خبریں

توہین عدالت معاملے میں سپریم کورٹ نے وکیل پرشانت بھوشن پر ایک روپے کا جرمانہ لگایا

ٹوئٹر پر کیے گئے دو تبصروں کے لیے توہین عدالت  کے مجرم  ٹھہرائے گئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کو سزا سناتے ہوئے جسٹس ارون مشرا کی بنچ نے ہدایت دی کہ 15 ستمبر تک جرمانہ نہ دینے پر انہیں تین مہینے جیل ہوگی اور تین سال تک وکالت کرنے سے روک دیا جائےگا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دو ٹوئٹ کرنے کی وجہ سےتوہین  عدالت کے قصوروار پائے گئے وکیل پرشانت بھوشن پر سپریم کورٹ نے سوموار کو ایک روپے کا جرمانہ لگایا ہے۔لائیولاء کے مطابق، جسٹس ارون مشرا، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے بھوشن کو ہدایت  دی کہ وہ15 ستمبر تک جرمانہ جمع کریں۔ ایسا نہ کر نے پر انہیں تین مہینے کی جیل ہوگی اور تین سال تک وکالت کرنے سے روک دیا جائےگا۔

بھوشن کو سزا سناتے ہوئے جسٹس ارون مشرا نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا، ‘ججوں کی جانب سے میڈیا کو دیا گیا بیان سزا سنانے پر غورکرنے لائق نہیں تھا کیونکہ ججوں کو میڈیا میں نہیں جانا چاہیے تھا۔’بتا دیں کہ جنوری 2018 میں سپریم کورٹ کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے چار ججوں نے پریس کانفرنس کی تھی۔ اپنے خلاف توہین عدالت  کی کارروائی کے دوران بھوشن اور ان کے وکیل لگاتار یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ان چاروں ججوں پر توہین عدالت  کی کارروائی کیوں نہیں ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال بھی چاروں ججوں کی پریس کانفرنس کا ذکر کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں بولنے سے روک دیا گیا تھا۔وہیں، بنچ کے غور  کیے جانے سے پہلے بھوشن کی جانب سے اپنے بیان کو میڈیا میں نشر کروانے پر بھی عدالت نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

بنچ نے کہا، ‘اس معاملے میں بھی ہم نے نہ صرف انہیں معافی مانگنے کا موقع دیا بلکہ براہ راست یابالواسطہ طور پرافسوس  ظاہرکرنے کے لیے منایا۔ انہوں نے اس پر دھیان نہیں دیا اور اپنے بیانات کو بڑے پیمانے پر نشر کرایا اور میڈیا کو انٹرویو دیا جس سے آگے بھی عدالت کا وقار گرا۔’

جسٹس مشرا نے یہ بھی کہا کہ بنچ نے اٹارنی جنرل کی صلاح  پر بھی غور کیا۔عدالت کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے پرشانت بھوشن نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ان کے وکیل راجیو دھون نے یہ رقم  جمع کروا دی ہے۔

بتا دیں کہ جولائی مہینے کے آخری ہفتے میں جسٹس ارون مشرا کی قیادت  والی بنچ نے جون مہینے میں بھوشن کے ذریعے کیے ٹوئٹ پر ازخود نوٹس لیا تھا اور ان کے دو ٹوئٹس، جن میں سے ایک میں انہوں نے ملک کے چیف جسٹس پر تبصرہ  کیا تھا، کے لیے ہتک  کا نوٹس جاری کیا تھا۔

بھوشن نے اس کے جواب میں دیے حلف نامے میں کہا تھا کہ سی جےآئی کو سپریم کورٹ مان لینا اور کورٹ کو سی جےآئی مان لینا ہندوستان  کی سپریم کورٹ  کو کمزور کرنا ہے۔اس کے بعد 14 اگست کو بنچ نےانہیں توہین  عدالت کا قصوروار ٹھہرایا تھا اور 20 اگست کو سزا سنانے پر بحث سنی تھی۔ اس کے بعد بھوشن کا جواب ملنے پر 25 اگست کو بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔

اس دوران بنچ اس بات پر زور دیتی رہی کہ اگر بھوشن غلطی مان لیتے ہیں یا انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، تو کورٹ انہیں معاف کرنے کی بارے میں سوچ سکتی ہے۔حالانکہ بھوشن نے معافی مانگنے سے صاف طور پر انکار کر دیا تھا۔ 25 تاریخ کی شنوائی کے دوران بھی بھوشن اس بات پر قائم رہے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور کورٹ جو سزا دےگی اس کو وہ  قبول  کریں گے۔

وہیں، کورٹ نے اس بات کو لےکر افسوس کا اظہارکیا تھا کہ بھوشن معافی نہیں مانگ رہے ہیں، معافی مانگنے میں کیا دقت ہے۔ جسٹس مشرا نے کہا تھا، ‘معافی لفظ میں کیا غلط ہے؟ معافی مانگنے میں کیا غلط ہے؟ کیا ایسا کرنے سے آپ قصوروار ہو جائیں گے؟

انہوں نے آگے کہا، ‘معافی ایک جادوئی لفظ ہے، کئی زخم  بھر سکتا ہے۔ میں عمومی بات کر رہا ہوں، پرشانت کے بارے میں نہیں۔اگرآپ معافی مانگتے ہیں تو مہاتما گاندھی کی صف میں آئیں گے۔ گاندھی جی ایسا کرتے تھے۔اگر آپ کسی کو چوٹ پہنچاتے ہیں تو آپ کو مرہم ضرور لگانا چاہیے۔ ایسا کرنے میں چھوٹا محسوس کرنے جیسا کچھ نہیں ہے۔’

غورطلب ہے کہ اس سے پہلے 20 اگست کو توہین عدالت کے معاملے میں سزا طے کرنے کو لےکر ہوئی بحث کے دوران بھوشن نے اپنا بیان پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ سے کہا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور نہ ہی ان کے لیے کسی بھی طرح کی رحمدلی  کی اپیل کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورٹ جو بھی سزا انہیں دےگی، وہ انہیں قبول ہوگی۔ حالانکہ کورٹ نے اس پر کہا تھا کہ جب تک بھوشن اپنا بیان نہیں بدلتے ہیں، تب تک کورٹ انہیں سزا دینے سے انکار نہیں کر سکتی ہے۔اس کے بعد سپریم کورٹ کی بنچ نے پرشانت بھوشن کو ان کے بیان پر غور  کرنے کے لیے 24 اگست تک کا وقت دیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 24 اگست کو بھوشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر وہ اپنے ان بیانات، جو ان کے خیال میں صحیح ہیں، کو واپس لیں گے یا معافی مانگیں گے، تو یہ ان کےضمیر کو گوارہ نہیں ہوگا۔معلوم ہو کہ پرشانت بھوشن کے خلاف ایک اور توہین عدالت کا معاملہ چل رہا ہے، جس میں یہ الزام  لگایا گیا ہے کہ بھوشن نے سال 2009 میں تہلکہ میگزین  کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پچھلے 16 چیف جسٹس میں سے کم سے کم آدھے بدعنوان  تھے۔