سامنے رکھا جائے جس میں ایس ایچ کپاڑیہ ممبر نہ ہوں۔اس کے بعد19 جنوری2010  کو جسٹس التمس کبیر، سی جوزف اور ایچ ایل دتو کی بنچ نے پرشانت بھوشن اور ترون تیج پال کو معاملے میں نوٹس جاری کیا تھا۔

مئی 2012 میں آخری شنوائی کے بعد پچھلی بار 11 دسمبر 2018 کواس وقت کے  سی جےآئی رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول اور کے ایم جوزف کی بنچ کے سامنے یہ معاملہ لسٹ کیا گیا تھا۔

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)