فکر و نظر

’نیتا لوگ ہوائی جہاز سے بیٹھ کے دیکھتا ہے، او لوگ کو ناؤ میں آکے دیکھنا چاہیے کہ ہم کس حال میں ہیں‘

گراؤنڈ رپورٹ:کورونا وائرس کا مرکز بن کر ابھر رہے بہار کے کئی علاقے سیلاب کے خطرے سے بھی جوجھ رہے ہیں۔  شمالی بہار کے لگ بھگ تمام اضلاع سیلاب کی چپیٹ میں ہیں اور لاکھوں کی آبادی متاثر ہے۔ لیکن پانی میں ڈوبے گاؤں-گھروں میں جیسے تیسے گزارہ کر رہے لوگوں کو مدد دینا تو دور، سرکار ان کی خبرہی نہیں لے رہی ہے۔

سرنی کرماوا میں سڑک پر بہہ رہا پانی۔ (تمام فوٹو: ابھینو پرکاش)

سرنی کرماوا میں سڑک پر بہہ رہا پانی۔ (تمام فوٹو: ابھینو پرکاش)

‘میرا گھر یہاں تھا…وہاں تمہارا…پرانا پیپل میرے گھر کے ٹھیک سامنے تھا…دیکھو، نہ مانتے ہو تو نقشہ لاؤ…امین بلاؤ، ورنہ فوجداری ہو جائےگی… پھر روز وہی پرانے قصے۔

اور زمین سوکھنے نہیں پاتی کہ بیماریوں کی باڑھ موت کی نئی نئی صورتیں لےکر آ جاتی ہے۔ ملیریا، ہیضہ، چیچک، نمونیا، ٹائفائیڈ اور کوئی نئی بیماری جسے کوئی ڈاکٹر سمجھ نہیں پاتے۔ چیخ، کراہ، چھٹپٹاتے اور دم توڑتے ہوئے خلامیں انسان…’

ہندی ادب  کے اہم  ناموں میں سے ایک پھنیشور ناتھ رینو نے 1948میں بہار کےسیلاب کو رپورتاژکی شکل میں ڈھالتے ہوئے ‘ڈائن کوسی‘ لکھا تھا۔مذکورہ سطریں بہار کی سالانہ سیلاب کی دہشت کو بیاں کرتی میڈیا رپورٹس میں آتی رہیں، بدلے تو بس ندیوں، علاقوں اور لوگوں کے نام، جو نہیں بدلا، وہ ہے اس کی چپیٹ میں آئے لوگوں کی مصیبت…

پھر یہ وقت بھی ایسا ہے کہ ملک کسی ایک مصیبت سے نہیں گزر رہا۔ کورونا وائرس کا مرکز بن کر ابھر رہے بہار میں کئی اضلاع سیلاب کی چپیٹ میں ہیں۔ کئی علاقوں میں گاؤں کے گاؤں ڈوبے ہوئے ہیں۔ایسے علاقوں میں شمالی بہار بھی ہے۔ یہاں کے لگ بھگ تمام اضلاع خوفناک سیلاب کی چپیٹ میں ہیں۔ گنڈک، لال بکیہ، باگمتی اور بوڑھی گنڈک جیسی ندیوں میں پانی خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہا ہے اور لاکھوں کی آبادی متاثر ہے۔

ادھر ریاستی سرکار کے آبی وسائل کے وزیر سنجے کمار جھا کا دعویٰ ہے کہ اس سال سرکار آرٹی فیشیل انٹلی جنس کا سہارا لے رہی ہے، جس سے بارش اور سیلاب کے بارے میں ضلع انتظامیہ کو پہلے ہی آگاہ کیا جا رہا ہے اور سیلاب کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دی  وائر نے بوڑھی گنڈک، نارائنی، لال بکیہ، باگمتی اور گنڈک ندی کے سیلاب متاثرہ حصوں کا دورہ کرنے اور متاثرین  سے بات چیت کے بعد پایا کہ سیلاب متاثرہ حصوں میں لوگ سرکاری مدد کے لیے ترس رہے ہیں۔

