خبریں

جھو ٹے الزامات کی ذہنی اذیت کے لیے کارکنوں کو معاوضہ دے چھتیس گڑھ حکومت: این ایچ آرسی

چھتیس گڑھ  پولیس نے سکما ضلع کے ایک شخص کےقتل کے الزام  میں نومبر 2016 میں کچھ ہیومن رائٹس کارکنوں کو نامزد کیا تھا۔ فروری2019  میں سپریم کورٹ کی ہدایت  پر ریاستی سرکار نے معاملے کی جانچ کی اور قتل میں کارکنوں  کارول  نہ پائے جانے پر الزام  واپس لیتے ہوئے ایف آئی آر سے نام ہٹا دیا۔

نندنی سندر(فوٹو: Special arrangement)

نندنی سندر(فوٹو: Special arrangement)

نئی دہلی: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ہیومن رائٹس  کے لیے کام کر رہے کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمے درج کرنے کے لیے چھتیس گڑھ  سرکار کو ایک ایک لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کی ہدایت دی ہے۔چھتیس گڑھ پولیس نے سکما ضلع کے نامہ گاؤں میں شامناتھ بگھیل نام کے ایک شخص کےقتل  کےالزام میں پانچ نومبر 2016 کو ہیومن رائٹس کارکنوں نندنی سندر، ارچنا پرساد، منجو کوواسی، ونیت تیواری، سنجے پراتے اور منگلا رام کرما کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات، آرمس ایکٹ اور یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔

ایسا بتایا گیا کہ یہ معاملہ مہلوک کی بیوی وملا بگھیل کی تحریری شکایت پر درج کیا گیا لیکن اس کے ثبوت ہیں کہ خاتون  نے اپنی شکایت میں کسی کو نامزد نہیں کیا۔بتا دیں کہ پیپل یونین آف سول لبرٹیز(پی یوسی ایل)کی شکایت کی بنیاد پر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے 13 مارچ کو معاوضہ دیے جانے کا آرڈر جاری کیا، لیکن اس آرڈر کی کاپی پی یوسی ایل کو پچھلے مہینے ہی حاصل ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ نے 15 نومبر 2016 کو ان کارکنوں کو گرفتاری سے چھوٹ  دی تھی۔چھتیس گڑھ سرکار نے اس معاملے کی جانچ کرنے یا اسے ختم کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا اس لیے ان کارکنوں نے 2018 میں سپریم کورٹ میں عرضی  دائر کی تھی۔سپریم کورٹ کی ہدایت پر چھتیس گڑھ سرکار نے اس معاملے کی جانچ کی اورقتل کے معاملے میں کارکنوں کا رول  نہ پائے جانے پر فروری 2019 میں الزام  واپس لیتے ہوئے ایف آئی آر سے نام ہٹا لیا۔

نیشنل ہیومین رائٹس کمیشن نے معاملے کو نوٹس میں  لیا اور پولیس کے ذریعے ان کارکنوں کا پتلا جلائے جانے اور بستر کے اس وقت کے آئی جی کلوری کی دھمکی کو نوٹ کیا تھا۔بتا دیں کہ آئی جی کلوری نے کارکنوں کو ‘بستر میں گھسنے پر پتھروں سے مارے جانے کو لےکر’ دھمکی دی تھی۔

کارکنوں پر کوئی معاملہ نہیں ہونے پرکمیشن نے فروری 2020 میں کہا تھا، ‘ہماری مستحکم  رائے ہے کہ پولیس کے ذریعے ان لوگوں کے خلاف جھوٹا معاملہ  درج کیے جانے کی وجہ سے  وہ  یقینی  طور پر ذہنی اذیت سے گزرےہیں اور ان کےانسانی حقوق کی خلاف ورزی  ہوئی ہے۔’

