خبریں

سی اے جی کے دفاعی آڈٹ میں رافیل ڈیل کی جانچ شامل نہیں: میڈیا رپورٹ

ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر 2019 میں کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل(سی اے جی) کے ذریعے سونپی گئی پرفارمنس آڈٹ رپورٹ میں سی اے جی  نے صرف  بارہ دفاعی  آفسیٹ سودوں کا تجزیہ  کیا ہے۔وزارت دفاع  نے آڈیٹر کورافیل  آفسیٹ سودے سے متعلق  کوئی جانکاری ہونے سے انکار کیا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل یعنی سی اے جی کے ذریعےدفاعی آفسیٹ کانٹریکٹس کی پرفارمنس رپورٹ سرکار کو سونپے جانے کےآٹھ مہینے بعدوفاقی آڈیٹر کےاعلیٰ ذرائع  نے انکشاف کیا ہے کہ اس رپورٹ میں رافیل کے آفسیٹ سودے کا کوئی تذکرہ  نہیں ہے۔ٹائمس آف انڈیا کے مطابق،سرکار کو ابھی یہ رپورٹ پارلیامنٹ میں پیش کرنی ہے۔وزارت دفاع نے آڈیٹر سے رافیل آفسیٹ سے متعلق کوئی جانکاری ہونے سے انکار کیا ہے۔

آڈٹ سے جڑے لوگوں نے کہا ہے کہ وزارت دفاع نے سی اے جی  سے کہا ہے کہ رافیل  کی فرانسیسی مینوفیکچرنگ کمپنی داسو ایوی ایشن نے کہا ہے کہ صرف تین سال کے بعد ہی وہ اپنے آفسیٹ پارٹنرس کے کانٹریکٹس کی کوئی جانکاری شیئر کرےگی۔بتا دیں کہ پچھلے مہینے فرانس سے ہندوستان کو پانچ رافیل جنگی طیاروں  کی پہلی کھیپ حاصل ہوئی۔ 36 طیاروں  کا یہ سودا 59000 کروڑ روپے میں ہوا ہے۔

سال 2016 میں بین حکومتی معاہدے پر دستخط کے بعد داسو ایوی ایشن 36 سے 67 مہینے کے بیچ تمام طیارے اڑان کی  حالت میں مہیا کرانے پرراضی  ہوا تھا۔ایسا پتہ چلا ہے کہ دسمبر 2019 میں سرکار کو سونپے گئے اپنے پرفارمنس آڈٹ رپورٹ میں سی اے جی نے صرف 12دفاعی آفسیٹ سودوں کاتجزیہ  کیا ہے۔

ذرائع  نے کہا، ‘وزارت دفاع نے ہمیں بتایا ہے کہ رافیل کے فرانسیسی مینوفیکچرر نےابھی تک آفسیٹ سودے سے متعلق کوئی جانکاری شیئر نہیں کی ہے۔’سی اے جی رپورٹ میں رافیل آفسیٹ سودے کی جانچ شامل نہیں کیے جانے کی جانکاری سامنے آنے پر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ایک بار پھر سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

راہل گاندھی نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘رافیل میں ہندوستانی ٹیکس دہندوں کے پیسے کی چوری کی گئی۔’اس دوران انہوں نے مہاتما گاندھی کے ‘سچ ایک، راستے کئی’والے قول  کا بھی ذکر کیا۔معلوم ہو کہ ہندوستان اور فرانس کے بیچ ہوئے رافیل سودے کواپوزیشن کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا  جاتا رہا ہے۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی اس سودے میں گھوٹالہ ہونے کا الزام لگا چکے ہیں۔

لوک سبھاانتخاب  کے دوران انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پربدعنوانی  کا الزام  لگاتے ہوئے ‘چوکیدار چور ہے’ کا نعرہ دیا تھا۔کانگریس رافیل ڈیل میں بڑے پیمانے پربے ضابطگی  کےالزام لگاتی رہی ہے۔ وہ طیارہ مینوفیکچرنگ کے لیے داسو ایوی ایشن کے آفسیٹ پارٹنر کے طور پر ہندستان ایروناٹکس لمٹیڈ(ایچ اے ایل)کی جگہ انل امبانی کی قیادت والی ریلائنس ڈیفینس کے انتخاب پر بھی مودی سرکار پر حملہ آور رہی ہے۔

بتادیں کہ14 دسمبر، 2018 کو اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے رافیل سودے میں جانچ کی مانگ والی تمام عرضیاں خارج کر دی تھیں اور کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ کو بھی ٹھکرا دیا تھی۔اس کے بعد 21 فروری، 2019 کو رافیل سودے کو لےکر دائر ریویو پٹیشن پر سپریم کورٹ شنوائی کو تیار ہو گیا تھا۔

رافل سودے کی آزادانہ جانچ کی مانگ کرنے والی اپنی عرضی خارج ہونے کے بعد، سابق  وزیر ارون شوری اور یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نےسپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کرکے فیصلے کےتجزیے کی مانگ کی تھی۔ستمبر2017 میں ہندوستان نےتقریباً58000 کروڑ روپے کی لاگت سے 36 رافیل جنگی طیاروں  کی خریداری کے لیے فرانس کے ساتھ بین حکومتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس سےتقریباً ڈیڑھ سال پہلے 2015 میں وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پیرس دورے کے دوران اس پیشکش کا اعلان کیا تھا۔ 26 جنوری 2016 کو جب فرانس کے اس وقت کے صدریوم جمہوریہ کے تقریب میں بطور مہمان خصوصی ہندوستان  آئے تھے تب اس معاہدے پردستخط ہوئے تھے۔

دی  ہندو’اخبار نے فروری، 2019 میں دعویٰ کیا تھا کہ فرانس کی سرکار کے ساتھ رافیل ڈیل کو لےکر وزارت دفاع  کے ساتھ ساتھ پی ایم اوبھی متوازی  بات چیت کر رہا تھا۔حالانکہ چار مئی، 2019 کو سپریم کورٹ میں ایک نیاحلف نامہ  داخل کرکےمرکز کی مودی سرکار نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ایم او کے ذریعے سودے کی نگرانی کو متوازی  بات چیت یا دخل کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