فکر و نظر

دہلی فسادات: سازش کے جال میں پروفیسر اپوروانند کو پھنسانے کی کوشش

دہلی فسادات کےمعاملے میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے پوچھ تاچھ کے بعد کئی میڈیا رپورٹس میں دہلی پولیس کی جانب سے لیک جانکاری کی بنیاد پر انہیں‘فسادات کا ماسٹرمائنڈ’ کہا گیا۔ مصدقہ حقائق کے بغیر آ رہی ایسی خبروں  کا مقصد صرف ان کی امیج  کو خراب  کرکے ان کے خلاف ماحول بنانا لگتا ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند(فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب/Bytes Today)

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند(فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب/Bytes Today)

کیا فروری 2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد) جس میں 53 سے زیادہ لوگوں کی دردناک موت ہوئی، سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے( کے پیچھے کوئی بڑی  سازش تھی؟آزاد ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں کام کرنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی فساد اچانک سے نہیں ہوتا۔ اس کے لیے پہلے فرقہ وارانہ تنظیم بھڑکاؤ بیان دیتی ہے، افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور اس کے بعد حملہ بولا جاتا ہے۔

ایک آئی اے ایس افسر اور ہیومن رائٹس کارکن کے طور پر اپنے تجربات اور ساتھ میں برسوں کے مطالعےکی بنیاد پر میں نے اکثر دعویٰ کیا ہے کہ اگر سرکار  چاہے تو کوئی بھی فساد کچھ گھنٹے سے زیادہ نہیں چل سکتا ہے۔دہلی میں ہوئے بھیانک دنگے سے کچھ ہفتے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں،مرکزی وزیر اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ نے اسمبلی انتخاب کی تشہیر  کرتے ہوئے خوب زہر فشانی کی۔

ان سب کا بنیادی نشانہ شہریت ترمیم قانون (سی اےاے)کے خلاف شاہین باغ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی کی کئی جگہوں پر دھرنے پر بیٹھی مسلم عورتیں تھیں۔لیکن دہلی پولیس نےفسادات کے پیچھے سازش کا ایک الگ ہی پیٹرن ڈھونڈ نکالا ہے۔ پولیس نےحکمراں بی جے پی کے کسی رہنما کے بیان کو نہ بھڑکاؤ مانا اور نہ ہی کوئی ایف آئی آر درج کی ۔ جبکہ یہ کھلے طور پر نظرآتا ہے کہ کس طرح کے نعرے بی جے پی  کےرہنما لگا رہے تھے۔

دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ دہلی تشدد کے پیچھے سی اے اے کے خلاف دھرنے پر بیٹھے لوگ ذمہ دار ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مظاہرہ میں شامل لوگوں نے مسلمانوں کے اندر ڈر پیدا کیا کہ سی اے اے نافذ ہونے کے بعد مسلمانوں کی شہریت  چھن جائےگی، جبکہ قانون میں کہیں بھی ایسا نہیں لکھا گیا ہے۔

دہلی پولیس کہتی ہے کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگ پرامن ہونے کا صرف دکھاوا کر رہے تھے جبکہ ان کا منصوبہ تھا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان  دورے کے وقت ہندوؤں پر حملہ کیا جائے۔پولیس کے مطابق مظاہرین کی منشا تھی کہ ٹرمپ کے ہندوستان  دورے کے وقت ایسا کرنے سے انٹرنیشنل میڈیاکی  توجہ  اس جانب جائےگی اور اس کے بعد نریندر مودی کی سرکار کو غیرمستحکم کیا جا سکےگا۔

جانچ کا بڑھتا دائرہ

اس مبینہ سازش کی جانچ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل ایف آئی آر نمبر59/20 کے تحت کر رہی ہے۔ اسپیشل سیل عموماً دہشت گردی  جیسےسنگین  معاملوں کی جانچ کرتی ہے۔کرائم برانچ نے 6 مارچ 2020 کو ایف آئی آر نمبر59/20 درج کرایا۔ اس ایف آئی آر میں کہا گیا کہ شمال-مشرقی دہلی کا فسادمنصوبہ بند تھا اور ایک سازش کے تحت اس کو انجام دیا گیا۔

