فکر و نظر

کورونا کے دور میں گھروں کے اندر رہنے کی ہدایتوں کے بیچ 48 ہزار گھروں کو توڑنے کا حکم

گزشتہ31 اگست کو سپریم کورٹ نے دہلی میں ریلوے ٹریک کے کنارے بسی 48 ہزار جھگیوں کو تین مہینے کے اندر ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کی  اس ہدایت میں کئی ضروری پہلوؤں پر ٹھیک سےتوجہ  نہیں دی گئی ہے، لیکن ان میں سب سے اہم رہائشی حقوق کو نظرانداز کرنا ہے۔

دہلی کے آزاد پور ریلوے اسٹیشن کے پاس بسی ایک بستی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

دہلی کے آزاد پور ریلوے اسٹیشن کے پاس بسی ایک بستی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سال2015، شکوربستی، ریلوے کی زمین اوراجاڑنے کی کارروائی ۔ 2016 میں عدالت میں معاملہ۔ 3 سال کا اسٹےا ور پھر ایک تاریخی فیصلہ۔

سال2017، پل مٹھائی، ریلوے کی زمین،اجاڑنے کی کارروائی۔ 2017 میں معاملہ عدالت میں، اب تک اسٹے۔

سال2019،صفدرجنگ بستی، ریلوے کی زمین،اجاڑنے کی کارروائی۔ معاملہ عدالت میں، اب تک اسٹے۔

ایسے ہی مانسروور پارک، بھیم نگر، ناگ لوئی ، مدراسی کیمپ، مایاپوری بی بلاک و دیگرکئی بستیاں، ریلوے کی زمین۔ اور اسٹے۔ا سٹے آرڈر کا مطلب التواکا حکم یا کہیں جو صورتحال ہےوہ بنی رہے۔التوا کے ان احکامات کی وجہ  کیا تھی؟ وجہ  تھی ان سب معاملوں میں ریلوے کے پاس عدالت میں کیے گئےسوالات کا جواب نہ ہونا۔

یہ سوال کہ متبادل  نظام کیا ہے؟ بحالی(بازآبادکاری) کہاں ہے؟ نوٹس ناقص کیوں ہے؟ کارروائی مکمل طورپرکیوں نہیں کی گئی؟ ان سب سوالوں کاجواب نہ ہونے کی وجہ سےریلوے نے کبھی اپنے جواب عدالت میں   دائر ہی نہیں کیے۔یہ بستیاں اپنے حقوق اپنی رہائش کے لیے ریلوے سے سوال کرتی ہوئیں،آئینی دائرے میں رہ کر اپنی لڑائی خود لڑ رہی تھیں۔

پھر ان سب فیصلوں کو الٹتے ہوئے، ان سب سوالوں  کو درکنار کرتے ہوئے، ان سب کے جدوجہد کو ختم کرتے ہوئےاور ان سب مطالبات پر بغیرغور کیے ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے ریل کنارے بسےتمام  گھروں کو توڑنے کاحکم دیا گیاہے۔

کئی قیاس لگائے جا سکتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا، ہو سکتا ہے یہ زمین کسی کمپنی کو بیچ دی جائے یا پھر کسی کارڈر کے لیے مقرر کر دی جائے، لیکن سب سےاہم یہ ہے کہ 48000 گھروں کے باشندوں  کا بےگھر ہونا طے ہے۔

اس حکم سے پڑنے والے اثر نہیں بلکہ اثرات  کی ایک فہرست ہے، ایک ایسی فہرست  ہے جو لامتناہی ہے۔سب سے پہلا کہ 48000 گھر توڑے جا ئیں گے، جس سے 48000 خاندان  ایک ساتھ بےگھر ہو جا ئیں گے، ان کی حفاظت، عزت، وقار، بچوں کی تعلیم ،صحت، گھر کے بڑوں کا روزگار، سالوں  کا سرمایہ،زندگی  کاحق اور دیگر حقوق۔

ان سب اثرات کو درج  کر پانا مشکل ہے اور اتنا ہی مشکل ہے اس کے اثرات  پر کام کر پانا۔ یہ سب کچھ تب ہو رہا ہے جب اپنے کئی احکامات میں عدالت رہائش کوحق  بتا چکا ہے۔کئی سرکاروں نے رہائشی تحفظ اوربازآبادکاری کے لیے قانون لائے ہیں،(حالانکہ یہ قانون بستیوں کو ہٹانے کے مقصد سے لائے گئے ہیں)اور رہائشی منصوبوں میں واضح طور پربازآبادکاری(In-situ redevelopment)کی ہدایات  دی گئی ہیں۔

