خبریں

فیس بک نے ناراضگی کے ڈر سے بی جے پی رہنما کی مسلم مخالف پوسٹ پر نہیں کی کارروائی: رپورٹ

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلیٰ افسرنے بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کی پوسٹ پرفیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں کےنفاذکی مخالفت کی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے بی جے پی کے ساتھ رشتے خراب ہو سکتے ہیں۔

مارک زکربرگ کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

مارک زکربرگ کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: ہندوستان  میں فیس بک کے ایک اعلیٰ افسر نے بی جے پی کے کم سے کم ایک رہنما پراس سوشل میڈیاپلیٹ فارم کے ہیٹ اسپیچ کے لیے بنائے گئےضابطوں کے نفاذ کی  مخالفت کی تھی۔وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی جے پی کے ایک رہنما اور دیگر‘ہندو نیشنلسٹ لوگوں اور گروپوں’کی نفرت بھری پوسٹ کو لےکر ان پر فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطہ لگائے جانے کی مخالفت کی تھی۔

ان لوگوں اورگروپوں کی جانب سےفیس بک پر پوسٹ کیے گئے کنٹیٹ کواندرونی طورپر‘پوری طرح سے تشدد کو بڑھاوا دینے والا’مانا گیا، اس کے باوجود اس کادفاع  کیا جاتا رہا۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کی جنوبی  اور وسط  ایشیاانچارج  کی پالیسی ڈائریکٹرآنکھی داس نے بی جے پی رہنما ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں  کے نفاذکی مخالفت کی  تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے رشتے  بی جے پی سے خراب ہو سکتے ہیں۔

ٹی راجہ سنگھ تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ایم ایل اے ہیں اور وہ اپنے فرقہ وارانہ بیانات  کے لیے معروف  ہیں۔امریکی اخبار کی اس رپورٹ میں فیس بک کے کچھ سابق  اور کچھ موجودہ  ملازمین  کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آنکھی داس نے اپنے اسٹاف کو بتایا کہ مودی کے رہنماؤں کی جانب سےضابطوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے سے ہندوستان  میں کمپنی کے کاروباری امکانات  کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

رپورٹ کہتی ہے،‘داس، جن کے کاموں میں فیس بک کی جانب  سے حکومت ہند  کے ساتھ لابنگ کرنا بھی شامل ہے،نے اسٹاف سے کہا کہ مودی کی پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سےضابطوں کی خلاف ورزی  پر انہیں سزادینے سے ہندوستان  میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے…’

رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے، ‘فیس بک کے موجودہ اور سابق  ملازمین  کا کہنا ہے کہ سنگھ کے حق میں آنکھی داس کی دخل اندازی مودی کی پارٹی بی جے پی اور ہندو نیشنلسٹ  کے تئیں  فیس بک کی جانب سے جانبداری کے وسیع  پیٹرن کا حصہ ہے۔’

کوئی ایک وجہ نہیں:فیس بک ترجمان

فیس بک کے ترجمان  نے دی  وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ آنکھی داس نے ٹی راجہ سنگھ کو ‘خطرناک’ شخص کے طور پرنشان زدکرنے پر سیاسی تعلقات کو لےکرتشویش کا اظہار کیا تھا، لیکن ان کی مخالفت واحد وجہ نہیں تھی،جس سے یہ طے کیا جائے کہ کیا بی جے پی کے رہنما کو فیس بک جیسے پلیٹ فارم پر رہنے دیا جائے یا نہیں۔

ترجمان  نے بتایا کہ فیس بک ابھی بھی غورکر رہا ہے کہ سنگھ پر پابندی  لگائی جائےیا نہیں۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں پر جان بوجھ کر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگانے، ملک کے خلاف سازش کرکے‘لو جہاد’کے بارے میں  لکھنے کے بعد بھی داس کی ٹیم نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

انتخابی تعاون؟

اس کے علاوہ دی وال اسٹریٹ جرنل میں کمپنی کے ایک سابق ملازم  نے نام نہیں چھاپنے کی شرط پر بتایا کہ داس نے الیکشن سے متعلق  مدعوں کو لےکرسازگارتشہیر کرنے کو لےکربی جے پی کی مدد بھی کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا،‘پچھلے سال ہندوستان میں لوک سبھاانتخاب  کے لیے ووٹنگ  شروع ہونے سے پہلے فیس بک نے اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستان کی فوج اور بی جے پی کی حریف  پارٹی کانگریس کے غیر مصدقہ فیس بک پیجوں کو ہٹا دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی داس کی دخل اندازی کی وجہ سے بی جے پی سے جڑی جھوٹی خبروں والے پیجوں کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔’

میڈیا رپورٹ کے مطابق، سنگھ اور بی جے پی ایم پی  اننت کمار ہیگڑے کی کئی فیس بک پوسٹس کو فیس بک نے تب تک نہیں ہٹایا، جب تک وال اسٹریٹ جرنل کے صحافیوں  نے ان کے بارے میں اشارہ نہیں کیا۔ یہ تمام پوسٹ مسلمانوں کےتئیں نفرت سے بھری ہوئی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وال اسٹریٹ جرنل کی دخل اندازی کے بعد فیس بک نے سنگھ کی کچھ پوسٹ ہٹا دی ہیں۔

میڈیا رپورٹ میں آگے کہا گیا،‘ٹوئٹر نے اسی طرح کی مسلم مخالف پوسٹ کو لےکر اننت کمار ہیگڑے کا ٹوئٹر اکاؤنٹ سسپنڈ کر دیا ہے جبکہ فیس بک نے تب تک اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا، جب تک وال اسٹریٹ جرنل نےکمپنی سے ہیگڑے کی‘کو رونا جہاد’ پوسٹ کو لےکر ان سے جواب نہیں مانگا۔ فیس بک نے جمعرات کو ہیگڑے کے کچھ پوسٹ ہٹائے ہیں۔ ہیگڑے نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔’

دی  وائرکی جانب سے آنکھی داس سے وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ پر ردعمل مانگا گیا ہے، جس کے ملنے پر اس خبر کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)