خبریں

تبلیغی جماعت معاملہ: بامبے ہائی کورٹ نے 29 مقدمات رد کیے، کہا-لگتا ہے تبلیغی جماعت کو قربانی کا بکرا بنایا گیا

بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے کہا کہ دہلی مرکز میں منعقداجتماع  میں شامل ہونے آئے غیرملکی شہریوں  کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پروپیگنڈہ  چلایا گیا اور ایسی امیج  بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہی لوگ ہندوستان  میں کووڈ 19پھیلانے کے ذمہ دار تھے۔

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:بامبے ہائی کورٹ نے جمعہ کو اپنے ایک فیصلے میں تبلیغی جماعت کے کل 29غیرملکی ممبروں  کے خلاف درج ایف آئی آر کو رد کر دیا۔لائیو لاءکی رپورٹ کے مطابق، ان 29غیرملکی شہریوں پر دہلی کے نظام الدین میں ہوئے تبلیغی جماعت کے اجتماع  میں شامل ہوکرٹورسٹ ویزا کے ضابطوں کی مبینہ طور پرخلاف ورزی کرنے کے الزام میں آئی پی سی کے مختلف اہتماموں،وبائی امراض سے متعلق ایکٹ، مہاراشٹر پولیس ایکٹ،ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور غیرملکی قانون کی خلاف ورزی کے تحت الزام درج کیے گئے تھے۔

غیر ملکی شہریوں کے ساتھ ساتھ پولیس نے عرضی گزاروں کو پناہ دینے کے لیے چھ ہندوستانی شہریوں  اور مسجدوں کے ٹرسٹیوں پر بھی معاملہ درج کیا تھا۔بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ  آباد بنچ کے جسٹس ٹی وی نالاوڑے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی بنچ  آئیوری کوسٹ، گھانا، تنزانیہ، جبوتی، بینن اور انڈونیشیا جیسے ممالک کےعرضی گزاروں  کی تین الگ الگ عرضیوں پر شنوائی کر رہی تھی۔

ان تمام عرضی گزاروں  پر پولیس کے اس دعوے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا تھا کہ انہیں جانکاری  ملی تھی کہ عرضی گزارلاک ڈاؤن کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے الگ الگ علاقوں کے مسجدوں میں رہ رہے تھے اور نماز ادا کر رہے تھے۔عرضی گزاروں کےمطابق، وہ حکومت ہند کی جانب سےکیے گئے قانونی ویزاپر ہندوستان  آئے تھے۔ وہ ہندوستانی تہذیب، روایت، خدمت اور کھانے کا تجربہ لینے کے لیے آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے ہوائی اڈے پر پہنچنے پر ان کی اسکریننگ کی گئی اور کووڈ 19 کا ٹیسٹ کیا گیا۔ ان کے کووڈ نگیٹو پائے جانے کے بعد ہی انہیں ہوائی اڈہ چھوڑنے کی اجازت ملی۔اس کے علاوہ انہوں نے احمد نگر ضلع میں پہنچنے پرضلع پولیس  سپرنٹنڈنٹ کو مطلع کیا تھا۔ 23 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد گاڑیوں کی آمدورفت رک گئی، ہوٹل اور لاج بند ہو گئے اور اسی وجہ سےمسجد نے انہیں پناہ دی۔

عرضی گزاروں  نے کہا کہ انہوں نے نہ تو ضلع مجسٹریٹ کے احکامات کی خلاف ورزی  کی اور نہ ہی کسی غیرقانونی سرگرمی میں شامل ہوئے۔عرضی گزاروں  نے کہا کہ یہاں تک کہ انہوں نے مرکز کے ساتھ دیگر مقامات پر بھی جسمانی دوری کے ضابطوں پر عمل  کیا۔

انہوں نے کہا کہ ویزا فراہم کیےجانے کے دوران انہیں مقامی حکام  کو مطلع کرنے کے لیے نہیں کہا گیا تھا،اس کے باوجود ہر جگہ پہنچنے پر انہوں نے مقامی حکام  کو جانکاری دی۔ اس کے ساتھ ہی ویزا شرطوں میں مسجد جیسے مذہبی مقامات پر جانے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔

وہیں، دوسری طرف عرضی گزاروں  کے حلف نامے کے جواب میں احمد نگر ضلع  پولیس  سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ عرضی گزار ان جگہوں پر اسلام کی تبلیغ کرنے کے لیے گئے تھے اس لیے ان کے خلاف جرم کا معاملہ درج کیا گیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ تین الگ الگ معاملوں میں پانچ غیرملکی شہری کوروناکے مریض  پائے گئے۔ کورنٹائن مدت  ختم ہونے کے بعد تمام عرضی گزاروں کو رسمی  طور پر گرفتار کیا گیا۔

جسٹس نلوڑے نے کہا کہ ریکارڈ پر موجود دستاویزوں کے مطابق غیرملکی شہریوں کے مذہبی مقامات میں جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

ایڈیشنل سرکاری وکیل ایم ایم نورلیکر نے کہا کہ 950 غیرملکی شہریوں کومرکزی حکومت کی جانب سے بلیک لسٹ کرنے کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا ہے اس لیے اس معاملے میں فیصلہ آنے تک فیصلہ نہ سنایا جائے۔ حالانکہ ہائی کورٹ نے اس دلیل کو خارج کر دیا۔

جسٹس نلوڑے نے کہا،‘ریکارڈپرموجود دستاویز دکھاتے ہیں کہ تبلیغی جماعت مسلمانوں کا کوئی الگ طبقہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف مذہب کی اصلاح کی تحریک ہے۔ اصلاح کی وجہ سےہر مذہب  کاسالوں  میں فروغ  ہوا ہے، کیونکہ سماج میں تبدیلی کی وجہ سےاصلاح  ہمیشہ ضروری  ہوتی ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ دوسرے مذہب کے افراد کو اسلام میں لانے کے لیے غیرملکی شہری اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے۔’انہوں نے کہا، ‘الزام بہت غیر واضح ہیں اور ان الزامات  سے اس میں کسی بھی سطح  پر دخل دیناممکن نہیں ہے کہ وہ  اسلام پھیلا  رہے تھے اور ان کا ارادہ مذہب تبدیل کرانے  کا تھا۔’

تبلیغی جماعت کے اجتماع میں حصہ لینے والے غیرملکی شہریوں  کے میڈیا میں کردار کشی کی تنقید کرتے ہوئے جسٹس نلوڑے نے کہا، ‘دہلی میں مرکز میں شامل ہونے آئے غیرملکی شہریوں  کے خلاف پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں بہت پروپیگنڈہ  چلایا گیا اور ایسی امیج بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہی لوگ  ہندوستان میں کووڈ 19 پھیلانے کے ذمہ دار تھے۔ ان غیرملکی شہریوں کو مجازی طور پرہراساں کیا گیا۔’

انہوں نے کہا، ‘وبایاآفت کے دوران ایک سیاسی  حکومت قربانی  کا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ اس بات کا امکان  ہے کہ ان غیرملکی شہریوں  کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے چنا گیا تھا۔’

انہوں نے آگے کہا،‘ہندوستان میں انفیکشن کی سابقہ اور موجودہ حالات  بتاتے ہیں کہ ان عرضی گزاروں کے خلاف ایسی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ غیرملکی شہریوں  کے خلاف کی گئی اس کارروائی کے بارے میں افسوس کرنے اور اس کارروائی سے نقصان کی بھرپائی کے لیے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے لیے یہ صحیح وقت  ہے۔’