خبریں

 اتراکھنڈ: صحافی پر سیڈیشن کا مقدمہ درج کر نے پر ہائی کورٹ نے اٹھائے سوال، سرکار سے مانگا جواب

صحافی نے ایک فیس بک پوسٹ میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ راوت پر الزام لگائے تھے۔ اس کے بعد سیڈیشن سمیت آئی پی سی کی مختلف دفعات میں مقدمہ درج کر کےانہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ(فوٹو پی ٹی آئی)

اتراکھنڈ ہائی کورٹ(فوٹو پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گزشتہ3 ستمبر کو سیڈیشن کے الزام میں گرفتار ایک صحافی کو عبوری  ضمانت دیتے ہوئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے سیڈیشن کا معاملہ درج کرنے کو لےکر ریاستی  سرکار سے ایک حلف نامہ داخل کرکے جواب دینے کو کہا ہے۔لائیولاء کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس روندر میتھانی کی بنچ  صحافی راجیش شرما کی عرضی  پرشنوائی کر رہی تھی، جن کے اوپر آئی پی سی کی دفعہ 420 (دھوکہ دھڑی)، 467 (سلامتی  کے نظریے سے اہم  دستاویز سے جعل سازی)، 468 (دھوکہ دھڑی کے مقصد سے فرضی واڑہ)اور 471 (کسی فرضی دستاویز یا الکٹرانک ریکارڈ کو اصل کے بطور پیش کرنا)، 120-بی(مجرمانہ سازش) اور 124-اے (سیڈیشن) کے تحت دہرادون کے نہرو کالونی پولیس اسٹیشن میں معاملہ درج کیا گیا تھا۔

دراصل، دہرادون کے رہنے والے ڈاکٹر ہریندر راوت نے 31 جولائی کو نہرو کالونی پولیس اسٹیشن میں صحافی راجیش شرما کے خلاف فرضی خبر کی وجہ سے ان کی اور ان کی بیوی  کی امیج  کوخراب  کرنے کی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔مبینہ  طور پر صحافی شرما نے ان کے خلاف ویڈیو ڈالا تھا۔ صحافی نے عدالت میں کہا کہ انہوں نے امیش شرما کے فیس بک پوسٹ سے اس ویڈیو یا مواد کو لیا تھا۔ حالانکہ، امیش شرما اس معاملے میں پہلے ہی عدالت سے تحفظ حاصل کر چکے ہیں۔

اس ویڈیو میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر ہریندر راوت کی بیوی  اور اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ راوت کی بیوی ، بہنیں ہیں۔ ویڈیو میں ریاست  کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی کچھ الزام لگائے گئے تھے۔

عرضی گزارصحافی کی جانب  سے یہ دلیل دی گئی کہ ان کا نام ایف آئی آر میں نہیں ہونے کے باوجود وہ 35 دنوں سے حراست میں ہیں۔ ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر ان کے خلاف پہلی نظر میں معاملہ نہیں بنتا ہے، جبکہ ایف آئی آر میں نامزد دوافراد میں سے ایک امیش شرما کو پہلے ہی عدالت سے تحفظ  حاصل  ہو چکی ہے۔

وہیں، ریاست  کی جانب سے یہ دلیل دی گئی کہ صحافی شرما سے حراست میں پوچھ تاچھ ضروری ہے۔ آگے یہ دلیل  دی گئی کہ یہ تیسری بار ہے، جب سرکار کو غیرمستحکم  کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔عدالت نے پایا کہ ایف آئی آر31 جولائی 2020 کو شام 4:20 بجے درج کی گئی تھی اور صحافی شرما کو اسی رات 11:00 بجے گرفتار کیا گیا تھا۔

گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے عدالت نے پوچھا، ‘کیا عرضی گزار کے خلاف ایف آئی آر میں کوئی غیرمعمولی  معاملہ ہے؟ کیا عرضی گزار کے خلاف جعل سازی کے بارے میں کوئی غیرمعمولی الزام ہیں؟ اور اگرہاں تو وہ کیا ہیں؟ کون سے دستاویز جعلی تھے؟ کون سے جعلی دستاویز اصل کےطور پر استعمال کئے گئے تھے؟’

عدالت نے آگے کہا، ‘پریشانی اس بات کو لےکر زیادہ  ہے کہ آئی پی سی کی دفعہ 124-اے (سیڈیشن)کو کیسے جوڑا گیا؟ بحث کے لیے اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ کسی اعلیٰ افسر کے خلاف کچھ الزام لگائے گئے لیکن کیا یہ سیڈیشن ہوگا، جوکہ آئی پی سی کی دفعہ 124-اے کے تحت قابل سزا ہے؟ ریاست اتنی جلدبازی میں کیوں تھا؟ کیا یہ ریاست کا ایک ظالمانہ  ہاتھ ہے، جو کام کر رہا ہے؟ اس ضمانت میں کئی سوالوں کے جواب کی ضرورت ہوگی۔’

اس لیے، عدالت نے ریاستی سرکار کو دوہفتے کے اندر ایک جوابی حلف نامہ دائر کرنے کے لیے کہا۔

عدالت نے ایک مخبرکی جانب سےصحافی راجیش شرما کے خلاف درخواست دیے جانے اور اس درخواست کی جانچ رپورٹ جمع کرنے سے متعلق کئی سوال پوچھتے ہوئے ریاستی  سرکار کو 18 ستمبر کو ہونے والی اگلی شنوائی تک جواب داخل کرنے کے لیے کہا۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے عرضی گزارکی ضمانت عرضی پرشنوائی پوری ہونے تک 10 ہزار روپے کے نجی مچلکے پر عبوری  ضمانت دے دی۔