فکر و نظر

کیا امُول کے اشتہارات حکومت کو مکھن لگا رہے ہیں؟

امُول مکھن کے مقبول اشتہارات کشمیر کےخصوصی درجے میں تبدیلی سے لےکر چینی مصنوعات  کے بائیکاٹ  تک کے مدعے پرحکومت کے رویے کے ساتھ حامی بھرتے نظر آتے ہیں۔

رام مندر بھومی پوجن کے موقع  پرآیاامُول کا اشتہار۔ (تمام فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/امُول)

رام مندر بھومی پوجن کے موقع  پرآیاامُول کا اشتہار۔ (تمام فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/امُول)

امُول مکھن کے اشتہار دہائیوں  سے ہندوستان  کے ثقافتی منظرنامے  کا حصہ رہے ہیں۔ان کی شروعات 1966میں ہوئی اور ہورڈنگس پر امُول کی نٹ کھٹ لڑکی یادداشت پر ناقابل فراموش  نقش  چھوڑنے لگی وہ ہمیشہ اشتہار میں رہتی ہے، اور زیادہ کہے بغیرمصنوعات  کےپیغامات کو لوگوں تک پہنچا دیتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے اکثر مکھن کا ذکر تک نہیں ہوتا۔

قابل ذکر ہے کہ50سالوں سے زیادہ کےعرصے میں یہ اشتہاردلچسپ اور تفریحی رہے ہیں، جو صرف اس وقت کی خبر کو ہی نہیں بلکہ مزاج کو بھی اپنی گرفت میں لیتے ہیں کرکٹ اور بالی ووڈ خاص طور پر اس کے پسندیدہ موضوعات  رہے ہیں۔وہ چالاکی سے سیاسی بھی ہو سکتے ہیں،تنقیدی ہونے کی حد تک سال 1976 میں ایمرجنسی کے دوران ایک بڑے ہورڈنگ پر امُول والی لڑکی نرس کی یونیفارم میں دکھائی گئی، جس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھا، جس پر مکھن کا ایک پیکیٹ رکھا تھا۔

اشتہارکےساتھ کیپشن دیا گیا تھا:‘وی ہیوآلویزپریکٹسڈ کمپلسری اسٹرلائزیشن(ہم نے ہمیشہ لازمی اسٹرلائزیشن/نس بندی کو اپنایا ہے)۔’یہ واضح  طور پر سنجے گاندھی کے ذریعے چلائے گئے خاندانی منصوبہ بندی کےنس بندی پروگرام پر تبصرہ  تھا۔

ایجنسی پر اس لیےاس کا اثرنہیں ہواکہ ڈاکٹر کرین،ہندوستان  کے مشہور ‘ملک مین’، جن کی کوآپریٹو کمیٹی امُول کا پروڈکشن کرتی تھی،انہوں نے پوری طرح سے ایجنسی کےسربراہ سلویسٹر دی  کنہا کا ساتھ دیا۔ محترمہ  گاندھی نے بھی دخل اندازی نہیں کی۔

Sanjay-Gandhi-Amul-Ad

لیکن یہ گزرے زمانے کی بات ہے۔ پچھلے کچھ وقت سے امُول کے اشتہارات کو پسند کرنے والوں نے یہ غور کیا ہے کہ حکومت سے متعلق مسائل پرامُول کےاشتہارات میں ویسی تیزی نہیں ہے دراصل وہ حکومت اوربی جے پی کے نظریے کے کافی قریب ہیں۔

امُول کے ایک حالیہ اشتہارمیں امُول گرل کو ایودھیا کے مندر کی ایک تصویرکےسامنے عقیدت کے ساتھ ہاتھ جوڑے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ساتھ میں کیپشن ہے‘تاریخی موقع :سب کااستقبال ہے۔’

Amul-kashmir-Ad

پچھلے سال اگست میں ایک اشتہار میں دو مسکراتے ہوئے کشمیریوں کو ڈل جھیل میں ایک شکارے میں مل کر مکھن کھاتے دکھایا گیا تھا۔ اس کا کیپشن تھا: یونین کے ہر ٹریٹری میں… دی  ریئل آرٹیکل!’امُول کوآپریٹو کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیا گیا ٹوئٹ تھا: کشمیر نے اپنا خصوصی درجہ گنوایا۔’

سال2014میں جب بی جے پی جیتی، تب ایک دیگر کیپشن تھا:‘اب کی بار بھاجپا سویکار: پارٹی فیورٹ’ (دعوتوں کی پسند/پسندیدہ پارٹی)۔اُری دہشت گردانہ حملے کے بعدسرجیکل اسٹرائیک کااستقبال ان لفظوں میں کیا گیا:‘سرجیکل اسٹرائیک ،امُول پیکس اَ پنچ۔’

Amul-Surgical-Strike

چینی مصنوعات  پرپابندی کی حمایت کرتے ہوئے اشتہارمیں کہا گیا: ‘اگزٹ دی  ڈریگن’۔ اس میں امُول گرل کو غصے میں آگ اگلنے والے ڈریگن کو باہر نکلنے کا حکم دیتے ہوئے دکھایا گیا۔ نیچے یہ کیپشن لکھا گیا تھا: ‘امُول، میڈ ان انڈیا۔’لازمی طور پر اس ہم نوائی  کےپیچھے بی جے پی کا ہاتھ نہیں رہا ہوگا اور اشتہار ایجنسی اور اس کے کلائنٹ کو یہ سچ مچ میں لگتا ہوگا کہ وہ بس صارفین  کی یادداشت کو نچوڑنے سے تھوڑا سازیادہ کر رہے ہیں۔

