خبریں

الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف این ایس اے کے الزام  ہٹانے اور فوراً رہائی کاحکم  دیا

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پرمتنازعہ بیان دینے کے معاملے میں29 جنوری کو ڈاکٹرکفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پراین ایس اے لگا دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر کفیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/drkafeelkhanofficial)

ڈاکٹر کفیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/drkafeelkhanofficial)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے منگل کو پچھلے نو مہینے سے اتر پردیش کی ایک جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان پر لگے نیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے)کے الزامات کو ہٹانے اور انہیں فوراً رہا کرنے کاحکم دیا ہے۔

لائیولاءکی رپورٹ کے مطابق، الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ آرڈر ڈاکٹر کفیل کی ماں کی جانب سے دائر ہیبیس کارپس یعنی حبس بےجا کی عرضی پرشنوائی کرتے ہوئے دیا، جس میں انہوں نے ڈاکٹر کفیل کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھے جانے کا الزام  لگایا تھا۔

چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس سومتر دیال سنگھ کی بنچ  نے فی الحال متھرا جیل میں بند کفیل خان پر لگےاین ایس اے کے الزامات کو ہٹانے کا آرڈر دیا۔بنچ نے علی گڑھ ضلع مجسٹریٹ کے ذریعے13 فروری، 2020 کو جاری حراست کے آرڈر اور اتر پردیش سرکار کے ذریعے اس کی تصدیق  کو خارج کر دیا۔

عدالت نے شنوائی کے دوران کہا کہ کفیل کا بیان تشدد یا نفرت کو بڑھانے والا نہیں بلکہ قومی سالمیت اور شہریوں  کے بیچ اتحاد کو بڑھانے والا تھا۔اس کے ساتھ ہی این ایس اےکے تحت خان کی حراست کی مدت کودو بار بڑھانے کو بھی ہائی کورٹ نے غیرقانونی قراردیا ہے۔

بتا دیں کہ گزشتہ29 جنوری کو اتر پردیش کےایس ٹی ایف نے شہریت ترمیم قانون (سی اےاے)کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں دسمبر میں مبینہ  طور پر متنازعہ بیان دینے کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہاں وہ سی اے اے مخالف ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔

کفیل کو گزشتہ10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی، لیکن آرڈر کے تین دن بعد بھی جیل انتظامیہ نے انہیں رہا نہیں کیا تھا۔

اس کے بعد کفیل کےاہل خانہ  نے علی گڑھ  کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں ہتک کی عرضی دائر کی تھی۔ عدالت نے 13 فروری کو پھر سے رہائی کاآرڈر جاری کیا تھا، مگر اگلی صبح ضلع انتظامیہ نے کفیل پراین ایس اےکے تحت کارروائی  کر دی تھی۔ اس کے بعد سے کفیل متھرا جیل میں بند ہیں۔

موجودہ ہیبیس کارپس یعنی حبس بےجاکی عرضی  کفیل کی والدہ نزہت پروین نے داخل کی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے اس سال مارچ میں اپنے بیٹے کی رہائی کو لےکر سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔حالانکہ، سی جےآئی ایس اے بوبڈے، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس بی آر گوئی کی بنچ  نے یہ کہتے ہوئے عرضی  کا نپٹارہ  کر دیا تھا کہ اس معاملے کی شنوائی الہ آباد ہائی کورٹ میں ہی ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی کے سلسلےمیں سپریم کورٹ نے گزشتہ11 اگست کو الہ آباد ہائی کورٹ کے لیے 15 دن کی مدت  طے کی تھی۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ 15 دن میں طے کریں کہ ڈاکٹر کفیل کو رہا کر سکتے ہیں یا نہیں۔اس کے بعد 19 اگست کو ایک آرڈر جاری کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت ڈاکٹر کفیل خان پرہو رہی کارروائی کے بنیادی دستاویزوں کا مطالبہ کیا تھا۔

اس بیچ ڈاکٹرخان کی حراست کی مدت این ایس اےکے تحت پھر سے اور تین مہینے کے لیے بڑھا دی گئی تھی۔

ڈاکٹرخان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب بی آرڈی میڈیکل کالج، گورکھپور میں 60 سے زیادہ بچوں کی موت ایک ہفتےکے اندر ہو گئی تھی۔ڈاکٹرخان کو 2017 میں گورکھپور کے بابا راگھو داس میڈیکل کالج سے برخاست کر دیا گیا تھا کیونکہ انسفلائٹس سے متاثر کئی بچوں کی موت  ہو گئی تھی۔

ان کو  انسفلائٹس وارڈ میں اپنی ذمہ داریوں کی مبینہ خلاف ورزی  کے لیے اور ایک نجی پریکٹس چلانے کے لیے بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ، پچھلے سال انہیں عدالت نے سبھی الزاموں  سے بری کر دیا تھا۔