لال بکیہباگمتی

مشرقی چمپارن ضلع کا سکرہنا سب ڈویژن لال بکیہ ندی میں آئےسیلاب کا قہرجھیل رہا ہے۔ یہاں ڈھاکہ شہر کو بیرگنیا سے جوڑ نے والی مین سڑک سرنی گاؤں کے پاس بہہ گئی ہے۔سڑک پر چار فٹ سے زیادہ پانی بہہ رہا ہے اور آس پاس کے کئی پنچایتوں میں پانی بھر گیا ہے۔ کئی جھگی جھوپڑیاں سیلاب میں بہہ گئی ہیں۔ لوگ خود سے محفوظ مقامات پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سرنی گاؤں کے مہیش ٹھاکر بتاتے ہیں،‘تین دن پہلے یہ سڑک پانی میں بہہ گیا ہے۔ ایک روز پہلے ضلع مجسٹریٹ شیرشت کپل اشوک نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا، لیکن ہمارے گاؤں میں ابھی تک کوئی ناؤ آیا ہے اور نہ ہی کوئی راحت کاسامان۔ لوگ پانی کے بیچ گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔’

گرہینوا پنچایت کا پاسوان ٹولی گاؤں لال بکیہ ندی کی دھارا کے سامنے پڑتا ہے۔ اس گاؤں کے 25-30 فیملی کا دعویٰ ہے کہ ندی میں آئے سیلاب کی وجہ سے ان کا گھر بہہ گیا ہے۔متاثرین  نے گرہینوا اسٹیشن کے پاس پناہ لے رکھی ہے۔ چندہ دیوی کی فیملی بھی انہی میں سے ایک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب میں ان کا اینٹوں کا بنا گھر ٹوٹ گیا ہے اور گھر کے سب لوگ اسٹیشن پر رہنے کو مجبور ہیں۔

وہ بتاتی ہیں،‘ہم کو یہاں آئے 7 دن ہو گیا لیکن سرکار نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ پڑوس کے گاؤں کا کوئی کوئی گھر ہمیں پکا ہوا کھانا کبھی کبھار دے جاتا ہے جس کے سہارے جی رہے ہیں۔’انہوں نے آگے بتایا،‘دو دن پہلے بلاک کا ایک افسر آیا تھا اور بولا کہ یہ سیلاب نہیں بارش کا پانی ہے اس لیے ابھی کوئی راحت نہیں ملےگا۔’

گرہینوا اسٹیشن پر ہی بیوہ سلاکھی دیوی اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں،‘سیلاب میں ہمارا پھوس کا گھر ٹوٹ گیا۔ اب ہم لوگ یہاں رہ رہے ہیں، کوئی نیتا ہم کو پوچھنے بھی نہیں آیا ہے۔2017 کے سیلاب میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اس وقت بھی ہمیں کوئی راحت نہیں ملی تھی۔ یہاں تک کہ سیلاب راحت میں ملنے والا 6000 روپے بھی ہم لوگوں کو نہیں ملا ہے۔’

گرہینوا اسٹیشن پر رہ رہیں چندہ دیوی۔

گرہینوا اسٹیشن پر رہ رہیں چندہ دیوی۔

بہار سرکار نے سیلاب متاثرین  کے بینک کھاتے میں6000 روپے بھیجنے کا اعلان پچھلے سال ہی کیا تھا۔ سرکار کا کہنا تھا کہ سیدھے بینک کھاتے میں پیسہ بھیجنے سے ضرورت مند لوگوں کو فائدہ  ملےگا، لیکن لوگوں کی شکایت ہے کہ انہیں پچھلے سال کا پیسہ بھی آج تک نہیں ملا تو اس سال کے لیے کیا امید کریں۔

