فکر و نظر

دہلی فسادات: کیا انصاف کا گلا گھونٹنے کے لیےمرکزی حکومت ’گجرات ماڈل‘ اپنا رہی ہے؟

گجرات فسادات  کے بعد کی گئی کچھ ریکارڈنگس بتاتی ہیں کہ کس طرح سنگھ پریوار کے ممبروں کی پبلک پراسیکیوٹر کے طور پرتقرری کی گئی، جنہوں نے ان معاملوں کو ‘سیٹل’ کرنے میں مدد کی، جن میں ملزم ہندو تھے۔ اب دہلی فسادات کے معاملے میں مرکزی حکومت اپنی پسند کے پبلک پراسیکیوٹر چننا چاہتی ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

یہ دیکھنا عجیب ہے کہ دہلی فسادات اور سی اے اےمخالف مظاہروں سےمتعلق معاملوں کے لیے مرکزی حکومت اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرس کے طور پر اپنی پسند کے وکیلوں کی تقرری  کے لیے اس طرح سے متمنی ہے۔کیا مرکزانصاف  دلانے کے لیے ایماندار اور غیر جانبدار وکیلوں کی تقرری کرنا چاہتا ہے؟ ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا ہو۔

کیونکہ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، تب فسادات کے معاملوں کو کمزور کرنے میں پبلک پراسیکیوٹرس کے دفتر کے غلط استعمال کا ایک اہم رول  رہاتھا۔میں2007 میں خفیہ طور پرگجرات فسادات کے سچ کی تلاش میں گیا۔ چھ مہینے سے زیادہ وقت تک میں نے خفیہ  طریقے سے کئی دنگائیوں، سازش میں شامل لوگوں  کے غیر عدالتی  اقبالیہ بیانات کو درج کیا، جنہوں نے میرے سامنے آدمیوں، عورتوں اور بچوں کے قتل، ان کی لنچنگ اور انہیں جلانے کی کہانیاں سنائیں۔

انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل صرف پولیس کی مدد کی وجہ سے کر پائے۔ 60 گھنٹوں کے یہ اسٹنگ ٹیپ بعد میں بابو بجرنگی، مایا کوڈنانی، سریش چرا، پرکاش راٹھوڑ اور دوسرے ملزموں کو قصوروار ثابت کرنے میں اہم ثابت ہوئے۔سی بی آئی نے ان ٹیپس کی فارینسک جانچ کی اور انہیں اصلی پایا۔ سپریم کورٹ کے ذریعے بنائی گئی  اسپیشل جانچ ٹیم ایس آئی ٹی نے انہیں ٹرائل عدالتوں کے سامنے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔

میں نے عدالتوں میں استغاثہ کےگواہ کے طور پر گواہی دی۔ نرودا پاٹیا معاملے میں ٹرائل کورٹ نے اسٹنگ آپریشن کو ‘پختہ، قابل اعتماد اور بھروسےمند’ثبوت بتایا۔لیکن ان ٹیپس میں انکشافات  کا ایک سیٹ تھا جس کو ایس آئی ٹی نے پراسیکیوٹیبل ایویڈنس نہیں سمجھا۔

یہ گجرات اسٹیٹ کے ذریعےمقرر کیے گئے ان اہم پبلک پراسیکیوٹرس کے قبولنامے تھے، جنہوں نے بتایا تھا کہ کیسے فسادات کے معاملوں کومنظم طریقے سے کمزور کرنے کے لیے ایسے پبلک پراسیکیوٹرس مقررکیے گئے، جو یا تو سنگھ پریوار کے وشو ہندو پریشدیا آرایس ایس جیسے گروپوں کے ممبر تھے یا ہندوتوا کے حمایتی۔

یہ سمجھتے ہوئے کہ میں ایک شدت پسند ہندو ہوں، انہوں نے ایسے کئی معاملوں کی تفصیلات مجھ سے شیئر کیے، جہاں انہوں نے مسلم متاثرین  کو اپنے بیان واپس لینے کے لیے دھمکایایا ہندو ملزم اور دنگا متاثرین یا گواہوں کے بیچ سمجھوتہ کروایا تھا۔تین ٹاپ پبلک پراسیکیوٹرس ارویند پنڈیا، دلیپ درویدی اور بھارت بھٹ ٹیپ میں تھے، جو خود کو پھنسانے والا بیان دے رہے تھے۔دلیپ ترویدی، جو کہ اس وقت  وشو ہندو پریشد کی گجرات اکائی کے جنرل سکریٹری تھے،ان  کو گجرات سرکار کی جانب سے مہسانہ ضلع میں سینئر پبلک پلیڈرمقرر کیا گیاتھا۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