یہ سب اتنا ہونے کے بعد ہو رہا ہے اور ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے لوگوں کے گھروں کو توڑنےکاحکم دے دیا گیا ہے۔یہ سب کچھ تب جب ملک میں ایپیڈیمک ایکٹ،نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون نافذہیں۔ گھر سے باہر کام ہونے پر ہی نکلنے کی صلاح دی جا رہی ہے اور عدالت گھر توڑنے کے حکم دے رہی ہے۔

ایسے میں جب لوگ آج بھی باہر نکلنے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے سے پولیس کو جرمانہ  بھر رہے ہوں ، لاٹھی کھا رہے ہوں، اس وقت کتنا مناسب ہے لوگوں کے گھر توڑنا؟عدالت نے اب سے تین مہینے کاوقت دیا ہے یعنی کچھ اہم  تہواروں کا وقت۔ اس وقت لوگ اپنے تہوار منائیں یا اپنے گھر بچائیں؟

یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ تہوار ان آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے روزگار کاقیمتی وقت ہوتا ہے اور سب سے بڑا ڈر تین مہینے بعد دہلی میں سردی آ چکی ہوگی۔

جس ٹھنڈ میں شیلٹر کو ایک حق قرار دینے والی عدالت سرکار سے قانون لانے کو کہتی ہے، اسی سردی  میں اسی عدالت کے ایک فیصلے کی وجہ سے لوگ بےگھر ہونے کومجبورکر دیےجائیں گے۔

کیا ہے آرڈر

تاریخ31 اگست 2020۔ سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ(جسٹس ارون مشرا، جسٹس کرشن مراری و جسٹس بی آر گوئی )نے 35 سال پرانی پی آئی ایل ایم سی مہتہ بنام انڈین یونین و دیگرکے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے دہلی کے 70 کیلو میٹر لمبی ریل پٹری کے کنارے رہ رہے لگ بھگ 50000 گھروں کو توڑنے کے حکم دیا۔

اس میں تین اہم  باتیں ہیں ایک، ماحولیاتی آلودگی  روک تھام اورکنٹرول اتھارٹی(ای پی سی اے)کی، ریلوے کی او رعدالت کی۔ای پی سی اے نے کہا کہ ریلوے اپنی پٹریوں کے آس پاس بہت گندگی کرتا ہےا ور اور ٹھوس کچرے سے متعلق انتظامات  سے قاصر ہے۔

ریلوے نے کہا وہ صاف-صفائی اور کچرا کےانتظامات کے لیے کوشش کر رہاہے، لیکن ریل پٹریوں کے کنارے بسی بستیوں کی وجہ سے بہت گندگی پھیلتی ہے۔عدالت نے اس پر غور کرتے ہوئے کہا کہ ان سب بستیوں کو وہاں سے ہٹایا جائے۔بنیادی طورپر ریلوے کے سیفٹی زون(15 میٹر کے سیفٹی زون)میں آنے والے تمام گھروں (انہوں نے جھگی کہا)کو تین مہینے کے اندر مرحلے وار طریقے سے ہٹا دیا جائے۔

اس میں دو اوراہم باتیں کہی گئیں۔ ایک کہ کوئی بھی عدالت متعلقہ  بستیوں کو اسٹے آرڈر نہیں دےگی اور دوسرا یہ کہ اس حکم سے پہلےکے سب اسٹے والے عبوری حکم مؤثر نہیں مانے جائیں گے۔اس میں ایک اورحکم کا بھی ذکر کیا گیا، جو نیشنل گرین ٹریبونل نے اکتوبر 2018 میں دیا تھا، جس میں ریلوے کو ایک اسپیشل ٹاسک فورس بنانے کا حکم تھا۔

اس ٹاسک فورس نے گزشتہ سالوں میں 10 کے قریب بستیوں کو توڑا ہےاور ان معاملوں میں جوابات کے فقدان میں ا سٹے آرڈر ملا ہے۔

آرڈر کس کے بارے میں ہے

یہ حکم واضح طورپر دہلی کے حدود کے اندر 140 کیلومیٹر لمبی  ریل شاہراہ کے کنارے بسے گھروں کے بارے میں ہے۔اس میں تین لفظ اہم ہیں دہلی، ریل شاہراہ و ریل کی زمین۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم سے دہلی کے باہر، ریلوے کے علاوہ کسی بھی طرح کی بستیوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