اس معاملے پر ڈھاکہ کے سرکل آفیسر اشوک کمار کا کہنا ہے کہ اس گاؤں کے لوگ عادتاً ہر سال اپنا گھربار چھوڑ کر اسٹیشن پر رہنے چلے آتے ہیں اور اکتوبر مہینے تک ادھر ہی رہتے ہیں۔راحت کی رقم نہ ملنے کی بات پر انہوں نے کہا، ‘بارش سے متاثرہ  لوگوں کو نہیں بلکہ سیلاب متاثرین  کو یہ پیسہ دیا جاتا ہے۔’انہوں نے آگے کہا کہ گرہینوا پنچایت کے مکھیا کو کہا ہے کہ متاثرین  کے بیچ پلاسٹک بٹوا دیں۔

سال2017 میں بہار کے 19اضلاع میں سیلاب سے لگ بھگ 2 کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے اور 514 لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔لال بکیہ ندی پر بناباندھ2017 میں ٹوٹ گیا تھا جس سے کئی پنچایت بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ اس بار بھی لال بکیہ ندی پر بنے باندھ  میں کئی جگہ بہاؤ کی خبر سامنے آئی ہے۔

آبی وسائل کے وزیرسنجے کمار جھا نے 24 جولائی کو ان علاقوں کا ہوائی سروے کیا تھا اور کہا کہ بہار نیپال میں شدید بارش کی وجہ سے آبی سطح میں اضافہ  ہوا ہے، پر جان مال کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔مشرقی  چمپارن ضلع کی لال بکیہ ندی شیوہر ضلع میں باگمتی ندی میں مل جاتی ہے۔ اس سے شیوہر، سیتامڑھی اور مظفر پور جیسے ضلع بھی سیلاب کی خوفناک چپیٹ میں ہیں۔

سیتامڑھی کے محمد سراج بتاتے ہیں،‘اس بار بھی2017 کی طرح ہی سیلاب آیا ہے۔ سیتامڑھی شہر کے آس پاس بھی پانی پہنچ گیا ہے اور کئی بلاک  پوری طرح ڈوب گئے ہیں۔ سیلاب کا عروج اس ضلع میں پہنچ گیا ہے۔ سیتامڑھی پپری روڈ پر باس پٹی میں سڑک کے اوپر سے پانی بہہ رہا ہے۔ عام زندگی بے حال ہے۔’

اس علاقےکے باس پٹی، پر ہار، رونی سیدپر اور ریگا بلاک کے لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہیں۔

بوڑھی گنڈک

ہم مشرقی  چمپارن میں بوڑھی گنڈک کے کنارے بسے ہسواہاں گاؤں پہنچے۔ لگ بھگ 2000 کی آبادی والا یہ گاؤں ایک ٹاپو کی طرح چاروں طرف سے پانی سے گھر گیا ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار اور انتظامیہ نے انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔گاؤں والے  بتاتے ہیں کہ علاقے  کے ایم ایل اے اور بہار سرکار میں وزیرپرمود کمار  باندھ (ہسواہاں گاؤں سے لگ بھگ ڈیڑھ کیلومیٹر دور)سے ہی معائنہ کرکے چلے گئے۔ انہوں نے بس اتنا کہا کہ کچھ کریں گے۔

ہسواہاں گاؤں میں ایک گھر۔

ہسواہاں گاؤں میں ایک گھر۔

پانی میں ڈوبے اس گاؤں کے ہر آدمی کی پریشانی  ایک جیسی ہے۔ گھروں کے اندر3 سے 4 فٹ پانی بھرا ہوا ہے۔ لوگ بانس کے بنے مچان پر بیٹھ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ساٹھ سال کی بزرگ جئنی دیوی کے گھر کے بیچ سے 4 فٹ پانی بہہ رہا ہے۔پچھلے چار دن سے گھر کے سبھی لوگ مچان پر بیٹھ کر دن بتا رہے ہیں۔ باہر نکلنا تو دور ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا بھی دوبھر ہے۔

