خبریں

فیس بک کی آنکھی داس نے کی تھی مودی کی حمایت، بی جے پی کو جیت حاصل کر نے میں بھی کی تھی مدد: رپورٹ

وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں فیس بک کے انٹرنل  گروپ کے پیغامات کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ہندوستان  میں کمپنی کی پبلک پالیسی ڈائریکٹر(جنوبی اور وسطی ایشیا)آنکھی داس سال 2012 سے بالواسطہ طور پرنریندر مودی اور بی جے پی کی حمایت  کرتی رہی ہیں۔ یہ دنیا بھر کے انتخاب میں غیرجانبدار رہنے کے فیس بک کے دعووں پر سوال کھڑے کرتا ہے۔

آنکھی داس (فوٹو بہ شکریہ : لنکڈان)

آنکھی داس (فوٹو بہ شکریہ : لنکڈان)

نئی دہلی: دنیا بھر میں انتخابات  کو لےکرغیرجانبدار رہنے کے فیس بک کے دعووں پر لگاتار سوال اٹھ رہے ہیں اور اس کو لےکر کمپنی کے ہندوستان کے دفتر میں کام کرنے والی ایک عہدیدار کا نام باربار سامنے آ رہا ہے۔امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی30 اگست کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں فیس بک کی پبلک پالیسی ڈائریکٹر (جنوبی اور وسطی ایشیا)آنکھی داس کے ملک میں مقتدرہ بی جے پی  کے لیےمعاون رویہ کمپنی کی غیرجانبداری  کے دعووں کے الٹ رہا ہے۔

اخبار نے کمپنی کے ایک انٹرنل گروپ میں داس کے پیغامات کی بنیاد پر یہ دعوے کیے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، سال 2014 میں لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کی جیت اور نریندر مودی کے اقتدار میں آنے سے ایک دن پہلے داس نے ایک پیغام  میں لکھا، ‘ہم نے ان کی سوشل میڈیا مہم  میں کمال کر دیا ہے اور باقی سب تو تاریخ  ہے۔’

[We lit a fire to his social media campaign and the rest is of course history]

اس کے بعد داس نے کانگریس کی ہار پرایک دیگر پیغام میں‘مضبوط’مودی کے ذریعےان سے پہلے اقتدارمیں  رہی اس پارٹی کی پکڑ توڑنے کے لیے ان کی تعریف کرتے ہوئے داس نے لکھا، ‘اسٹیٹ سوشلزم سے ہندوستان  کو آزاد ہونے میں تیس سالوں کی زمینی محنت لگی۔’

[It’s taken thirty years of grassroots work to rid India of state socialism finally]

اسٹیٹ سوشلزم اس نظام کو کہتے ہیں جہاں انڈسٹری اورمختلف خدمات  سرکار کے ماتحت ہوتی ہیں۔رپورٹ میں 2012 سے 2014 کے بیچ داس کے ذریعےاسٹاف  والے گروپ میں بھیجے گئے  کئی پیغامات کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ باتیں فیس بک کی جانب سےدنیا بھر کے انتخابات میں غیرجانبدار رہنے کے دعووں پر سوالیہ نشان کھڑے کرتی ہیں۔

اس طرح کے کئی سارے پیغامات اور آنکھی داس کے بی جے پی سے قریبی رشتہ کوبیان کرنے والی کئی مثالیں وال اسٹریٹ جرنل کی حالیہ رپورٹ میں اجاگر ہوئے ہیں۔اخبار کے مطابق، اکتوبر، 2012 میں داس نےبی جے پی کو ٹریننگ دینے پر لکھا، ‘ہماری گجرات مہم کامیاب ہوئی۔’اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس مہم سے تقریباً دس لاکھ لوگوں کے جڑنے کا بھی ذکر کیا۔

اس مہم کی کامیابی کے بعد سے مودی کوقومی  چہرہ کے طورپر دیکھا جانے لگا تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مضمون  میں کہا گیا ہے کہ فیس بک نے ایک بار پھر تربیت اورتعاون  کی پیشکش کی تھی۔

مارک زکربرگ کے ساتھ آنکھی داس۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/ankhid)

مارک زکربرگ کے ساتھ آنکھی داس۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/ankhid)

سال2013 کے ایک انٹرنل پوسٹ کے مطابق ان کی فیس بک ساتھی کےٹی ہرباتھ، جو ایک ری پبلکن اور فیس بک کی عالمی انتخابات کی عہدیدار ہیں، نے لکھا کہ داس مودی کو ‘ہندوستان کا جارج ڈبلیو بش’کےطورپرپیش کرتی تھیں۔سال 2014 کے انتخابات سے پہلے انہوں نے لکھا کہ پارٹی کی مہم  میں کمپنی کی اولین ترجیحات کو شامل کرنے کے لیے فیس بک مہینوں سے بی جے پی کے ساتھ لابی کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘اب انہیں صرف انتخاب جیتنے کی ضرورت ہے۔’

