خبریں

دہلی ہائی کورٹ نے سدرشن نیوز کے ’نوکر شاہی جہاد‘ پروگرام  پر روک لگائی

جامعہ ملیہ  اسلامیہ کے طلبا کی عرضی  پر دہلی ہائی کورٹ نے سدرشن نیوز کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کے شو ‘بند اس بول’کے متنازعہ ‘یوپی ایس سی جہاد’ایپی سوڈ پر روک لگا دی ہے۔ 28 اگست کو رات آٹھ بجے اس شوکو نشر ہونا تھا۔

(بہ شکریہ : سدرشن نیوز/ویڈیوگریب)

(بہ شکریہ : سدرشن نیوز/ویڈیوگریب)

نئی دہلی: سدرشن نیوز چینل کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کے شو ‘بند اس بول’ کے متنازعہ  ‘یوپی ایس سی جہاد’ والے ایپی سوڈپر دہلی ہائی کورٹ نے روک لگا دی ہے۔لائیولاء کی رپورٹ کے مطابق، جمعہ  کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کی عرضی  پر جسٹس نوین چاولہ کی بنچ نے ایک ارجنٹ شنوائی میں یہ آرڈر دیا ہے۔

چوہانکے نے اس ایپی سوڈ کا ایک ٹریلر ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے ہیش ٹیگ یوپی ایس سی جہاد کے ساتھ نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کا بڑا انکشاف  کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ نوکر شاہی میں بڑی تعدادمیں مسلمانوں کی تقرری ایک سازش  کے تحت ہو رہی ہے، جس کا انکشاف وہ اس شو میں کریں گے۔ 28 اگست کو رات آٹھ بجے اس شو کو لائیوہونا تھا۔

عرضی گزاروں کی جانب  سے پیش وکیل شاداں  فراست نے شو کے نشر ہونے پر روک لگانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں مبینہ طور پر ایسامواد ہے، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ،یہاں کے سابق طلبا اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو بدنام کر سکتا ہے، ان پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور ان کے خلاف نفرت بھڑکا سکتا ہے۔

عرضی گزاروں نے کہا کہ انہوں نے سریش چوہانکے کی جانب سے شیئر کیے گئے ٹریلرکو دیکھا ہے، جس میں وہ کھلے طور پر جامعہ کے طلبا اور مسلم کمیونٹی  کے خلاف متنازعہ اور توہین آمیز باتیں کہہ رہے ہیں۔طلبانے یہ بھی کہا، ‘چوہانکے نے غیر ہندو ناظرین  کونشانہ بناتے ہوئے یہ کہہ کر ڈر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جلد ہی ‘جامعہ کے جہادی’ کلکٹر اورسکریٹری  بنیں گے۔’

اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس شو کی مجوزہ نشریات اور یہ متنازعہ  ٹریلر کیبل ٹی وی نیٹ ورک (ریگولیشن) قانون کے پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی  ہے۔ ٹریلر میں ہیٹ اسپیچ اور ہتک آمیزمواد بھی ہے، جو آئی پی سی کی دفعہ 153اے (1)،153بی (1)، 295اے اور 499 کے تحت جرم ہیں۔

واضح ہو کہ سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ٹریلر میں چوہانکے ‘جامعہ کے جہادی’کہتے نظر آ رہے ہیں۔ اس پر جامعہ انتظامیہ نے سخت عتراض کیا ہے۔

جامعہ کے پی آراو احمد عظیم  نے کہا، ‘ہم نے وزارت تعلیم  کو خط لکھ کر انہیں اس پورے معاملے کی جانکاری دی اور انہیں بتایا کہ سدرشن چینل نے نہ صرف جامعہ اور ایک خاص کمیونٹی کی امیج خراب  کرنے کی کوشش کی بلکہ یو پی ایس سی کی امیج بھی خراب کرنے کی  کوشش کی ہے۔’

جامعہ ٹیچرایسوسی ایشن نے سریش چوہان کے کی ہندوستان اور جامعہ مخالف  تبصرے کے خلاف انتظامیہ  کی جانب سے مجرمانہ ہتک عزت  کا مقدمہ دائر کیے جانے کی مانگ کی ہے۔

ان الزامات  پر ردعمل  دیتے ہوئے چوہان کے نے کہا کہ وہ وہی کہیں گے، جو ان کے جمعہ  رات کو نشر ہونے والے شو میں انہیں کہنا ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘مجھے نہیں پتہ کہ آرسی اے میں ہندو ہیں یا نہیں۔ جہادی لفظ  کی مخالفت کرنے والوں کو پہلے بتانا چاہیے کہ کیا انہیں یہ توہین آمیز لگتا ہے۔ میں اپنے رخ پر قائم ہوں اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ نوکر شاہی میں ان کی(مسلم) تعداد کیسے بڑھ رہی ہے؟’

انہوں نے آگے کہا، ‘یہ اس لیے کیونکہ انہیں پچھلے دروازے سے حمایت  دی جا رہی ہے، ان کے پاس اسلامک اسٹڈیز، اردووغیرہ  چننے کااختیار ہے۔ اگر میرا شو غیر آئینی  پایا جاتا ہے اور یہ براڈکاسٹنگ کے معیار پر کھرا اترتا نہیں پایا جاتا تو میرے خلاف کارروائی کی جائے۔’

بتا دیں کہ اس سے پہلے آئی پی ایس ایسوسی ایشن نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے اس کو فرقہ وارانہ اور غیرذمہ دارانہ  بتایا تھا۔بتا دیں کہ ہندوستان  میں مختلف  سول سروسز کے امتحانات کی ذمہ داری یوی پی ایس سی کی ہے، جو قومی  سطح پر ایک لمبے  پروسس میں انہیں کرواتا ہے۔

آئی اے ایس،آئی پی ایس اورآئی ایف ایس میں جانے کے خواہش مند امیدوار ان میں حصہ لیتے ہیں۔حالانکہ ان امتحانات میں عمر،تعلیمی اہلیت امتحان دینے کی کوششوں  کے بارے میں کئی ضابطےہیں، لیکن کسی بھی مذہب  کے ہندوستانی  اس میں حصہ  لے سکتے ہیں۔