جئنی دیوی بتاتی ہیں،‘ہمارے لیے کوئی سرکار نہیں ہے۔ 4 دن سے ہم یہاں پانی میں ڈوب کر مر رہے ہیں پر کوئی پوچھنے نہیں آیا۔ کسی طرح اسی مچان پر چولہا رکھ کر کھانا بن رہا ہے۔ سانپ بچھو کا بھی ڈر رہتا ہے۔ اگر سرکار ناؤ بھیجتی تو ہم اونچی جگہ پر بھی چلے جاتے۔’

لال بابو مکھیا کہتے ہیں کہ نیتا لوگ ہوائی جہاز سے سروے کرتا ہے او لوگ کو ناؤ میں بیٹھ کر ہمارے گاؤں میں آکر دیکھنا چاہیے کہ ہم کس حالت سے گزر رہے ہیں۔

مکیش مکھیا بتاتے ہیں،‘ہر 2-3 سال میں ہمارے گاؤں کو خوفناک سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن نہ ڈھنگ سے معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی راحت۔ ہمیں اس مہینے کا راشن بھی نہیں ملا ہے۔ اگر ایک ہفتے اور سیلاب رہ جائے تو گھر میں اناج کی دقت ہو جائےگی۔’

وہ آگے بتاتے ہیں،‘ہمارے گاؤں میں دھان کی کھیتی تو ہمیشہ سے بہہ جاتی ہے، ہم صرف گیہوں اور گنا کی کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے لوگوں نے مٹی کی غیرقانونی کھدائی  کرائی ہے جس سے آس پاس کی زمین بھی دھنس گئی ہے اور اب کوئی بھی فصل ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔’

بوڑھی گنڈک ندی کے کنارے بسے کئی گاؤں میں پچھلے کچھ سالوں سے مٹی کی غیرقانونی کھدائی  ہو رہی ہے۔ اس سے اس علاقےکے فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ہسواہاں گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سیلاب کا پانی 10-15دن میں نکل بھی جائے، تو مٹی کی کھدائی  کے بعد جو بڑے بڑے گڑھے ہوئے ہیں ان کی وجہ سے کوئی فصل اگنے کا امکان  نہیں ہے۔

سیلاب کی وجہ سے آمدورفت  کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بیمار لوگوں کے علاج کرانے میں بھی دقت ہو رہی ہے۔کشور مکھیا نے بتایا کہ پچھلے دنوں رام دیو مکھیا نام کے ایک شخص کی موت علاج نہ ملنے کی وجہ سے ہو گئی۔وہ بتاتے ہیں،‘گاؤں کے چاروں طرف اتھاہ پانی بہہ رہا ہے۔ رام دیو مکھیا کو پہلے سے کوئی بیماری نہیں تھی، وہ اچانک سے بیمار پڑے۔ ہم نے اسپتال میں فون کیا پر کوئی سہولت نہیں ہونے کی وجہ سے کیسے لے جاتے، ان کی موت ہو گئی۔’

جگناتھ مکھیا کا مٹی سے بنا گھر پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ٹوٹنے کے دہانےپر ہے۔ فی الحال وہ چھوٹی سی ناؤ سے لوگوں کو اس پار سے اس پار پہنچا رہے ہیں۔ان کی شکایت ہے، ‘سرکار ہر سال سیلاب کے وقت گاؤں کے چھوٹی ناووں کو ہی سرکاری بنا دیتی ہے اور سیلاب بیتنے کے بعد پیسے دینے میں آناکانی کرتی ہے۔ کئی لوگوں کو پچھلے سیلاب کے وقت کا پیسہ بھی نہیں ملا ہے۔’

لال بابو مکھیا۔

لال بابو مکھیا۔

بہار سرکار میں ادب وثقافت  کے وزیر اور علاقے کے ایم ایل اےپرمود کمار نے 23 جولائی کو ہسواہاں باندھ کا معائنہ کیا تھا۔ ان کے ساتھ بلاک  اور ضلع کے کئی افسر بھی موجود تھے۔گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ایم ایل اےکے ساتھ موجود افسروں نے فوراًکوئی راحت دینے کے بجائے کہا کہ ہم دیکھ لیے اور اب اس علاقے کو سیلاب زدہ اعلان  کر دیں گے۔