فسادات کے دوران مہسانہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک تھا۔ ان کے قبولنامے کا مطلب تھا کہ ریاست کی پولیس، استغاثہ  اور دفاعی فریق میں ایسےگروپ  تھے، جو مل کر دنگائیوں کو بچانے کے لیے کام کر رہے تھے۔

ترویدی کو اس ٹیپ میں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے؛‘میں نے گجرات کےتمام معاملوں کو کوآرڈنیٹ کیا ہے۔ وشو ہندو پریشد کا جنرل سکریٹری  ہونے کے ناطےمیں نے عدالتوں میں تمام معاملوں میں کوآرڈنیٹ کیا ہے، اس لیےسارے وکیلوں نے مجھے اپنی بلامعاوضہ خدمات  دیں اور یہی وجہ  ہے کہ وہ میرے اتنے قریب ہیں۔’

استغاثہ اور دفاعی فریق کے بیچ کوآرڈنیٹ کرنے کے علاوہ ترویدی نے کہا کہ ‘وہ ڈی جی پی اور ان کے ماتحت آنے والے ڈی آئی جی اور اےجی پی جیسے لوگوں کے ساتھ بھی تال میل کرنے کا کام کر رہے تھے۔’یہ سب ممکن کیسے کیا گیا،یہ سمجھنے کے لیے ریکارڈنگ کے کچھ اہم  حصے دیکھیے:

کھیتان: مہسانہ میں کتنے معاملے درج ہیں؟

ترویدی: مہسانہ میں182شکایتیں دائر کی گئی تھیں، جن میں سے 78 معاملوں میں چارج شیٹ درج کی گئی ہے۔ دو معاملوں میں اسے بعد میں درج کیا گیا… ان 80 معاملوں میں3التوا میں  ہیں… تین یا چار… باقی 76 بند ہو گئے ہیں۔

کھیتان: ہندوؤں کے حق میں؟

ترویدی: صرف دو معاملوں میں الزام ثابت ہوا۔ باقی74 معاملوں میں تمام ملزموں کو بری کر دیا گیا۔ ان دو معاملوں میں، جن میں الزام  ثابت ہوا تھا، ہم نے ایک میں اپیل کی اور ملزم کو بری کرا لیا۔ دوسرے میں ہم نے ہائی کورٹ  میں اپیل دائر کی ہے۔ اپیل کو منظور کیا گیا ہے اور ملزم کو ضمانت مل گئی ہے۔ وہ الزام بھی غلط تھا۔ کچھ اضلاع میں وہ ابھی بھی جیلوں میں ہیں۔ 3000 سے زیادہ ہندوؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 100-150 لوگ ہی ہیں، جنہیں ابھی تک ضمانت نہیں ملی ہے۔

کھیتان: یعنی گودھرا کانڈ کے بعد ہوئے فسادات میں سب سے زیادہ متاثرمہسانہ تھا؟

ترویدی: اس نے کئی جگہوں پر خطرناک صورت اختیار کر لیا، جیسے بیس نگر، بیجاپور تحصیل۔

کھیتان بیجاپور؟

ترویدی: ایک چھوٹا سا گاؤں ہے سردارپور۔ سردارپور جہاں مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگا دی گئی تھی، 14 لوگ ملزم تھے۔ یہ ایک بڑا معاملہ تھا۔ سپریم کورٹ نے اس پر اسٹے لگا دیا ہے۔ اب میں فکرمند نہیں ہوں، کیونکہ معاملے کے تمام ملزموں کو ضمانت مل گئی ہے۔

جبکہ میں ترویدی کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا، دو لوگ ایک دنگے سے متعلق  معاملے کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیےاندر داخل ہوئے، جس میں ہندو ملزم تھے۔ان لوگوں کو ملزمین کی طرف سے کیس لڑنے کے لیے وکیل چننے میں ترویدی کی مدد کی ضرورت تھی۔ ترویدی نے کچھ وکیلوں کو فون کیا اور ان کے لیے ایک مناسب  وکیل تلاش کرنے کی کوشش کی۔

ان دو لوگوں کے آفس سے جانے کے بعد ترویدی نے کہا کہ اس معاملے کو دیکھ رہا دفاعی فریق  کا وکیل بیمار پڑ گیا ہے اور ایسے میں اس کے نئے وکیل کو ڈھونڈنے کی ذمہ داری ایک بار پھر اس کے اوپر آ گئی ہے۔سابرکانٹھا ضلع میں، نریندر پٹیل اور موہن پٹیل دونوں ہی آر ایس ایس کے ممبر نے مجھے کہا کہ فسادات کے بعد آر ایس ایس نے ہندو دنگائیوں کو قانونی مدد دلوانے کے لیے سنکلن نام کی ایک اکائی کا قیام کیا تھا۔

