خبریں

ڈاکٹر کفیل کی این ایس کی مدت پھر تین مہینے کے لیے بڑھائی گئی

گزشتہ 29 جنوری کو اتر پردیش ایس ٹی ایف  نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں ہیں۔

ڈاکٹر کفیل خان(فوٹو : پی ٹی آئی)

ڈاکٹر کفیل خان(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات  کےالزام  میں گرفتار ڈاکٹر کفیل خان کی حراست کی مدت نیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے)کے تحت اور تین مہینے کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔وہ پچھلے چھ مہینے سے این ایس اےکے تحت متھرا جیل میں بند ہیں۔

اس سلسلے میں گزشتہ چار اگست کومحکمہ داخلہ  کے نائب سکریٹری ونئے کمار کی جانب سے آرڈر جاری کیا گیاہے۔یہ فیصلہ این ایس اے کےصلاح کار بورڈ کی طرف  سے پیش کی گئی رپورٹ کے بنیاد پر لیا گیا ہے۔ این ایس اے کے تحت درج معاملوں سے نپٹنے کے لیے سرکار کی جانب  سے اس بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔

نیشنل سکیورٹی ایکٹ 1980 کی دفعہ10 کے تحت اس معاملے کو صلاح کار کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا، جس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان کو جیل میں رکھنے کے متعدد وجوہات موجود ہیں، لہٰذا گزشتہ  چھ مئی کو انہیں این ایس اےکے تحت تین مہینے اور جیل میں رکھے جانے کے آرڈردیے تھے۔

اس نئے آرڈر کے بعد اب کفیل خان 13 نومبر تک جیل میں رہیں گے۔کفیل خان کی بیوی ڈاکٹر شبستا خان اپنے شوہر کی رہائی کے لیے لگاتار آن لائن مہم  چلا رہی ہیں۔انہوں نے کفیل خان کی حراست کو لےکر ویڈیو جاری کرکے کہا کہ ان کے شوہر کو کس جرم  کی سزا دی جا رہی ہے۔

شبستا نے ویڈیو میں کہا، ‘آج بھی میرا یہی سوال ہے کہ کفیل پر این ایس اے کیوں لگایا گیا ہے۔ سرکار آج تک اس کا جواب نہیں دے پائی ہے۔ ان پر این ایس اے کی تعمیل کی مدت ایک نہیں بلکہ تین تین بار بڑھائی گئی ہے۔ ہمیں تازہ توسیع  کی جانکاری14 اگست کو ملی ہے۔’

شبستا نے ویڈیو میں کہا، ‘وہ ڈاکٹر جس نے مشکل وقت میں جگہ جگہ ملک  کے لوگوں کی خدمت  کی ہو، اس سے ملک کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم واقعی آزاد ہیں؟ اگر آج ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں جیل میں ڈال دیا جا رہا ہے۔’

انہوں نے کہا ہے، ‘آج میرے شوہر کے ساتھ یہ ہو رہا ہے، کل کسی اور کے شوہریا بیٹے کے ساتھ ہوگا۔ اگر آج آپ ہمارے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے تو کل آپ کے لیے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائےگا۔’

بتا دیں کہ گزشتہ29 جنوری کو اتر پردیش کےایس ٹی ایف نے شہریت ترمیم قانون (سی اےاے)کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں دسمبر میں مبینہ  طور پر متنازعہ بیان دینے کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہاں وہ سی اے اے مخالف ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔

ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے گزشتہ11 اگست کو الہ آباد ہائی کورٹ کے لیے 15 دن کی مدت طے کی تھی۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ 15 دن میں طے کریں کہ ڈاکٹر کفیل کو رہا کر سکتے ہیں یا نہیں۔عدالت نے معاملے میں شنوائی کی اگلی تاریخ 19 اگست طے کی ہے۔

اس سے پہلے ڈاکٹر کفیل کوگزشتہ10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی، لیکن آرڈرکے تین دن بعد بھی جیل انتظامیہ نے انہیں رہا نہیں کیا تھا۔اس کے بعد کفیل کےاہل خانہ  نے علی گڑھ  کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں ہتک کی عرضی دائر کی تھی۔ عدالت نے 13 فروری کو پھر سے رہائی کاآرڈر جاری کیا تھا، مگر اگلی صبح ضلع انتظامیہ نے کفیل پراین ایس اےکے تحت کارروائی  کر دی تھی۔ اس کے بعد سے کفیل متھرا جیل میں بند ہیں۔

اس کے بعد مئی کے دوسرے ہفتے میں انتظامیہ نے کفیل خان کی این ایس اےمدت تین مہینے کے لیے بڑھا دی تھی۔بتا دیں کہ ڈاکٹر ڈاکٹرخان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب بی آرڈی میڈیکل کالج، گورکھپور میں 60 سے زیادہ بچوں کی موت ایک ہفتے کے اندرمبینہ طور پر آکسیجن کی کمی سے ہو گئی تھی۔

اس معاملہ کے بعد ڈاکٹرخان کو میڈیکل کالج سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ انہیں وارڈ میں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھانے اور ایک نجی پریکٹس چلانے کے الزام  میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان الزامات  کی وجہ سےکفیل خان کو نو مہینے جیل میں رہنا پڑا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)