خبریں

آسام میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار ہو سکتے ہیں سابق سی جے آئی رنجن گگوئی

آسام کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کےسینئررہنما ترون گگوئی کا کہنا ہے کہ ان کے ذرائع  کے مطابق رنجن گگوئی کا نام اگلے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کےوزیر اعلیٰ کےعہدے کے امیدواروں کی فہرست میں ہیں۔ ریاست میں2021  میں انتخاب  ہونے ہیں۔

وزیر اعظم  نریندر مودی کے ساتھ رنجن گگوئی(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

وزیر اعظم  نریندر مودی کے ساتھ رنجن گگوئی(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی : آسام کےسابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے سینئر رہنما ترون گگوئی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق  چیف جسٹس رنجن گگوئی ریاست کے اسمبلی انتخاب  میں بی جے پی کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔آسام میں اگلے سال اسمبلی انتخاب  ہونے ہیں۔

ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ترون گگوئی نے سنیچر کو صحافیوں کو بتایا،‘میرے ذرائع  سے پتہ چلا ہے کہ رنجن گگوئی کا نام ریاست میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی طرف سے وزیراعلیٰ کے عہدے کے امیدواروں کی فہرست میں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں آسام کے اگلے ممکنہ وزیر اعلیٰ کے عہدےکے امیدوار کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجیہ سبھاایم پی  بن سکتے ہیں، تو وہ آسام میں بی جے پی  کے اگلے ممکنہ  وزیراعلیٰ  امیدوار کے طور پر بھی راضی ہو سکتے ہیں۔

گگوئی نے کہا، ‘یہ سب سیاست ہے۔بی جےپی ایودھیا رام مندر معاملے میں فیصلے کو لےکر رنجن گگوئی سے خوش تھی۔ اس کے بعد انہوں نے راجیہ سبھا میں نامزد کرکے دھیرے دھیرے سیاست میں داخل کیا۔ انہوں نے راجیہ سبھا کی رکنیت سے کیوں انکار نہیں کیا؟ وہ آسانی سے ہیومن رائٹس کمیشن یا کسی دیگر رائٹس سے متعلق تنظیم  کے سربراہ  بن سکتے تھے۔ ان کےسیاسی  عزائم  تھے اس لیے انہوں نے راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کی۔’

آسام کے سابق وزیر اعلیٰ  نے کہا کہ وہ آسام میں کانگریس کے اگلے ممکنہ  وزیر اعلیٰ عہدے کے امیدوار نہیں بننے جا رہے۔وہ بی جے پی کو اقتدارسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بدرالدین اجمل کی قیادت والی آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اےآئی یوڈی ایف)، لیفٹ اور علاقائی  پارٹیوں کے مہاگٹھ بندھن کی وکالت کر رہے ہیں۔

ترون گگوئی نے کہا، ‘میں ریاست کا وزیر اعلیٰ نہیں بننے جا رہا۔ میں ایڈوائزریا صلاح کار کے طور پر کام کرنا چاہوں گا۔ کانگریس میں کئی اہل امیدوار ہیں، جو چارج سنبھال سکتے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ ممکنہ گٹھ بندھن کے ایک مشترکہ  امیدوار کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے امید اور کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔

حالانکہ، کانگریس کے کئی رہنمااےآئی یوڈی ایف کے ساتھ پارٹی کے گٹھ بندھن کی سوچ کی مخالفت کر رہے ہیں اور انہوں نے کانگریس کے سینئر رہنماؤں کے سامنےاپنا ناراضگی کا اظہاربھی کیا ہے۔ان رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اےآئی یوڈی ایف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے آسام کے اوپری علاقوں میں کانگریس کی ووٹنگ فیصد پر خراب  اثر پڑےگا۔ ایسے علاقوں میں جہاں چائے باغان کمیونٹی یاقبائلی لوگوں کے ووٹ زیادہ ہیں۔

جورہاٹ کے سابق ایم ایل اے رانا گوسوامی کا کہنا ہے، ‘میں نے ترون گگوئی سے بات کی اور ان سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اےآئی یوڈی ایف کے ساتھ ہاتھ ملانا مناسب نہ ہو۔ حالانکہ، اگر مہاگٹھ بندھن ہوگا توحالات  میں تبدیلی  آئےگی۔’