وشوہندو پریشدکے کئی وکیل،جن کی اپنی نجی پریکٹس تھی،ملزموں کی طرف سے وکیل بن گئے اور پبلک پراسیکیوٹرس نےجو یا تو وشوہندو پریشد کے ممبر تھے یا سنگھ کے حامی تھے، انہوں نے دنگائیوں کو بالواسطہ  مدد پہنچائی۔ارولی ضلع میں میں پبلک پراسیکیوٹر بھارت بھٹ سے ملا، جو وشو ہندو پریشد کے ضلع صدر بھی تھے۔ بھرت نے کہا کہ وہ کورٹ سے باہر سمجھوتے کی کوششوں کے ذریعے ملزموں کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

بھٹ: موڈاسا میں کل معاملوں کی تعداد1400 ہے…جن میں سے 600یاتقریباً550 شروع میں ہی نپٹا دیے گئے۔ باقی کو پھر سے کھولا گیا… جب انہیں پھر سے کھولا گیا، تو لوگ پریشان ہوئے۔ اب سپریم کورٹ نے جو رخ اپنایا ہے، اس سے لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ نچلی عدالتوں کے ججوں میں حوصلہ نہیں ہے… ہمت نہیں ہے…

کھیتان: کیا انہوں نے شروع میں حوصلہ دکھایا تھا؟

بھٹ: ہاں انہوں نے شروع میں ایسا کیا…اصل میں ابھی اوپری عدالتوں میں سے ایک نے بڑودا معاملے میں پھر ٹرائل چلانے کا آرڈر دیا ہے۔

کھیتان: بیسٹ بیکری

بھٹ: ہاں بیسٹ بیکری… اس کے بعد نئے لوگوں کا حوصلہ گر گیا۔

کھیتان: لیکن ابھی بھی لوگوں کی  کچھ حمایت ہے…

بھٹ: ہم اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں…میں نے یہاں جن بھی معاملوں کو دیکھا ہے، میں ان میں مسلمانوں کے لیے کافی سخت تھا…وہ اپنے بیان بدلتے رہے…اضافی بیان دیے،… میں نے کہا کہ وہ ثبوت مانے جانے لائق نہیں ہیں۔

بھٹ نے اس کے بعد یہ بتایا کہ انہوں نے ایک متاثرہ کو 10 لاکھ دلوا کر ایک ہندو ملزم کے خلاف مقدمہ بند کرانے میں مدد کی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دوسرے معاملے کے بارے میں بتایا، جس میں انہوں نے متاثرین کو پیسےکی ادائیگی کے لیے پیسے اکٹھے کیے تاکہ وہ الزام واپس لے لیں۔

کھیتان: پیسے کیسے اکٹھے کیے گئے؟

بھٹ: ان لوگوں نے خود  دیا…

کھیتان: ملزموں نے؟

بھٹ: ملزم نے دیا… اس سے پہلے جب میں ضلع میں ان سارے معاملوں کو دیکھ رہا تھا، تب میں کبھی بھی ملزم سے کوئی پیسہ نہیں لیا کرتا تھا۔ میں ملزموں کے گاؤں میں اجلاس کیا کرتا تھا اور اور وہاں کے امیر لوگوں کو بتایا کرتا تھا کہ کشمیر، پنجاب، ہریانہ اور یوپی میں ایسے لوگ تھے، جن کے پاس کروڑوں کی ملکیت تھی، لیکن ایک بار جب ان کے قریب مدرسہ کھل گیا، تب وہ سب کچھ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔آپ کے پاس پیسے ہونے کا مطلب کیا ہے اگر آپ اپنی کمیونٹی کی بھلائی کے لیے اس کا استعمال نہیں کر سکتے؟ کچھ لوگوں نے 5000 دیے، دوسروں نے 10000 کبھی کبھی ایک لاکھ بھی دیے،… اس طرح سے ہم نے 5-7 لاکھ روپے جمع کیے۔ معاملے کو رفع دفع کرانے کے لیے اتنا پیسہ لگا کیونکہ یہ کھلے عام کیا گیا قتل  تھا اور اس نے اپنے تلوار کا استعمال آدمی کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے کیا تھا۔ پانچ لوگوں نے یہ کیا، لیکن انہوں نے (متاثرین نے)اس کی جگہ کچھ بھلے لوگوں کا نام دے دیا، مثلاً میڈیکل اسٹور کے مالک کا۔

