خبریں

سال 2019 کے انتخاب سے پہلے بی جے پی کے کہنے پر فیس بک نے اس کے 14مخالف پیجوں کو بند کیا تھا: رپورٹ

پچھلے سال نومبر میں بی جے پی نے فیس بک انڈیا کو ڈیلیٹ کیے جا چکے 17 پیجوں کو بھی دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہا تھا، جس میں دو نیوز ویب سائٹ ‘دی  چوپال’ اور ‘آپ انڈیا’ شامل تھیں۔ جن فیس بک پیجوں کی پارٹی نے شکایت کی تھی، ان میں ‘بھیم آرمی’ کا اکاؤنٹ، ‘وی ہیٹ بی جے پی’، ‘دی  ٹروتھ آف گجرات’ اورصحافی  رویش کماراور ونود دوا کی حمایت  والے پیج شامل تھے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: لوک سبھا انتخاب 2019 سے پہلے جنوری میں بی جے پی نے فیس بک انڈیا کو ایسے 44 پیجوں کی فہرست بھیجی تھی، جو اس کی مخالفت کرتی تھیں۔ پارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پیج فیس بک کے طے ضابطوں کی خلاف ورزی  کرتے تھے اور بنا کسی سچائی کے پوسٹ کرتے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ31 اگست تک ان میں سے 14 پیج فیس بک پر موجود نہیں تھے۔فیس بک پر موجود جن پیجوں کی بی جے پی نے شکایت کی تھی، ان میں ‘بھیم آرمی’ کا اکاؤنٹ، طنزیہ سائٹ ‘وی ہیٹ بی جے پی’، ان آفیشیلی کانگریس حمایتی  پیج اور ‘د ی ٹروتھ آف گجرات’ نامی  ایک پیج، جو کہ اکثر‘آلٹ نیوز’ کے فیکٹ چیک کو شیئر کرتا تھا، شامل ہیں۔

وہیں، جن پیجوں کو فیس بک نے بند کیا ہے، ان میں صحافی  رویش کمار اور ونود دوا کی حمایت والے پیج شامل تھے۔پچھلے سال نومبر میں بی جے پی نے فیس بک انڈیا کو ڈیلیٹ کیے جا چکے 17 پیجوں کو بھی دوبارہ شروع کرنے اور مونیٹائز کرنے کے لیے کہا تھا جس میں دو رائٹ ونگ  نیوز ویب سائٹ ‘دی  چوپال’ اور ‘آپ انڈیا’ شامل تھیں۔ پیجوں کے مونیٹائز ہونے پر انہیں اشتہار کے لیے پیسے ملتے ہیں۔

ان تمام 17 پیجوں کو فیس بک نے دوبارہ شروع کر دیا۔ فیس بک نے بی جے پی آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ کو بتایا کہ ان پیجوں کو غلطی سے بند کر دیا گیا تھا۔انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں‘دی چوپال’کےبانی وکاس پانڈے نے کہا کہ مارچ 2019 میں فیس بک کی جانب سے مونیٹائزیشن کو رد کیے جانے کے بعد ان کی سائٹ کو مونیٹائزیشن کی منظوری نہیں ملی۔ وہیں،‘آپ انڈیا’ نے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

بی جے پی کی درخواست پر فیس بک انڈیا کی جانب سے بحال کیے گئےتمام 17 پیج صرف ‘پوسٹ کارڈ نیوز’ کا موادشیئرکرتے ہیں، جس میں سے کئی کنڑ زبان میں ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کسی پیج کو سیدھے طور پر بی جے پی سے جڑا ہوا نہیں بتایا گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ 17 پیجوں میں ایک پیج پر ‘پوسٹ کارڈ نیوز’ کے بانی مہیش وی ہیگڑے کا نام ہے۔ ہیگڑے کو فیک نیوز پوسٹ کرکےفرقہ واریت  کو بڑھاوا دینے اور مذہبی جذبات کو مجروح  کرنے کے الزامات میں مارچ، 2018 میں بینگلورو میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس وقت بینگلورو پولیس نے یہ جانچ بھی کی تھی کہ کیا ہیگڑے کو بی جے پی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔ عدالت میں ہیگڑے کی نمائندگی بی جے پی ایم پی  تیجسوی سوریہ نے کیا تھا۔ فیس بک نے جولائی،2018 میں ‘پوسٹ کارڈ نیوز’ کے پیج کو بند کر دیا تھا۔ہیگڑے نے اس سلسلے میں انڈین ایکسپریس کے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

یہ درخواست مالویہ اور فیس بک انڈیا کی پبلک پالیسی ڈائریکٹر آنکھی داس اور شیوناتھ ٹھکرال کے بیچ ای میل کے ذریعے سے کیے گئے تھے۔ داس اور ٹھکرال نے بھی کوئی تبصرہ  کرنے سے انکار کر دیا۔فروری 2019 کے ای میلوں میں بی جے پی آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ نے ایک میٹنگ کا ذکر کیا جہاں فیس بک انڈیا اور انہوں نے بی جے پی کے کچھ فیس بک پیجوں کو کسی بھی کارروائی سے بچانے پر چرچہ کی تھی۔

مالویہ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ٹھکرال نے جنوری 2019 کی ایک میٹنگ میں یہ مشورہ دیا تھا کہ ایسے پیجوں کی شکایت کانپٹارہ  کیا جائے، جنہیں بی جے پی سمجھتی ہے کہ غلط طریقے سے نشانہ بنایا جائے۔فیس بک کے ایک ترجمان  نے کہا، ‘بچانے کا کوئی اصول نہیں ہے۔