لیکن گجرات کوآپریٹو ملک مارکیٹنگ فیڈریشن، جو امُول کی مارکیٹنگ کرتی ہے، مقامی رہنماؤں کو للچاتی رہی ہے اور نریندر مودی کی2004 سے ہی اس میں خاص طور پر دلچسپی رہی ہے۔تب سے نریندر مودی اور بی جے پی نے مِلک کوآپریٹوسینٹراینڈفیڈریشن پر قابوکر لیا ہے۔یہ ماننا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ گجرات بیسڈ برانڈ امُول کے حالیہ اشتہاری مہم سے اس کا کچھ نہ کچھ لینا دینا ضرور ہے۔

مودی کے ماتحت بی جے پی خودنمائی  کا کوئی موقع شاید ہی جانے دیتی ہے۔ ہرممکن پلیٹ فارم کا استعمال کرکے اس نے بڑے پیمانے پر نئے نئے تجربے کیے ہیں۔نریندر مودی، ان کی حکومت، بی جےپی اور ہندوتووادی منصوبوں کے دیگراہم عناصر کے لیے(جہاں تک ممکن ہو)براہ راست یابالواسطہ طورپرخودنمائی  کےلیے کوئی بھی چیز اتنی چھوٹی یاحقیر نہیں ہے کہ اس کویوں ہی جانے دیا جائے۔

ان اہم عناصر میں ہندو دھرم اور ہندوستانی تہذیب کی عظمت(دونوں کو اکثر ملاکر ایک کر دیا جاتا ہے)، اس سرزمین کا قدیم علم اور سب سے نمایاں طور پر ‘ہیرو’ یعنی بھارت ماتا کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی تک شامل ہیں۔

amul-smirit-irani

ایسا نہیں ہے کہ امُول کا تنقیدی رویہ  نہیں ہے، بھلے ہی یہ چھپے طور پر ہی کیوں نہ ہو اسمرتی ایرانی کے جرمن کی جگہ سنسکرت پڑھانے کے فیصلے نے انہیں‘سنسکرتی ایرانی’ کے نام کا تحفہ دیا تھا۔سال2015میں عدم رواداری پر چل رہی بحث کے جواب میں ہورڈنگس پر لکھا گیا تھا ٹالرنس(تال ایرنس)سے ٹالرنس(تال ایرنس)ملا۔’

اسی سال اس نے راجستھان کی دھول پورحویلی کو لےکر ہوئے تنازعہ کا ذکر کیا، للت مودی کو فائدہ پہنچانے کے لیے جس کے درجے کو وسندھرا راجے نے بدل دیا تھا۔اس میں راجے کو للت مودی کو ایک فوٹو دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور ساتھ میں کیپشن تھا:‘پراپرٹی آف راجے ستھان (راجے ستھان کی پراپرٹی)۔

Vasundhara-Raje-Amul

لیکن پانچ سال بعدحالات کافی الگ ہیں۔ بی جے پی کی مارکیٹنگ پورے دم خم کے ساتھ چل رہی ہے اور دوبارہ ملی جیت نے اس میں نئے سرے سےخوداعتمادی بھرنے اور جارحیت پسندی کا کام کیا ہے۔عدم اتفاق  کے لیے بہت کم گنجائش ہے۔ اور پارٹی، اس کے پروگرام  اور سب سے بڑھ کر اس کے رہنما کی  جئے جئے کار کے لیے ہر دستیاب اورممکن اوزار کا استعمال کیا جانا ہے۔

پرانے طریقے اخبار اور ٹیلی ویژن ویسے ہی ہر حال میں مودی کی حمایت میں ہیں۔ میڈیا مالک اورصحافی  ان کی فرماں برداری  کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ایک بڑی تنخواہ پانے والی ٹرول آرمی سوشل میڈیا پر چھا جانے کے لیے دن رات فعال طریقے سے نفرت اورجھوٹ کو پیدا کرنے میں لگی رہتی ہے۔

کس دوسری پارٹی نے ایک ٹیلی ویژن سیریل  کا چھپا ہواپیغام  ڈالنے کے بارے میں سوچا تھا؟یا ایک سرکاری منصوبہ کے حصہ کے طور پر کم دام کی دوائیوں کے بارے میں؟بی جے پی اشتہارات کی اہمیت کو سمجھتی ہے اور اسے ایک دہائی  پرانے دم دار اور لوگوں  کے چہیتے برانڈ کے ساتھ جڑنے کے فائدوں کا پتہ ہے۔

جہاں تک برانڈ کے موجودہ لوگوں  کا سوال ہے، انہیں بھی اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے میں خوشی ہی ہوگی کیونکہ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹس انہیں باقاعدگی سے پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ یا ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں ان کے پاس شاید زیادہ متبادل نہ ہوں۔جہاں تک ایجنسی کا سوال ہے، تو اسے اپنے کلائنٹ کے حساب سے چلنا ہوتا ہے اور وہی کرنا ہوتا ہے، جو ان کا کلائنٹ کہے یا منظور کرے۔ اس کے سب سے ذہین لوگوں کا کام کلائنٹ کی خواہشات کا احترام کرنا ہوتا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر ایسےاشتہارات پوری طرح سے برانڈ کے صارفین کے مزاج کے مطابق ہیں۔ کچھ لوگ اس پر اعتراض کر سکتے ہیں۔سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے امُول کے مصنوعات کو کبھی نہ خریدنے کی قسم لی ہے۔ لیکن اس سے اس کی سیل پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔

اب، اگر امُول گرل کبھی نریندر مودی پر کوئی تنقید کرنا چاہے تو برانڈ کو ایک بڑے منظم بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑےگا، جس سے باہر نکلنا مشکل ہوگا۔ اور یہ کوئی اتنا مشکل فیصلہ نہیں ہے۔