کھیتان: موڈاسا میں؟

بھٹ: نہیں بھلودا میں۔ میں نے اس معاملے کو 460000 روپے میں رفع دفع کروایا، جس میں سے 4 لاکھ روپے میں نے لوگوں سے جمع کیے تھے۔

میں نے گلبرگ معاملے کے ملزم پرہلاد راجو کا اسٹنگ کیا، جس نے کہا کہ جب وہ فرار تھا، تب پبلک پراسیکیوٹر انے اس بات کو لےکر صلاح دی تھی کہ اسے کب پولیس کے سامنے سرینڈر کرنا چاہیے۔ناناوتی شاہ کمیشن میں اس وقت گجرات سرکار کے وکیل ارویند پنڈیا نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کمیشن کی‘کارر وائی’ کو ‘مینج’ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

پنڈیا نے کہا،‘جب یہ واقعہ رونما ہوا، اس وقت  ایک ہندومبنی سرکار تھی، اس لیے لوگ تیار تھے اور ریاست بھی تیار تھی۔ یہ ایک خوشگوار اتفاق  تھا۔’میں پنڈیا سے دو بار ملا، 6 جون اور 8 جون 2007 کو۔ دونوں ہی مواقع پر پنڈیا نے اس بات پر زور دیا کہ اگر 2002 میں غیر بی جے پی سرکار ہوتی، تو دنگے کبھی نہیں ہوئے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ نریندر مودی گودھرا کانڈ سے اتنے زیادہ اکھڑے ہوئے تھے کہ وہ خود جہاپورہ(احمدآباد میں ایک مسلم بستی)پر بم گرا دیتے، لیکن وزیر اعلیٰ  کی کرسی ان کے آڑے آ گئی۔

2012 میں نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

2012 میں نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

پنڈیا نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل کا جشن ہر سال ‘وجئے دوس’کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو نامرد بنا دینا، ان کا قتل  کر دینے سے بہتر تھا کیونکہ یہ نہ صرف  کم سزا کو دعوت ےگا، بلکہ ایک نامرد مسلمان  اس بات کا چلتا پھرتا اشتہار ہوگا کہ ہندوؤں کی طاقت  کیا ہے۔

پنڈیا نے زور دےکر کہا کہ مسلمانوں کومالی نقصان پہنچانا بھی، ان کو قتل  کرنے جتنا ہی اہم ہے۔اسٹنگ آپریشن کے بعد پنڈیا کی حالت  خراب ہو گئی اور انہیں اپناعہدہ چھوڑنا پڑا۔جانچ افسراےکے ملہوترا کے ذریعے17 مئی،2010 کی تاریخ کی رپورٹ نے اس حقیقت پر مہر لگائی کہ سرکار نے فسادات کے حساس  معاملوں میں وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس سے جڑے وکیلوں کو پبلک پراسیکیوٹربنایا۔ رپورٹ میں کہا گیا:

ایسا لگتا ہے کہ پبلک پراسیکیوٹرس کی تقرری  کے وقت سرکار نے سیاسی وابستگی   کا دھیان رکھا۔ [ص: 77]

اس کے آگے ایس آئی ٹی کے صدر آر کے راگھون کا تبصرہ تھا،‘یہ پایا گیا ہے کہ ماضی میں مقرر کیے گئے کچھ لوگ اصل میں یا تو مقتدرہ پارٹی یا اس کے لیے ہمدردی  رکھنے والی تنظیموں  سے سیاسی طور پرجڑے ہوئے تھے۔ [ص:10]

لیکن ایس آئی ٹی نے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سمیت ریاست  کے سینئرعہدیداروں کے خلاف بڑی سازش کا معاملہ نہیں بنایا، کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ ان الزامات کوثابت کرنے کے لیے پراسیکیوٹیبل ایویڈنس نہیں تھے۔پراسیکیوٹیبل ایویڈنس کی کمی کا ڈھنڈورا تب سے بی جے پی مودی کے لیے‘کلین چٹ’کے طور پر پیٹ رہی ہے۔

ایسے میں جبکہ دہلی فسادات کے معاملوں کے لیے مرکز اپنی پسند کے پبلک پراسیکیوٹرس پر زور دے رہا ہے یہی امید کی جا سکتی ہے کہ تمام متاثرین  کوانصاف  ملےگا اورانصاف  کے اغواکی  وہ تاریخ  پھر سے نہیں دہرائی جائےگی جیسا گجرات فسادات کے معاملوں میں ہوا تھا۔

(مضمون نگاردہلی حکومت کے ڈائیلاگ اینڈ ڈیولپمنٹ کمیشن کے سابق صدر ہیں۔)