خبریں

منی پور: فیس بک پوسٹ کی وجہ سے سیاسی کارکن پر سیڈیشن کا مقدمہ درج

سال 2017 میں سماجی کارکن اروم شرمیلا کے ساتھ ایک سیاسی پارٹی  بناکراسمبلی انتخاب لڑنے والے سیاسی کارکن ایریندرو لیچومبم منی پور میں بی جی پی کی قیادت  والی سرکار کے بولڈناقد رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہیں مئی 2018 میں فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ایریندرو لیچومبم۔ (فوٹو: Erendro Leichombam/Facebook)

ایریندرو لیچومبم۔ (فوٹو: Erendro Leichombam/Facebook)

نئی دہلی: منی پور پولیس نے 25 جولائی کو اپنے فیس بک پیج پر ایک تبصرہ کے لیےسیاسی کارکن ایریندرو لیچومبم کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، پولیس نے متعلقہ پوسٹ کا انکشاف نہیں کیا لیکن یہ شبہ ہے کہ ایریندرو لیچومبم کو اس پوسٹ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے جس میں منی پور کے سابق  راجہ اوربی جے پی کی حمایت کے ساتھ نومنتخب  راجیہ سبھاممبر سنجوبا لسیمبا کی تصویر ہے۔

اس تصویر میں لسیمبا جھک کر بی جے پی رہنما امت شاہ کا استقبال کرتے نظر آ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ایریندرو نے ‘منائی ماچا’ لکھا ہے، جس کا مطلب ہے ‘نوکر کا بیٹا۔’منی پور میں بی جے پی کی قیادت والی سرکار کے بولڈ ناقد ایریندرو کو مئی 2018 میں فیس بک پیج پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے کےکی وجہ سےگرفتار کر لیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیومختلف کمیونٹی کےبیچ دشمنی اور مجرمانہ دھمکی کو بڑھاوا دینے والا ہے۔ اس کے بعد جون 2018 کے پہلے ہفتے میں انہیں ایک مقامی عدالت سے ضمانت مل گئی تھی۔منی پور میں2017 کے اسمبلی انتخاب  سے پہلے ایریندرو نے ایک سیاسی پارٹی پی جی آراےبنایاتھا۔

انہیں اس سیاسی پارٹی  کی تشکیل اے ایف ایس پی اے کے خلاف 16 سال  کے بعد بھوک ہڑتال توڑنے والی اروم شرمیلا کے ساتھ کی تھی۔دونوں ہی سیاسی کارکنوں کو انتخاب  میں ہار کا سامنا کرنا پڑا، جس میں پہلی بار بی جے پی  ریاست میں اقتدارمیں آنے میں کامیاب  ہو پائی۔

گزشتہ26 جولائی کو دوپہر میں امپھال ایسٹ پولیس ایریندرو کو گرفتار کرنے ان کے گھر پہنچی۔ حالانکہ، تب وہ انہیں حراست میں نہیں لے سکی کیونکہ وہ دہلی میں تھے۔وہیں اس دوران جب ایریندرو کے بھائی نے پولیس سے الزامات کے بارے میں پوچھا توپولیس والوں نے کہا کہ یہ ایک فیس بک پوسٹ کے سلسلے میں ہیں۔ حالانکہ، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سا فیس بک پوسٹ ہے۔

ایریندرو نے دی وائر سے کہا، ‘جب میرے بھائی نےگرفتاری وارنٹ یا میرے خلاف الزامات کی تصدیق کرنے والے کچھ دستاویز کے لیے پوچھا تو ایک انہیں ایف آئی آر  دکھائی گئی، جس کو دیکھ کر لگا کہ میری پوسٹ پراز خود نوٹس میں لیا گیا ہے۔ لیکن انہیں نہ تو اس کی کاپی دی گئی اور نہ ہی فوٹو لینے دیا گیا۔ حالانکہ انہیں زبانی طور پر بتایا گیا کہ مجھ پر کن دفعات کے تحت الزام  لگایا گیا ہے۔’

کئی میڈیا رپورٹ نے امپھال ایسٹ پولیس کے حوالے تصدیق  کی ہے کہ ایریندرو پر آئی پی سی کی دفعہ153(دنگا بھڑ کانے کی وجہ )، 124اے (سیڈیشن) اور 505(عوامی طور پر شرارت)کے تحت فیس بک کے لیے معاملہ درج کیا گیا ہے۔اس سے پہلے ایریندرو نے ریاستی  پولیس افسر برندہ کی حمایت میں 18 جولائی کو ایک فیس بک پوسٹ بھی کیا تھا۔

بتا دیں کہ اس مہینے کی شروعات میں نارکوٹکس اینڈ افیئرس آف بارڈر بیورو(این اےبی)کی ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تھوؤناؤجم برندہ نے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ اور ریاست میں بی جے پی کے ایک سینئر رہنما پر ڈرگ ڈیلر کو چھوڑنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالنے کاالزام  لگایا تھا۔برندہ نے 13 جولائی کو امپھال ہائی کورٹ کےسامنے دائر ایک حلف نامے میں یہ الزام  لگائے تھے۔

ایریندرو نے کہا، ‘مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ میں سرکار پر سوال اٹھا رہا ہوں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پولیس میرے گھر آئی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں وہ پرامن اور جمہوری طور پر احتجاج کرنے کے لیے کئی بار آ رہے ہیں۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ سرکار پر سوال اٹھانے والے کسی بھی شخص کو چپ کرانے کی جان بوجھ کر کی گئی کوشش ہے، جو ایک جمہوریت میں ایک شہری کے طور پرہمارا حق ہے۔’

انہوں نے کہا کہ انہیں منی پور لوٹنے سے ڈر لگ رہا ہے کیونکہ سرکار انہیں اسی طرح قید کر سکتی ہے جس طرح سے انہوں نے صحافی کشورچندر وانگ کھیم کو کیا تھا۔انہوں نے آگے کہا، ‘کشورچندر کو پہلی بار نومبر 2018 میں سیڈیشن کے ایک معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت کے ذریعے رہا کرنے کے بعد، انہیں این ایس اےکے الزامات میں پھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور لمبے وقت تک جیل میں رکھا گیا تھا۔

وہ میرے ساتھ بھی ایسا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہمارے جیسے لوگوں کے پیچھے آنے کی وجہ عام لوگوں میں خوف  کا ایک ماحول پھیلانا ہے، تاکہ وہ سرکار کے خلاف نہ کھڑے ہوں۔’کشورچندر کو نومبر 2018 میں ایک یوٹیوب ویڈیو کے لیے گرفتار کیا گیا تھا جس میں انہوں نے وزیر اعظم  نریندر مودی اور آر ایس ایس کی تنقیدکی تھی۔ منی پور ہائی کورٹ نے انہیں اپریل 2019 کے پہلے ہفتے میں رہا کر دیا تھا۔