این ایچ آرسی نے مزید کہا، ‘چھتیس گڑھ سرکار کو اس کا معاوضہ دینا چاہیے اس لیے ہم چیف سکریٹری  کے ذریعے چھتیس گڑھ  سرکار سے سفارش کرتے ہیں اور ہدایت دیتے ہیں کہ دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر اور ہیومن رائٹس کارکن نندنی سندر، ارچنا پرساد، ونیت تیواری، سنجے پراتے، منجو اور منگلا رام کرما کو ایک ایک لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے۔ چھتیس گڑھ سرکار نے ان کے ہیومن رائٹس کی شدید طور پرخلاف ورزی کی ہے۔’

کمیشن نے اسی طرح کا معاوضہ دینے کی ہدایت تلنگانہ کے وکلاء کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بھی دیا ہے، جنہیں لگ بھگ سات مہینے سکما جیل میں رکھنے کے بعد تمام الزامات  سے بری کر دیا گیاتھا۔ان تمام متاثرہ  کارکنوں نے پریس نوٹ جاری کرکے کہا، ‘ہم این ایچ آرسی کے اس فیصلےکا خیرمقدم کرتے ہیں اورامید کرتے ہیں کہ ہمیں جوذہنی اذیت دی گئی ہے اور ہمارے وقار کو جو ٹھیس پہنچا ہے، اس کی بھرپائی کے لیے چھتیس گڑھ سرکار فوراًکارروائی کرےگی۔’

نوٹ میں کہا گیا،‘یہ بھی امید ہے کہ ہم لوگوں پر جھوٹے چارج شیٹ داخل کرنے والے ذمہ دار پولیس افسروں ، بالخصوص بستر کے اس وقت کے آئی جی کلوری کے خلاف جانچ کی جائےگی اور ان پر مقدمہ چلایا جائےگا۔’

کارکنوں کا کہنا ہے، ‘کلوری کی قیادت میں چلائے گئے سلوا جڈوم مہم  اور ان کے ماتحت  کام کر رہے اسپیشل پولیس افسروں کو سال 2011 میں تاڑمیٹلا، تماپورم اور مورپلی گاؤں میں آگ زنی کرنے اور سوامی اگنیویش پر جان لیوا حملے کا سی بی آئی کے ذریعے قصوروار پائے جانے کے فوراً بعد ہی ہم لوگوں کے خلاف یہ جھوٹے الزام لگائے گئے تھے۔’

وہ آگے کہتے ہیں،‘یہ افسوس ناک  ہے کہ 2008 کی ہیومن رائٹس  کی سفارشات اور سپریم کورٹ کے لگاتارہدایات کے بعد بھی چھتیس گڑھ سرکار نے ان ہزاروں گاؤں والوں کو کوئی معاوضہ نہیں دیا ہے، جن کے گھروں کو سلوا جڈوم مہم میں جلایا گیا ہے اور نہ ہی ریپ  اور قتل معاملوں کے لیے ذمہ دار افسروں  پر آج تک کوئی مقدمہ درج کیا گیا۔’

کارکنوں نے یہ بھی کہا ہے، ‘چھتیس گڑھ کے تمام ہیومن رائٹس کارکنوں کے معاملوں کو اٹھانے اور کمیشن کے اس فیصلے سے ہمیں واقف کرانے کے لئے ہم پی یوسی ایل کے شکرگزارہیں۔یہ بہت ہی مایوس کن  ہے کہ پی یوسی ایل کی سکریٹری اور چھتیس گڑھ کے ایسے تمام  معاملوں کو خود اٹھانے والی وکیل سدھا بھاردواج کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ہمیں یقین  ہے کہ ان تمام  کارکنوں کو جن پر غلط طریقے سے الزام  لگائے گئے ہیں، انہیں انصاف ملےگا۔’

نوٹ: معاوضہ پانے والے کارکنوں میں سے ایک نندنی سندر دی  وائر کےبانی مدیرسدھارتھ وردراجن  کی اہلیہ ہیں۔