ہمارے پاس کراس چیک نام کی  ایک کارروائی ہے جو کچھ پیجوں اور پروفائل سے مواد کو یقینی  کرکےانفورسمنٹ میں غلطیوں کا ایک نظام ہے، جس کےتوسط سے دوسری  سطح کا تجزیہ کرکے ہم یہ یقینی بناتے ہیں کہ ہم نے اپنی پالیسیوں  کو سہی طریقے سے نافذ کیا ہے۔اگر ہمارے کمیونٹی اسٹینڈرڈکی خلاف ورزی پائی  جاتی ہے تو یہ انفورسمنٹ کارروائی کو روکتی نہیں ہے۔’

مالویہ نے کہا، ‘آئی سپورٹ نریندر مودی اور حقیقی رضاکاروں کے ذریعے چلائے جا رہے دیگر بڑے پیجوں کو ڈر تھا کہ انہیں بند کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے ماضی  میں فیس بک سے بات کی تھی اور ان سے سہی کام کرنے کو کہا ہے۔ وہ مشکل سے ہی ہمیں جواب دیتے ہیں۔ ہم ایک زیادہ شفاف اورغیرجانبدارانہ سسٹم کی مانگ کر رہے تھے۔ ظاہر ہے انہوں نے دوسری طرح سے سوچا ہے۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پبلک پالیسی کا کنٹینٹ سے متعلق فیصلے لیے جانے میں دخل ہے تو فیس بک کے ترجمان  نے کہا کہ پبلک پالیسی کا صرف تبھی دخل ہوتا ہے جب متعینہ کنٹینٹ پالیسی ٹیم دیگر ٹیموں کو شامل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

ترجمان نے کہا، ‘پبلک پالیسی ٹیم میں باہری ملازمین  کے طور پر سیاسی  اور سرکاری ممبربھی شامل ہیں۔ پبلک پالیسی ٹیم 2019 کے انتخابات کے دوران تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے رابطہ  کا پہلا پوائنٹ تھا۔ انتخابی تشہیر کے دوران کئی پارٹیوں  نے اپنے آفیشیل اور حمایت  والے پیجوں کے مدعوں کو اٹھایا تھا۔ ہمارے انٹرنل پروسس کے تحت ان مدعوں کو مختلف ماہرین کی ٹیموں کو بھیجا جاتا ہے، جو ان پر فیصلہ لیتی ہیں اور انہیں نافذ کرتی ہیں۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘عالمی انتخاب ٹیمیں، کنٹینٹ پالیسی ٹیموں کے ساتھ مل کر فیصلہ  لینے میں مدد کرتی ہیں۔ کنٹینٹ پالیسی ٹیمیں کمیونٹی اسٹینڈرڈ کی بنیاد پر انفورسمنٹ کی نگرانی کرتی ہیں اور ساتھ ہی آپریشن  ٹیم کی بھی نگرانی کرتی ہیں جو انفورسمنٹ کی نگرانی کرتی ہیں۔دیگر اسٹیک ہولڈرز جیسے شہری  سماج، میڈیا یا سرکاری اداروں  کی طرح، سبھی سیاسی پارٹی  ان مدعوں کو نشان زد کر سکتے ہیں جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔’

رپورٹ کے مطابق، مالویہ نے نومبر میں پیجوں کو کارروائی سے بچانے کے لیے ایک ریمائنڈر بھیجا تھا، جس میں آٹھ پیجوں کی ایک فہرست تھی۔ ان آٹھ پیجوں میں کچھ فیس بک پر بی جے پی کے سب سے بڑے حمایتی  پیج تھے۔ حالانکہ فیس بک پر ان کے بی جے پی حامی ہونے کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ اس میں‘دی  چوپال’ اور ‘پی ایم او انڈیا: رپورٹ کارڈ’ جیسے پیج شامل ہیں۔

غورطلب ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کی جنوبی  اور وسط  ایشیاانچارج  کی پالیسی ڈائریکٹرآنکھی داس نے بی جے پی رہنما ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں  کے نفاذکی مخالفت کی  تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے رشتے  بی جے پی سے خراب ہو سکتے ہیں۔

ٹی راجہ سنگھ تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ایم ایل اے ہیں اور وہ اپنے فرقہ وارانہ بیانات  کے لیے معروف  ہیں۔امریکی اخبار کی اس رپورٹ میں فیس بک کے کچھ سابق  اور کچھ موجودہ  ملازمین  کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آنکھی داس نے اپنے اسٹاف کو بتایا کہ مودی کے رہنماؤں کی جانب سےضابطوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے سے ہندوستان  میں کمپنی کے کاروباری امکانات  کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

پورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی جے پی کے ایک رہنما اور دیگر‘ہندو نیشنلسٹ لوگوں اور گروپوں’کی نفرت بھری پوسٹ کو لےکر ان پر فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطہ لگائے جانے کی مخالفت کی تھی۔وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک دیگر رپورٹ میں اندرونی پیغامات کی بنیادپر بتایا تھا کہ داس بی جے پی حمایت  کرتی ہیں اور اس کے مخالفیں کو خارج کرتی ہیں۔

‘دی  چوپال’ فیس بک پر نیوز اور میڈیا ویب سائٹ’ہے، 2018 کے بعد سے سیاسی اشتہارات پر پانچ لاکھ روپے خرچ کرتی ہے اور اسے ایک کروڑ لوگ فالو کرتے ہیں۔‘آپ انڈیا’ کے پیج کو دو لاکھ لوگ فالو کرتے ہیں اور اس نے مارچ سے جون 2019 کے بیچ اشتہار پر 90 ہزار روپے خرچ کیے۔ اس کے ساتھ ‘پی ایم او انڈیا: رپورٹ کارڈ’ کے 20 لاکھ فالوور ہیں جبکہ اس نے اس دوران اشتہارات  پر ایک لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