اصل ایف آئی آر میں دو نام ہیں(1)عمر خالد،جن پر الزام ہے کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کے دورے کے وقت کئی دیگرلوگوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ کرہندوستان کی انٹرنیشنل امیج کو خراب  کرنے کی کوشش کی۔ (2)دانش، جنہوں نے الگ الگ جگہوں سے لوگوں کو بلاکر شمال-مشرقی دہلی میں اکٹھا کیا اور ان کے لیے ہتھیاروں کا انتظام کیا۔

شروعات میں اس مقدمے میں آئی پی سی کی دفعہ 147/148/149/120بی لگائی گئی تھی، لیکن اپریل میں کرائم برانچ نے اس میں آرمس ایکٹ اور یو اے پی اےبھی جوڑ دیے۔شروع میں جن تین لوگوں (محمد دانش، محمد الیاس اور محمد پرویز احمد)کو گرفتار گیا گیا تھا، انہیں ضمانت مل گئی کیونکہ تب یو اے پی اے کا مقدمہ نہیں لگا تھا۔

ایف آئی آرنمبر59 کے تحت گرفتار کیے گئے لوگوں میں عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین، کانگریس کی سابق کونسلر عشرت جہاں، سماجی کارکن خالد سیفی، ایم بی اے اسٹوڈنٹ گل فشاں  فاطمہ، پی ایچ ڈی کر رہے میران حیدر، ایم فل اسٹوڈنٹ صفورہ زرگر، نتاشا نروال اور ریسرچ اسکالر دیوانگنا کلیتا شامل ہیں۔

قانون کے مطابق پولیس کو اس معاملے کی تحقیقات تین مہینے میں پوری کرنی تھی اور جون میں چارج شیٹ دائر کر دینی تھی، لیکن پٹیالہ ہاؤس کورٹ سے کرائم برانچ کو 14 اگست تک کے لیے وقت مل گیا۔ جب 14 اگست کی تاریخ نزدیک آنے لگی تو کڑکڑڈوما کورٹ نے دہلی پولیس کو ایک مہینے کا اوروقت دے دیا۔

اس مدت کے دوران پولیس کی اسپیشل برانچ نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ سے جڑے نوجوانوں اورسماجی کارکنوں کو بلاکر گھنٹوں تک کڑی پوچھ تاچھ کی۔اسی سلسلے میں دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ نے جانےمانے سماجی مفکر اور دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر اپوروانند سے لودھی روڈواقع  دفتر میں پوچھ تاچھ کی۔

پانچ گھنٹے تک چلی پوچھ تاچھ کے بعد پروفیسر اپوروانند نے اپنا ایک چھوٹا سا بیان جاری کرکے کہا،

پولیس اتھارٹی کے دائرہ اختیار اورمعاملے کی مکمل طور پرغیرجانبدارانہ جانچ کےخصوصی اختیار کا احترام کرتے ہوئے یہ امید کی جانی چاہیے کہ اس پوری تفتیش کا مقصدپرامن شہری مزاحمت اور شمال مشرقی  دہلی کے بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد بھڑ کانے اور اس کی سازش کرنے  والوں کو پکڑنا ہوگا۔’

اس جانچ کا مقصدشہریت قانون (سی اےاے)2019،این پی آراور این آرسی کے خلاف آئینی  حقوق اور طریقوں سے ملک  بھر میں اپنااحتجاج  درج کرنے والے مظاہرین اور ان کے حامیوں  کو ہراساں  کرنا نہیں ہونا چاہیے۔

یہ پریشان کن بات ہے کہ ایک ایسااصول بنایا جا رہا ہے جس میں مظاہرین کو ہی تشدد کاذریعہ بتایا جا رہا ہے۔ میں پولیس سے یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ان کی جانچ پوری طرح سےغیرجانبدارانہ اور منصفانہ  ہو تاکہ سچ سامنے آئے۔’

