خبریں

ونود دوا نے سپریم کورٹ سے کہا، سرکار کی ہر تنقید سیڈیشن کے دائرے میں نہیں آتی

ہماچل پردیش کے ایک بی جے پی رہنما کی شکایت پر ونود دوا پرفرضی خبریں پھیلانے اور وزیر اعظم  کے خلاف توہین آمیز لفظوں کا استعمال کرنے کےالزام  میں سیڈیشن  سمیت کئی دفعات  میں کیس درج کیا گیا ہے۔ دوا نے عدالت میں کہا کہ اگر وہ وزیر اعظم  کی تنقید کرتے ہیں، تو یہ سرکار کی تنقید کے دائرے میں نہیں آتا۔

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: سینئرصحافی ونود دوا نے جمعہ کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ سرکار کی تنقید تب تک سیڈیشن نہیں ہے، جب تک وہ تشدد  کی وجہ نہ بنے۔ونودسیڈیشن  کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے ایک یوٹیوب پروگرام کو لےکر ہماچل پردیش میں بی جے پی  کے ایک مقامی رہنما نے ان کے خلاف سیڈیشن  کا معاملہ درج کرایا ہے۔

 اسکرال کی رپورٹ کے مطابق، دوا نے عدالت کے سامنےکہا کہ اگر میں وزیر اعظم  کی تنقید کرتا ہوں تو یہ سرکار کی تنقیدکے دائرے میں نہیں آتا۔دراصل جسٹس یویو للت اور جسٹس ونیت سرن کی بنچ ہماچل پردیش میں بی جے پی کے ایک رہنما کے ذریعےدوا پر درج کرائے گئے ایک معاملے کو رد کرنے کی عرضی پر شنوائی کر رہی تھی۔

دوا پر اپنے ایک یوٹیوب پروگرام  کے ذریعے فروری میں دہلی میں ہوئےفرقہ وارانہ تشددکو لےکر افواہ پھیلانے اور غلط جانکاری  دینے کا الزام ہے۔دوا کی جانب  سے ان کے معاملے کی پیروی کر رہے وکیل وکاس سنگھ نے سپریم کورٹ کے 1962 کے کیدارناتھ معاملے کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوا کہا کہ ایک شہری  ہونے کے ناطے یہ دوا کاحق تھا کہ وہ سرکار کے بارے میں جو بھی کہنا چاہتے ہیں، اسے کہہ یا لکھ سکتے ہیں۔ سرکار کی تنقید یا اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔

سنگھ نے کہا کہ حالانکہ سرکار کی تنقید یا اس پرتبصرہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس سے لوگ سرکار کے خلاف کسی طرح کے تشدد کے لیے راغب نہ ہوں۔سنگھ نے کہا، ‘اگر ہمارے پریس کو آزادانہ طورپرکام کاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو صحیح معنوں میں ہماری جمہوریت خطرے میں ہے۔’

انہوں نے کہا کہ دوا کو آئی پی سی  کی دفعہ505(2) اور 153اے کے تحت لگائے گئے الزامات کے لیے قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ انہوں نے صحافی  کے طورپر کسی مذہب، نسل، زبان، علاقائی گروپ یا کمیونٹی  کے خلاف کچھ نہیں کیا ہے۔سنگھ نے یوٹیوب پروگرام کے ٹرانس کرپٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ‘پروگرام  میں جو کہا گیا تھا، ایف آئی آر میں اس کے برعکس  اس کوتوڑمروڑکر پیش کیا گیا۔ دونوں معاملوں میں یہ نہ تو سیڈیشن ہے اور نہ دشمنی،نفرت یا بد نیتی کو پیدا کرنے والا یا بڑھاوا دینے والا بیان ہے۔’

دوا نے اپنی عرضی میں کہا تھا، ‘میڈیا کے خلاف ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے، جہاں ریاستی  سرکاریں اپنے سیاسی نظریات سے میل نہیں کھانے والے بالخصوص نشریاتی مواد کو لےکر میڈیا کے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کراتی ہیں، جو خاص طور پر انہیں ہراساں  کرنے کے لیے اور انہیں ڈرانے کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ سرکار کےسامنے جھک جائیں یا پولیس کی کارروائی کا سامنا کریں۔’

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، دوا کی جانب سے پیش سینئر وکیل  وکاس سنگھ نے بنچ کو بتایا کہ یونائٹیڈ اسٹیٹس بل آف رائٹس میں شہریوں اور پریس دونوں کا ذکر ہے لیکن ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 19(1) میں پریس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔سنگھ نے کہا کہ آرٹیکل19(1)کے تحت پریس کو بھی وہی حقوق حاصل  ہیں، جو شہریوں کو ہیں۔ حالانکہ شہری  روزانہ  رپورٹ نہیں کرتے لیکن سوشل میڈیا کے آنے سے عام شہری  بھی لگاتار لکھ رہے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ آزاد پریس کا نہیں ہونا جمہوریت کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی شنوائی دو ستمبر تک کے لیے ملتوی  کر دی۔

بتا دیں کہ بی جے پی کے مقامی رہنما اجئے شیام کی شکایت پر چھ مئی کو شملہ کے کمارسین تھانے میں ونود دوا کے خلاف سیڈیشن، ہتک آمیز مواد کو نشر کرنے اور عوامی نقصان  کرنے جیسےالزامات میں آئی پی سی کے اہتماموں کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ہماچل پردیش پولیس 12 جون کو دوا کی رہائش پر پہنچی تھی اور انہیں اگلے دن صبح دس بجے کمارسین پولیس تھانے پہنچنے کے حکم  دیے تھے۔ اس کے بعد دوا نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے 14 جون کو معاملے کی فوراًشنوائی کی تھی اور چھ جولائی تک انہیں گرفتاری سے چھوٹ  دی تھی۔اگلے دن عدالت نے گرفتاری سے ان کی چھوٹ کی مدت کو بڑھاکر 15 جولائی اور پھر 20 جولائی کر دی تھی۔