خبریں

فیس بک نے بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کے اکاؤنٹ پر پابندی لگائی

اگست مہینے میں ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان  میں فیس بک کی پبلک پالیسی ڈائریکٹر(جنوبی اور وسطی ایشیا)آنکھی داس نے بی جے پی رہنما ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں کونافذ کرنے کی مخالفت کی تھی، کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے تعلقات  بی جے پی سے خراب ہو سکتے ہیں۔

بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: ہیٹ اسپیچ سے نمٹنے میں جانبداری کےالزامات اور اعتراضات سے گھرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے تلنگانہ سے بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ پر اپنے پلیٹ فارم اور ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ای میل کے ذریعے ایک بیان میں فیس بک کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تشدد اور نفرت کو بڑھاوا دینے والے مواد پر اپنی پالیسی کی خلاف ورزی  کرنے کو لےکر ہم نے ٹی راجہ سنگھ کو فیس بک پر بین کر دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بیان میں کہا گیا ہے کہ ممکنہ خلاف ورزی کرنے والوں  کے تجزیہ  کا طریقہ کار وسیع ہے اور اس نے ہمیں ان کا اکاؤنٹ ہٹانے کے لیے راغب کیا ہے۔

غورطلب ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کی جنوبی  اور وسط  ایشیاانچارج  کی پالیسی ڈائریکٹرآنکھی داس نے بی جے پی رہنما ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں  کے نفاذکی مخالفت کی  تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے رشتے  بی جے پی سے خراب ہو سکتے ہیں۔

ٹی راجہ سنگھ تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ایم ایل اے ہیں اور وہ اپنے فرقہ وارانہ بیانات  کے لیے معروف  ہیں۔امریکی اخبار کی اس رپورٹ میں فیس بک کے کچھ سابق  اور کچھ موجودہ  ملازمین  کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آنکھی داس نے اپنے اسٹاف کو بتایا کہ مودی کے رہنماؤں کی جانب سےضابطوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے سے ہندوستان  میں کمپنی کے کاروباری امکانات  کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

پورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی جے پی کے ایک رہنما اور دیگر‘ہندو نیشنلسٹ لوگوں اور گروپوں’کی نفرت بھری پوسٹ کو لےکر ان پر فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطہ لگائے جانے کی مخالفت کی تھی۔وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک دیگر رپورٹ میں اندرونی پیغامات کی بنیادپر بتایا تھا کہ داس بی جے پی حمایت  کرتی ہیں اور اس کے مخالفیں کو خارج کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ لوک سبھا انتخاب2019 سے پہلے جنوری میں بی جے پی نے فیس بک انڈیا کو ایسے 44 پیجوں کی فہرست بھیجی تھی، جو اس کی مخالفت کرتی تھیں۔ پارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پیج فیس بک کے طے ضابطوں کی خلاف ورزی  کرتے تھے اور بنا کسی سچائی کے پوسٹ کرتے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ31 اگست تک ان میں سے 14 پیج فیس بک پر موجود نہیں تھے۔فیس بک پر موجود جن پیجوں کی بی جے پی نے شکایت کی تھی، ان میں ‘بھیم آرمی’ کا اکاؤنٹ، طنزیہ سائٹ ‘وی ہیٹ بی جے پی’، ان آفیشیلی کانگریس حمایتی  پیج اور ‘د ی ٹروتھ آف گجرات’ نامی  ایک پیج، جو کہ اکثر‘آلٹ نیوز’ کے فیکٹ چیک کو شیئر کرتا تھا، شامل ہیں۔

وہیں، جن پیجوں کو فیس بک نے بند کیا ہے، ان میں صحافی  رویش کمار اور ونود دوا کی حمایت والے پیج شامل تھے۔پچھلے سال نومبر میں بی جے پی نے فیس بک انڈیا کو ڈیلیٹ کیے جا چکے 17 پیجوں کو بھی دوبارہ شروع کرنے اور مونیٹائز کرنے کے لیے کہا تھا جس میں دو رائٹ ونگ  نیوز ویب سائٹ ‘دی  چوپال’ اور ‘آپ انڈیا’ شامل تھیں۔ پیجوں کے مونیٹائز ہونے پر انہیں اشتہار کے لیے پیسے ملتے ہیں۔