پروفیسر اپوروانند سے ہوئی پوچھ تاچھ کی پورے ملک میں مذمت کی گئی۔ 1500 سے زیادہ دانشوروں،قلمکاروں، آرٹسٹ اورسماجی کارکنوں نے بیان جاری کرکے اس کی مذمت کی۔یہاں تک کہ مؤقر اور کبھی کبھار ہی تنقیدی رخ اختیارکرنے والے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا نے بھی اس مدعے پر ایڈیٹوریل لکھا۔

اس کے بعدحکمراں بی جے پی کے حامی رائٹ ونگ  چینلوں نے پروفیسر اپوروانند کے اوپر شدید حملے شروع کر دیے۔ کہا گیا کہ دہلی پولیس کو جانچ کے دوران اپوروانند کے خلاف کئی شواہد ملے ہیں، جن میں دہلی فسادات میں ان کے شامل ہونے کی بات  ثابت ہوتی ہے۔

قابل ذکر ہےکہ11اگست 2020 کو اپنے ایک پروگرام میں زی نیوز نے پروفیسر اپوروانند کو ‘دہلی فسادات کا پروفیسر’بتایا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

چینل نے دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ کے کسی افسر کے بیان کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ جانچ سے پتہ چلا ہے کہ اپوروانند نے سی اے اے مخالف مظاہروں میں شامل ہوکرفسادات کی بڑی سازش کی ہے۔

اس کے بعد چینل نے گل فشاں  نامی نوجوان کارکن جنہیں دہلی پولیس نےفسادات کی سازش میں شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، کے حوالے سے کہا کہ پروفیسر اپوروانند نے عمر خالد اور راہل رائے جیسے دیگر کارکنوں کے ساتھ مل کر ان سے کئی بار خفیہ  میٹنگ کرکےفسادات کامنصوبہ تیار کیا تھا۔ اسی طرح کی رپورٹ دوسرے چینلوں جیسے کہ آج تک میں بھی دکھائی گئیں۔

اس کے بعد زی میڈیا نے ایک پرنٹ رپورٹ شائع کی جس میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ گل فشاں  نے دہلی پولیس کے سامنےقبول کیا ہے کہ پروفیسر اپوروانند تشدد بھڑ کانے والے اہم  لوگوں میں شامل تھے اور انہوں نے مظاہرہ میں شامل ہونے کے لیے گل فشا ں کی تعریف بھی کی تھی۔

رپورٹ میں آگے کہا گیا،‘پروفیسر اپوروانند نے دہلی کے مختلف  حصوں میں مظاہرہ منعقد کرنے اور دنیا میں ہندوستان کی امیج خراب کرنے کے لیے گل فشاں  کو اکسایا تھا۔ اپوروانند نےفسادات سے پہلے انہیں پتھر، خالی بوتل، ایسڈ اور چاقو رکھنے کی بھی صلاح دی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے خواتین سے کہا تھا کہ اپنے پاس مرچ پاؤڈر ضرور رکھیں۔’

مضحکہ خیز دعوے

اس کے بعد دہلی پولیس سے لیک جانکاری پر مبنی اپنی رپورٹ میں گل فشاں  کا حوالہ دیتے ہوئے آپ انڈیا نے کہا، ‘پروفیسر اپوروانند نے گل فشا ں سے کہا تھا کہ جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی دہلی کے 20-25 جگہوں پر ایک مظاہرہ منعقد کرنے جا رہی ہے جس کامقصد بین الاقوامی سطح پر یہ دکھانا ہوگا کہ حکومت ہندجارحیت پسند ہے اور وہ اپنے مسلمان شہریوں  کے خلاف تفریق کر رہی ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہو سکےگا جب مظاہرہ کی آڑ میں دنگے کیےجائیں۔’