اس پورے مدعے پر بات چیت کے لیے موتیہاری کے سرکل آفیسرسے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن بات نہیں ہو سکی۔ ان کا بیان ملنے پر رپورٹ میں جوڑا جائےگا۔اسی ضلع کا سگولی بلاک  بھی بوڑھی گنڈک ندی میں آئے سیلاب کا قہرجھیل رہا ہے۔ سکل پاکڑ گاؤں کے محمد صغیر بتاتے ہیں،‘یہاں لال پرسا رنگباندھ ٹوٹ چکا ہے، ہمارے گاؤں کاباندھ بھی ٹوٹنے والا ہے۔ گاؤں میں پانی بھر گیا ہے۔ ڈر کی وجہ سے ہم لوگ رات رات بھر جاگ کر بتا رہے ہیں۔’

صغیر کے مطابق ضلع انتظامیہ  کی طرف سے کسی بھی افسر نے نہ اس علاقے کا دورہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی راحت پہنچائی گئی ہے۔بوڑھی گنڈک کا قہر مغربی  چمپارن ضلع بھی جھیل رہا ہے۔ ضلع ہیڈکوارٹر  بتیا سمیت لگ بھگ تمام بلاک  سیلاب سے متاثر ہیں۔ یہاں سیلاب میں ڈوبنے سے کم سے کم چار لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

گنڈک

مشرقی  چمپارن ضلع کے جنوبی  حصہ میں بسا کیسریا بلاک  گنڈک ندی سے آئے سیلاب کی چپیٹ میں ہے۔ یہاں بھوانی پورباندھ  کے ٹوٹ جانے کے بعد نگر پنچایت تک میں پانی داخل ہو گیا ہے۔چنی کماری بتاتی ہیں،‘ہم لوگ چاروں طرف  سے پانی سے گھرے ہیں، کہیں سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔’

وہیں مظفر پور ضلع کا میناپر، کٹرا، اورائی، گائےگھاٹ، کانٹی اورصاحب گنج کے بلاک  گنڈک کے سیلاب کی چپیٹ میں ہیں۔

جئنی دیوی۔

جئنی دیوی۔

مظفر پور کے وویک کمار بتاتے ہیں،‘ضلع مجسٹریٹ  چندرشیکھر سنگھ نے گزشتہ جمعہ  کو سیلاب متاثر گائےگھاٹ کا دورہ کیا تھا۔ لیکن کوئی راحت دینے کے بجائے ریلیف فنڈسے ملنے والے 6000 روپے کی مدد دینے کی بات کہی۔وویک کمار آگے کہتے ہیں،‘ضلع میں سرکاری ناؤ کا بھی انتظام  نہیں ہے۔ اگر موڑٹوٹ گیا، تو آمدورفت پوری طرح ٹھپ ہو جائےگا۔’

بہار سرکار کے محکمہ آفات کے مطابق سیتامڑھی ضلع میں ایس ڈی آرایف کی2، مظفر پور میں این ڈی آرایف اور ایس ڈی آرایف کی1-1،مشرقی  چمپارن میں این ڈی آرایف کی 2،مغربی  چمپارن میں این ڈی آرایف اورایس ڈی آرایف کی 2 اور 1 ٹیمیں تعینات ہیں۔

سیلاب کی تیاریوں کے سرکاری دعووں کے باوجود زمینی سطح پر لوگ بنیادی ضروریات کی چیزوں کے لیے پریشان ہیں۔

شمالی  بہار کا لگ بھگ ہر ضلع آج کئی مورچوں پرجدوجہدکر رہا ہے۔ سیلاب، بارش اور کورونا وائرس کے لگاتار پھیلتے انفیکشن  سے لوگ متاثر بھی ہیں، فکرمند بھی اور سرکار کے لیے غم وغصہ بھی ہے۔

(مضمون نگارکارواں محبت کی میڈیا ٹیم سے وابستہ کارکن ہیں۔)