خبریں

آسا رام پر آئی پی ایس افسر کی کتاب، کورٹ نے ریلیز پر لگائی روک

دہلی کی ایک مقامی  عدالت نے نابالغ کے ریپ  کےقصوروار ٹھہرائے گئے خود ساختہ سنت آسارام کی شریک ملزم کی عرضی  پر ان پر لکھی کتاب کو ریلیز ہونے سے روک دیا ہے۔ کتاب آسارام کو گرفتار کرنے والی راجستھان پولیس ٹیم کی قیادت کر رہے آئی پی ایس افسر اجئے پال لامبا نے لکھی ہے۔

Asaram-Book-FB-Harper-Collins

نئی دہلی:  دہلی کی ایک مقامی  عدالت نے ریپ  کےالزام میں جیل میں بند خودساختہ  سنت آسارام پر لکھی ایک کتاب کی  ریلیز پر روک لگا دی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، سات سال پہلے ریپ  کے الزام  میں آسارام کو گرفتار کرنے والی راجستھان پولیس  ٹیم کی قیادت کرنے والے آئی پی ایس افسر اجئے پال لامبا نے یہ کتاب لکھی ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج آر ایل مینا کی عدالت نے 30 ستمبر کو معاملے کی اگلی شنوائی تک کتاب ‘گننگ فار دی  گاڈمین دی  ٹروا سٹوری بہائنڈ آسارام باپو کنوکشن’ کی  ریلیز پر روک لگا دی ہے۔ریپ  معاملے میں شریک ملزم سنچتا گپتا کی اپیل کے بعد یہ روک لگائی گئی ہے۔ عدالت کا یہ آرڈر ورچوئل طور پر کتاب کی  ریلیز ہونے سے ایک دن پہلے آیا۔

سنچتا گپتا کے وکیل وجئے اگروال نے عدالت کو بتایا کہ کتاب کے سچے واقعات پرمبنی  ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔گپتا کے وکیل وجئے اگروال نے عدالت سے کہا، ‘یہ کتاب سچی کہانی پرمبنی  ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن یہ ٹرائل ریکارڈ سے میل نہیں کھاتی اور سب سے اہم اس سے سنچتا کی اپیل میں دخل اندازی  ہوئی ہے، جو فی الحال زیر سماعت تھی۔ ساتھ ہی راجستھان ہائی کورٹ پہلے ہی ان کی سزا کو رد کر چکا ہے۔’

عدالت نے اپنے آرڈر میں کہا ہے، ‘یہ مانا جاتا ہے کہ مدعی  کی عزت داؤ پر ہے اور اگر روک نہیں لگائی جاتی، خاص طور پرتب جب کتاب پانچ ستمبر کو شائع ہو رہی ہے تو اس سے ان کی عزت  کو ناقابل تلافی نقصان  پہنچے گا۔’آرڈر میں کہا گیا،‘معاملے کی اگلی شنوائی 30 ستمبر تک کتاب کی اشاعت پر روک لگائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگلی شنوائی تک پبلشرہارپر کالنس، امیزان اورفلپ کارٹ پر بھی اس کتاب کو شائع کرنے یا بیچنے پرپابندی ہے۔’

بتا دیں کہ اس کتاب کو اجئے پال لامبا نے لکھا ہے، جو فی الحال جے پور میں ایڈیشنل پولیس کمشنر ہیں جبکہ اس کتاب کے شریک مصنف سنجیو ماتھر ہیں۔لامبا نے اس کو بدقسمتی بتایا ہے۔ لامبا (42) نے کہا، ‘کتاب انہی حقائ  پر مبنی  ہیں، جوعوامی  ہیں۔ میں نے صرف ان حقائق کومرتب  کرکے اسے کتاب کی شکل  دی ہے۔’

اس کتاب میں آسارام معاملے کی جانچ پر روشنی  ڈالی گئی ہے کہ کس طرح 2005 بیچ کے ایک آئی پی ایس افسر کی قیادت میں ٹیم نے دہلی پولس میں ریپ  کی شکایت درج ہونے کے 10 دنوں کے اندر2013 میں آسارام کو گرفتار کیا تھا۔اپریل 2018 میں جودھ پور کی خصوصی عدالت نے آسارام کو ایک نابالغ سے ریپ کرنے کا مجرم  پایا تھا۔ ان پر آئی پی سی کی دفعات، پاکسواور جووینائل جسٹس ایکٹ کے الزام  طے کیے تھے۔

انہیں عمرقیدکی سزاسنائی گئی تھی اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا گیا تھا۔ اس معاملے میں شریک ملزم سنچتا گپتا اسی ہاسٹل کی وارڈن تھی، جہاں نابالغ 2013 سے رہ رہی تھی۔راجستھان کی نچلی عدالت نے اسے آسارام کے ساتھ مل کر مجرمانہ سازش کرنے اور بچی کو آسارام کے پاس بھیجنے کا الزام طے کیا تھا۔

سنچتا گپتا نے بعد میں راجستھان ہائی کورٹ کےسامنے اپیل کی تھی، جہاں ان کی سزاکو ردکر دیا گیا تھا۔

گپتا کے وکیل نے جمعہ کو کہا، ‘جب سزا ملتوی کر دی گئی ہے تو ایسے میں ان کی موکل سنچتابےقصور مانی جانے کی حقدار ہے۔ یہ پوری طرح سے ممکن  ہے کہ راجستھان ہائی کورٹ یا تو گواہوں کی دوبارہ جانچ کریں یا دوبارہ شنوائی کے آرڈر دے ۔ اس طرح کی حالت  میں موجودہ صورت  میں کتاب کی اشاعت  کو منظوری نہیں دی جا سکتی۔’

عدالت کو بتایا گیا کہ 11 اگست کو اس کتاب کے کچھ حصے اسکرال ویب سائٹ پر شائع  کیے گئے تھے۔ اس ویب سائٹ اور اس کے ایڈیٹران چیف کو بھی اس معاملے میں مدعاعلیہ بنایا گیا ہے۔سنچتا گپتا کی عرضی  میں کہا گیا کہ ویب سائٹ پر شائع  کتاب کے اقتباسات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سے مدعی  کی کردار کشی کی گئی ہے، جس سے ان کی عزت کم ہوئی۔

گپتا کی عرضی میں الزام  لگایا گیا کہ کتاب کامواد‘فرضی اورقابل مذمت’ہے اور معاملے میں مدعی اور ان کےشریک ملزم  کے نام پر ‘سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش’ ہے۔