داس سال 2011 سے فیس بک کا حصہ رہی ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا فیس بک سیاست میں اپنی افادیت ثابت کرنےکا خواہاں تھا۔فیس بک نے کئی ہندوستانی  سیاسی پارٹیوں  کو ٹریننگ سروسزفراہم  کی کہ وہ کس طرح اس پلیٹ فارم کا استعمال کرکے حامیوں  کواکٹھا کرسکتے ہیں۔ گجرات کے وزیراعلیٰ  کے طورپر مودی کا 2012 کی نتخابی مہم بھی اس مہم  کا ایک حصہ تھی۔

جرنل کی رپورٹ کے مطابق، جب ایک شخص نے بتایا کہ کانگریس کے آفیشیل پیج پر مودی کے پرسنل پیج کے مقابلے زیادہ فالوئنگ ہے تو داس نے داخلی پیغامات میں اپوزیشن پارٹی کی‘توہین’ کرتے ہوئے ایک پوسٹ میں کہا، ‘کانگریس سے ان کا موازنہ کر کےان کے قد کو نہ گھٹائیں۔ … اور میرے تعصب کو ظاہر نہ ہونے دیں۔’

انہوں نے اپنے پیغامات کے ذریعے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ بی جے پی کے سینئررہنماؤں کے ساتھ ان کے قریبی رشتے تھے۔سال 2014 کے عام انتخابات کے نتائج  کے اعلان سے ایک دن پہلے داس نے ساتھ کام کرنے والوں  کے ساتھ مودی کی جیت کی داخلی انتخابی نتائج کے اندازے کو شیئرکیا تھا۔

امریکی اخبار کے مطابق، داس نے کہا کہ انہیں ‘بی جے پی  میں ایک سینئر  رہنما اور قریبی دوست سے’یہ جانکاری ملی ہے۔حالانکہ اس جانکاری کے سامنے آنے کے بعد فیس بک نے آنکھی داس کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ان پیغامات کے ذریعے کوئی جانبداری  ثابت نہیں ہوتی ہے۔

کمپنی ترجمان اینڈی اسٹون نے اخبار سے کہا، ‘یہ پوسٹ سیاق وسباق سے باہر ہیں اور ہندوستانی سیاسی تناظر میں پارٹیوں کے ذریعے ہمارے پلیٹ فارم کا استعمال کرنے کے لیے فیس بک کی کوششوں  کےمکمل دائرے کی نمائندگی  نہیں کرتی ہیں۔’

معلوم ہو کہ گزشتہ14 اگست کو بھی وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں فیس بک کی جنوبی  اور وسط  ایشیاانچارج  کی پالیسی ڈائریکٹرآنکھی داس نے بی جے پی رہنما ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں  کے نفاذکی مخالفت کی  تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے رشتے  بی جے پی سے خراب ہو سکتے ہیں۔

ٹی راجہ سنگھ تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ایم ایل اے ہیں اور وہ اپنے فرقہ وارانہ بیانات  کے لیے معروف  ہیں۔امریکی اخبار کی اس رپورٹ میں فیس بک کے کچھ سابق  اور کچھ موجودہ  ملازمین  کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آنکھی داس نے اپنے اسٹاف کو بتایا کہ مودی کے رہنماؤں کی جانب سےضابطوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے سے ہندوستان  میں کمپنی کے کاروباری امکانات  کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

پورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی جے پی کے ایک رہنما اور دیگر‘ہندو نیشنلسٹ لوگوں اور گروپوں’کی نفرت بھری پوسٹ کو لےکر ان پر فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطہ لگائے جانے کی مخالفت کی تھی۔اسی بیچ آنکھی داس نے دہلی پولیس کے پاس ایک شکایت درج کراکر یہ الزام  بھی لگایا ہے کہ انہیں ‘جان سے مارنے کی دھمکی’ مل رہی ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی 14 اگست 2020 کوشائع ایک رپورٹ وائرل ہونے کے بعد آنکھی داس نے الزام لگایا تھا کہ کئی لوگ انہیں دھمکی دے رہے ہیں، فحش تبصرے کر رہے ہیں اور آن لائن پوسٹ کے ذریعے انہیں بدنام کر رہے ہیں۔

داس نے کہا تھا، ‘(پوسٹ کیے جا رہے)موادمیں،یہاں تک کہ میری تصویریں بھی شامل ہیں اور مجھے جان سے مارنے کی اورجسمانی  نقصان پہنچانے کی دھمکی دی جا رہی ہے اورمجھے اپنی اور اپنے اہل خانہ  کی سلامتی کا ڈر ہے۔ ایک خبر کی بنیادپر میری امیج بھی خراب کی گئی ہے اور مجھے نازیبالفظ کہے جا رہے ہیں اور آن لائن پھبتیاں کسی جا رہی ہیں۔’

اخبار کی پہلی رپورٹ کو لےکر انفارمیشن ٹکنالوجی پر پارلیامنٹ  کی اسٹینڈنگ کمیٹیکی آئندہ میٹنگ میں فیس بک کے حکام  کو بلایا گیا ہے اور انہیں اس پر جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی دہلی اسمبلی کے امن وامان اور ہم آہنگی سے متعلق کمیٹی نے بھی کہا تھا کہ وہ داس سمیت فیس بک کے حکام  کو سمن بھیجیں گے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ شمال مشرقی  دہلی میں ہوئے دنگے میں اس سوشل میڈیا کے کسی افسر کا تو ہاتھ نہیں تھا۔