یہ تمام رپورٹ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں دہلی پولیس کے ذرائع سے جانکاری ملی ہے۔ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ دہلی پولیس نے ابھی تک ذرائع کے حوالے سے چل رہی خبروں کی تردید بھی نہیں کی ہے۔ایسے میں یہ مانا جا سکتا ہے کہ پولیس نے جان بوجھ کر پروفیسر اپوروانند کی امیج کوبگاڑنے اور ان کے خلاف عوامی رائے تیار کرنے کے لیے جانکاریاں لیک کی ہیں۔

شاید پروفیسر اپوروانند کو ملی  حمایت سے بوکھلاکر دہلی پولیس نے اپنے قابل اعتماد میڈیا گھرانوں کو خفیہ جانکاریاں لیک کیں۔ اسی وجہ سے ایک نیوز رپورٹ نے تو اپوروانند کو ‘آتنکی پروفیسر’ تک قرار دیا۔دہلی پولیس نے قانون اور ضابطوں کو طاق پر رکھتے ہوئے جانچ سے جڑی جانکاریوں کو سنسنی خیز طریقے سے لیک کیا ہے۔ پولیس کی ان کرامات کو سمجھنے کے لیے کچھ پہلوؤں پرغور کرنا ہوگا۔

پہلا تو یہ کہ دہلی پولیس نے اس خاتون  کے  بیان کاحوالہ دیا ہے جو پہلے سے ہی حراست میں ہے، جو پولیس کے بیان پر اپنا کوئی ردعمل  نہیں دے سکتی۔گل فشاں  فاطمہ کو 9 اپریل 2020 کو جعفرآباد مظاہرہ میں سڑک بند کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر نمبر48/20 میں ان کے اوپر آئی پی سی کئی دفعات  لگائی گئیں۔

اس ایف آئی آر پر انہیں 13 مئی کو ضمانت بھی مل گئی۔ لیکن، اس کے بعد آرمس ایکٹ اور یواے پی اے جیسی دفعات  لگاکر پولیس نے انہیں جیل میں بند کیا ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر یہ سچ بھی مان لیں کہ گل فشاں  نے دہلی پولیس کو ایسا بیان دیا ہے تو بھی یہ پتہ ہونا چاہیے کہ پولیس کے سامنے دیے گئے بیان کو کورٹ یواے پی اے کے معاملے میں ثبوت کے طور پر قبول نہیں کرتی۔

اس لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کورٹ کے سامنے گل فشاں  کے ان مبینہ بیانات کا کوئی مطلب نہیں ہے، دہلی پولیس نے پروفیسر اپوروانند کی امیج خراب کرنے کے لیے ان بیانات کو میڈیا کے سامنے لیک کیا۔ایف آئی آرنمبر 59/20 میں دہلی پولیس نے ابھی تک کوئی چارج شیٹ دائر نہیں کی ہے۔ پولیس کے سامنے گل فشاں  کا نام دنگے کے ایک دیگرملزم نے اپنے بیان میں دیا تھا۔

اس شخص نے بعد میں دی  ہندو اخبار کو بتایا کہ فروری میں ہوئے دنگے میں اس کی آنکھوں کی روشنی ختم ہو گئی جس وجہ سے وہ نہیں دیکھ پایا کہ پولیس نے اس سے کس بیان پر دستخط کرائے ہیں۔اس نے یہ بھی کہا کہ اس نے کسی بھی شخص(گل فشاں  کا بھی)کا نام آج تک نہیں سنا تھا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ جانکاری اس نے دی ہے۔

ایک جیسے بیان

یہ معاملہ اور پیچیدہ تب ہو گیا جب یہ پایا گیا کہ پولیس کے مختلف چارج شیٹ میں الگ الگ لوگوں کے بیان بالکل ایک جیسے پائے گئے۔

ایف آئی آرنمبر 60/20 (ہیڈ کانسٹبل رتن لال کا قتل)کے چارج شیٹ میں 7 بیان ایک طرح کے پائے گئے۔

