خبریں

اڑیسہ: لڑکی کے پھول توڑنے پر 40 دلت فیملی کے سماجی بائیکاٹ کا الزام

اڑیسہ کے ڈھینکانال ضلع کے کانتیو کتینی گاؤں کا معاملہ۔ دلت کمیونٹی کا الزام ہے کہ گاؤں والوں نے ان سے بات بند کر دی ہے۔ اس کےعلاوہ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم(پی ڈی ایس)سے راشن نہیں مل رہا اور کرانہ اسٹورنے سامان دینا بند کر دیا ہے۔ حالانکہ گاؤں کے مکھیا نے کہا کہ دلت کمیونٹی سے صرف بات بند کرنے کو کہا گیا ہے۔

(فوٹوبہ شکریہ: انڈیا ریل ان فو)

(فوٹوبہ شکریہ: انڈیا ریل ان فو)

نئی دہلی: اڑیسہ کے ڈھینکانال ضلع میں گزشتہ دو ہفتےمیں40 دلت فیملی کےسماجی بائیکاٹ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ دلت کمیونٹی  کی لڑکی کے ایک گھر کے آنگن سے پھول توڑنے کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ واقعہ ڈھینکانال کے کانتیو کتینی گاؤں کا ہے، جہاں لگ بھگ دو مہینے پہلے 15 سال کی ایک دلت لڑکی نے اشرافیہ فیملی کے آنگن سے پھول توڑ لیےتھے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اشرافیہ فیملی کے اعتراض  کے بعد یہ معاملہ دو کمیونٹی کے بیچ تصادم میں تبدیل ہو گیا، جس کے بعد گاؤں کے تمام 40 دلت فیملی کا سماجی بائیکاٹ  کر دیا گیا۔لڑکی کے والدنرنجن نایک کا کہنا ہے، ‘ہم نے فوراً معافی مانگ لی تھی، تاکہ اس معاملے کو سلجھایا جا سکے لیکن اس کے بعد کئی بیٹھکیں ہوئیں، جس میں انہوں نے ہمارا بائیکاٹ  کرنے کا فیصلہ کیا۔ کسی کو بھی ہم سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں گاؤں کے کسی بھی سماجی پروگرام  میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔’

بتا دیں کہ اس گاؤں میں لگ بھگ 800فیملی ہیں، جس میں سے 40 فیملی(ایس سی) نایک کمیونٹی کے ہیں۔متاثرہ کمیونٹی نے اس سلسلے میں17 اگست کو ضلع انتظامیہ اور پولیس تھانے کومیمورنڈم سونپا تھا۔اسی گاؤں کےجیوتی نایک کا الزام ہے، ‘مقامی پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم(پی ڈی ایس)سے ہمیں راشن نہیں مل رہا اور کرانہ ا سٹور مالکوں نے ہمیں سامان بیچنا بند کر دیا ہے، جس کے بعد ہمیں ضروری سامان خریدنے کے لیے پانچ کیلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں والوں نے ہم سے بات کرنا بھی بند کر دیا ہے۔’

اس میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ہمیں گاؤں میں کام نہ ملے، اس لیے ہمیں کام کے لیے باہر جانا پڑےگا۔ ہماری کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ کم پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہیں اور گاؤں کے ہی کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔کمیونٹی کے لوگوں کا الزام ہے کہ شادیوں یا آخری رسوم کی ادائیگی  کے لیے گاؤں کی سڑکوں پر کمیونٹی کے لوگوں کے جمع نہیں ہونے کو لےکر بھی وارننگ دی گئی ہے۔

میمورنڈم میں کہا گیا ہے، ‘ایک فرمان بھی جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہماری کمیونٹی کے بچےمقامی سرکاری اسکول میں نہیں پڑھ سکتے۔یہاں تک کہ ہماری کمیونٹی کےاساتذہ سے بھی کہیں اور تبادلہ کرانے کو کہا گیا ہے۔’گاؤں کے سرپنچ اور گاؤں کی ترقیاتی کمیٹی کے ممبروں نے اس بات پررضامندی کا اظہار کیاہے کہ گاؤں والوں  سے اس کمیونٹی کے لوگوں سے بات نہیں کرنے کو کہا گیا ہے، حالانکہ کمیٹی  اور سرپنچ نے دیگر الزامات سے انکار کیا ہے۔

گاؤں کی ترقیاتی کمیٹی کے سکریٹری  ہرموہن ملک کا کہنا ہے، ‘یہ سچ ہے کہ گاؤں کے لوگوں سے ان سے بات نہیں کرنے کو کہا گیا ہے اور ایسا ان کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے لیکن دوسرےالزام بے بنیاد ہیں۔’گاؤں کے سرپنچ پرنوبندھو داس کا کہنا ہے، ‘یہ بین کمیونٹی معاملہ ہے اور ہم اس کو سلجھا لیں گے۔ اکثریتی کمیونٹی کا مسئلہ ہے کہ اقلیتی کمیونٹی انہیں جھوٹے معاملوں میں پھنساتی ہے اور ایس سی -ایس ٹی ایکٹ کے تحت پولیس میں شکایت درج کراتی ہے۔’

وہ آگے کہتے ہیں،‘جس واقعہ  کی وجہ سے یہ ہوا، اس سے تنازعہ  کھڑا ہو گیا تھا۔ کچھ دنوں کے لیے کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اکثریتی کمیونٹی نے دلت کمیونٹی کے لوگوں سے بات کرنا بند کر دیا۔ اب حالات ٹھیک ہو رہے ہیں۔’گاؤں والوں  کا کہنا ہے کہ میمورنڈم سونپے جانے کے بعد دو دور کی میٹنگ  ہوئی، لیکن معاملے کو سلجھایا نہیں جا سکا۔

کاماکھیا نگر سب ڈویژن  کے سب کلکٹر بشنو پرسادآچاریہ کا کہنا ہے، ‘متاثرہ کمیونٹی نے مقامی  پولیس سے رابطہ کیا تھا، لیکن وہ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے اس لیے وہ میرے پاس آئے۔ میں نے انہیں سب ڈویژن  پولیس افسر کے پاس جانے کو کہا۔ میں دونوں کمیونٹی  کے بیچ امن و امان کے لیے میٹنگ بھی کراؤں گا اور اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کروں گا۔’

تمسنگا پولیس اسٹیشن کے انچارج  انسپکٹر آنند کمار ڈنگڈنگ کا کہنا ہے، ‘ہم نے اس کو سلجھانے کی کوشش کی۔ وہ سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے کو اور بڑھانا نہیں چاہتے اس لیے ہم نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ ہم نے دونوں کمیونٹی  کے رہنماؤں کی ایک بیٹھک بلائی ہے۔ اگر وہ معاملے کو نہیں سلجھاتے ہیں تو ہم ایف آئی آر درج کریں گے۔’