خبریں

وزارت داخلہ  نے متنازعہ شہریت قانون کے اصول و ضوابط بنانے کے لیے مزید تین مہینے کا وقت مانگا

پارلیامنٹ سے شہریت ترمیم قانون پاس ہونے کے بعدملک  میں بڑے پیمانے پر اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ اس کی مخالفت  کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر تفریق ہے اورآئین  کے اہتماموں کی خلاف ورزی  ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی:وزارت داخلہ  نے متنازعہ شہریت  قانون (سی اے اے)سے متعلق اصول وضوابط  بنانے کے لیے تین مہینے کاوقت  اور مانگا ہے۔حکام نے اتوار کو بتایا کہ اس ضمن  میں اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سب آرڈینیشن کو درخواست دی گئی ہے۔ضابطہ کے تحت کسی بھی ایکٹ کو صدر سے منظوری ملنے کے چھ مہینے کے اندر اس سے متعلق  اصول و ضوابط بنائے جانے چاہیے،یا توسیع کی اجازت لی جانی چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ سی اے اے میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آئے غیر مسلموں کو ہندوستانی شہریت  دینے کا اہتمام ہے۔اس ایکٹ  کو تقریباً آٹھ مہینے پہلےپارلیامنٹ نے منظوری دی تھی اور اس کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے ہوئے تھے۔

ایکٹ  پرصدر نے 12 دسمبر 2019 کو دستخط کیے تھے۔اس سلسلے میں ایک سینئرافسرنے کہا، ‘وزارت داخلہ  نے سی اے اے پراصول وضوابط بنانے کے لیے تین مہینے کاوقت اور مانگا ہے۔ اس بارے میں اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سب آرڈینیشن کو درخواست دی گئی ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ  نے یہ قدم تب اٹھایا جب کمیٹی  نے سی اے اے کو لےکراصول وضوابط کے اسٹیٹس کے بارے میں جانکاری مانگی۔کمیٹی کی جانب سے  اس عرضی کو قبول کر لیے جانے کی امید ہے۔افسر نے بتایا کہ سی اے اے کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہبی استحصال اور ہراسانی  کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، جین، عیسائی، بودھ، پارسی کمیونٹی  کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینا ہے۔

ان چھ مذاہب  کے لوگ مذہبی استحصال کی وجہ سےاگر31 دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے تو انہیں غیرقانونی مہاجر نہیں مانا جائےگا، بلکہ ہندوستانی شہریت  دی جائےگی۔پارلیامنٹ سے سی اے اے کے پاس  ہونے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر اس کے خلاف مظاہرے دیکھنے کو ملے تھے۔

سی اے اے کی مخالفت کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر تفریق ہے اور آئین  کے اہتماموں کی خلاف ورزی  ہے۔اس پر اعتراض کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سی اے اے اور این آرسی کامقصد مسلم کمیونٹی  کو نشانہ  بنانا ہے۔بین الاقوامی سطح پر بھی اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے کمشنر بھی شامل ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ یہ قانون بنیادی طور پر متعصب  ہے۔

پارلیامانی امورکی قواعد کے مطابق قانون کےنفاذ کے چھ مہینے کے اندرمستقل ضوابط اور ضمنی قانون بن جانے چاہیے۔قواعد کے مطابق کہ اگر وزارت/محکمہ متعینہ  چھ مہینے میں اصول وضوابط بنانے میں ناکام  ہوتے ہیں تو انہیں وقت کی توسیع کے لیے کمیٹی کی اجازت لینی ہوگی اور یہ توسیع  ایک بار میں تین مہینے سےزیادہ  کی نہیں ہوگی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)