ایف آئی آرنمبر 50/20 (25 فروری 2020 کو جعفرآباد میں تشدد)کی چارج شیٹ میں 10 بیان بالکل ایک جیسے تھے۔

آئی بی اسٹاف انکت شرما کے قتل سےمتعلق 65/20 چارج شیٹ میں چار بیان ایک جیسے تھے۔

اورآخرکاردہلی پولیس اس مبینہ بیان کو دینے والے گل فشاں یا پروفیسر اپوروانند کو اس الزام پر جواب دینے کا ایک بھی موقع دیے بغیر میڈیا کے سامنے ان جانکاریوں کو لیک کر رہی ہے۔جبکہ وزارت داخلہ  اور اوپری عدالتیں کئی بار کہہ چکی ہیں کہ جب کسی مقدمے کی جانچ چل رہی ہو تو چنندہ جانکاریوں کو میڈیا کے سامنے لیک نہیں کیا جا سکتا۔

غورطلب ہےکہ12 اگست 2020 کو کیرل ہائی کورٹ  نے جیتیش بنام کیرل سرکار معاملے میں ہدایت  دیتے ہوئے کہا تھا؛

‘یہ ہماری تسلیم شدہ رائے ہے کہ کسی بھی جرم کی جانچ میں شامل کوئی افسر جانچ کے دوران میڈیا کے سامنے جانکاریوں کو لیک نہیں کرےگا۔ پولیس افسروں کو دھیان رکھنا چاہیے کہ کسی بھی معاملے پر آخری  فیصلہ کورٹ کی جانب سے ہی کیا جانا ہے۔ پولیس کو اپنے ذاتی خیالات یا فائدےکو جانچ سے دور رکھنا چاہیے۔

پولیس سے یہ امید نہیں کی جاتی کہ کسی بھی مجرم کے اقبال جرم کو میڈیا میں نشر کرے۔ ہمیں معلوم ہے کہ پولیس افسروں کی جانب سے میڈیا میں جانکاریوں کو لیک کرنے کا معاملہ بڑھتا جا رہا ہے۔’

دہلی دنگے کے معاملوں کو دیکھیں، تو دہلی پولیس میڈیا کے سامنے شروعات سے ہی چنندہ بیان لیک کر رہی ہے۔پنجرہ توڑ تنظیم کی دیوانگنا کلیتا کو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن پر دنگے کی سازش کرنے والی  بتاتے ہوئے بھی دہلی پولیس نے میڈیا میں ایک مختصر نوٹ جاری کیا تھا۔

دیوانگنا نے اس پر دہلی ہائی کورٹ  میں ایک پی آئی ایل دائر کی۔ تب 27 جولائی 2020 کو دہلی ہائی کورٹ  نے دہلی پولیس کو ہدایت دی تھی کہ جب تک الزام طے نہ ہو جائے تب تک میڈیا میں کوئی بیان جاری نہ کریں۔دہلی ہائی کورٹ  نے حکومت ہند کے وزارت داخلہ کی جانب سے 1 اپریل 2010 کو جاری پولیس کی میڈیا پالیسی کونوٹس میں لیا تھا۔

اس ہدایت میں وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ پولیس صرف ضروری حقائق کو ہی میڈیا کے سامنے لائے اور جانچ کے دوران کسی بھی طرح کی غیرمصدقہ جانکاری میڈیا کو نہ دے۔یہ بھی کہا گیا تھا کہ پولیس کسی مقدمے کے ان سطحوں پر ہی میڈیا سے مخاطب ہو:(1) مقدمے کا رجسٹریشن؛ (2) ملزمین کی گرفتاری؛ (3) مقدمے کی چارج شیٹ دائر ہونے پر؛ (4) مقدمے کے آخری فیصلے جیسےمجرم قرار ہونے یا رہائی کےوقت وغیرہ۔

جیسا کہ ظاہر ہے کہ پروفیسر اپوروانند کے معاملے میں پولیس نے شاید ہی کوئی آفیشیل بیان جاری کیا ہے، بلکہ ان کا بھروسہ تو ان میڈیا گھرانوں پر ہے، جو بنا کوئی سوال پوچھے صحافت کی قدروں کو بے معنی بتاکر پولیس کے ورژن کو ہی ان آفیشیل طور پر جاری کر دیں گے۔

بتادیں کہ2018 میں رومیلا تھاپر بنام یونین آف انڈیا معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے جسٹس چندرچوڑ نے کہا تھا،

‘کسی بھی مقدمے کی جانچ کے دوران اسٹیٹ کی جانچ اکائی اگر الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے عوام کی رائے کومتاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے جانچ کی غیرجانبداری  پر اثر پڑتا ہے۔’

ان تمام احکامات کے باوجود دہلی پولیس سی اے اے کے خلاف مظاہرہ میں شامل نوجوانوں اورسماجی مفکروں ، کارکنوں کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے میں لگی ہے۔ ان تمام کارکنوں کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے سی اے اے کے خلاف پرامن  ڈھنگ سے مظاہرہ کیا۔

ایک ملک کے طور پر آج ہم کن حالات میں پہنچ گئے ہیں، یہ سوچ کر بےحد صدمہ پہنچتا ہےاور تشویش ہوتی ہے۔ پروفیسر اپوروانند جیسے ایک اہم، بہادر اور معزز دانشور کو بھی اقتدار کی طاقت سے ڈرانے دھمکانے کی کوشش ہو رہی ہے۔دہلی پولیس افواہ، جھوٹ اور فرضی جانکاریوں کو سچ کا جامہ پہناکر بےشرمی سے مشتہر کر سکتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ملک کی سب سے طاقتور شخصیت کا ہاتھ اس کے کندھے پر ہے۔

پینگوئن پبلی کیشن سے حال ہی میں شائع میری کتاب ‘پارٹیشنس آف دی  ہرٹ:ان میکنگ دی آئیڈیا آف انڈیا’ میں کئی جگہ میں نے پروفیسر اپوروانند کا بیان شامل کیا تھا۔ اتنی بار کہ اکثر ان سے مذاق کیا کہ معاون قلمکار کے بطور ان کا نام دے دینا چاہیے۔اس مضمون کا اختتام میں اپوروانند کے انہی کچھ لفظوں سے کرنا چاہوں گا:

‘یہ ہندوستان  کے مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ اسےانہی لفظوں  میں کہا جانا چاہیے۔ اور اس کا دائرہ بہت بڑا ہے… ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان  کو اس جنگ میں مقتدرہ پارٹی نے دھکیلا ہے، وہ سرکار، جسے انہوں نے بنایا، جس نے سماج کے ایک بڑے طبقےکی اور نفرت کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے خلاف تشدد شروع کیا۔

یہ بھی درج کیا جانا چاہیے کہ وہ سب سے بہترین نوجوان، جو ہماری سول سروسز اور پولیس کا حصہ ہیں، نے اس میں ان قاتلوں کا ساتھ دیا۔

یہ بھی کہا جانا چاہیے کہ جب ہمارے پڑوسی درد اور تکلیف سے کراہ رہے تھے، ہم بے فکر ہوکر سو رہے تھے اور ہم نے انہیں کھل کر چیخنے بھی نہیں دیا۔

بھلے ہی یہ جنگ لمبی چلے لیکن ایک نہ ایک دن ہم اس سے باہر نکلیں گے اور اس دن تشدد پر اپنی خاموشی کے لیے شرم کرنے کے سوائے کوئی اور راستہ ہمارے پاس نہیں بچےگا۔ آج متاثرین  پر ہی شکار ہونے کا دکھاوا کرنے کے الزام لگ رہے ہیں؛ انہیں اپنے تخیلاتی پنجرے سے نکلنے کو کہا جا رہا ہے۔ اس دوہرےپن کو کسی وقت میں تو درج کیا جائےگا۔’

(مضمون نگار سابق آئی اے ایس اورسماجی کارکن  ہیں۔)