یہ اہم ہے۔ یہ حکم ایسے معاملے میں سنایا گیا ہے جس میں بستی کے لوگ کبھی پارٹی ہی نہیں تھے، پھر انہیں شنوائی کا موقع کیوں نہیں دیا گیا، یہ سوچنے والی بات ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم  سوال ہے کہ ایک ایسے معاملے میں جس میں ماحولیاتی تحفظ، آلودگی کنٹرول ا ورآلودگی کے اسباب پر چرچہ کی گئی، اس میں ایسی کوئی بھی مشاہداتی  رپورٹ پیش کی گئی، جس میں یہ ثابت ہو سکے کہ ریل کنارے رہ رہے لوگ ماحولیاتی آلودگی کی ایک وجہ ہیں۔

ویسے توبنی نوع ہی اس پریشانی کی ایک وجہ  ہے، تو اس کے لیے کیا حکم دیا جائے؟ایسا ہی ایک حکم پٹنہ ہائی کورٹ نے جولائی2018 میں دیا تھا جب پٹنہ میں واقع‘آر بلاک سے دیگہہ’ ریلوے لائن کے دونوں طرف بسی ہوئی بستیوں کو توڑنے کے حکم دیے۔اور تو اور گھروں کو ہٹانے کے لیے‘آئرن فسٹ’لفظ کا استعمال کیا یعنی جتنا زور لگایا جا سکے، جتنی سختی سے گھروں کو توڑا جا سکے۔

اس کا نتیجہ یہ رہا کہ قریب 700 گھروں کوایک ہفتے میں توڑ دیا گیا، لوگوں کی کوئی بازآبادکاری  نہیں ہوئی۔ اس سے راحت کے لیے ایک عرضی  بھی دائر کی گئی لیکن  اس کو رد کر دیا گیا۔وہ حکم پٹنہ کی ایک بستی کے لیے تھا لیکن اس حکم کی آڑ میں پٹنہ میونسپل او رکلکٹر نے کئی بستیوں کو توڑا یعنی ہدایت  کا واضح طور پر غلط استعمال۔

موجودہ ہدایت کا قانونی پہلو

ہماری عدالتوں کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ‘ایڈورسیریل’یعنی متضاد مزاج کی ہوتی ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ عدالت میں ہر پہلو کو رکھنے کا کام اس معاملے میں شامل سب پارٹیوں کا ہوتا ہے۔

ایسے میں یہ کام ریلوے کا تھا کہ ان کے نارتھ ریلوے کے اے ڈی ایم کی جانب سے دائر کیے گئے حلف نامے میں یہ بات لکھی جانی چاہیے تھی کہ دہلی میں کسی بھی بستی کو ہٹانےسے پہلے‘دہلی سلم اور جے جے بستی بازآبادکاری وبحالی کی پالیسی2015’ کے تحت طے ضابطوں  کومکمل کرناضروری ہے۔

اس پالیسی کی دفعہ2(a) (iv) و (v) میں واضح طور پر بےدخلی سے پہلے بازآبادکاری کی بات کی گئی ہے۔ اس بات کو دہلی ہائی کورٹ نے 18 مارچ 2019 کو اجے ماکن بنام نارتھ ریلوے کے معاملے میں دیےگئے حکم میں صاف طور پر ان پروسس کرکے لکھا ہے۔

ساتھ ہی یہ صاف کہا تھا کہ اس پالیسی  کے تحت ریلوے کی زمین پر بسی بستیاں بھی شامل ہیں۔

اس کے باوجود ریلوے نے یہ بات سپریم کورٹ میں نہیں رکھی۔ یہ صاف ہے کہ ریلوے کی کسی بھی طرح کی کارروائی  میں پھنسنے کی کوشش نہیں ہے۔حکم آنے کے دو دن بعد سے ہی وہ بستیوں میں کارروائی کے لیےتیار ہو گئے ہیں۔ دہلی کی کئی بستیوں میں نوٹس لگا دیے گئے ہیں، تصاویر لی جا رہی ہیں اور پولیس سے چرچہ شروع ہو گئی ہے۔

مبینہ طور پر ریلوے کے حکام نے دہلی کی رہائش اورشیلٹر کے معاملوں کو دیکھنے والی ایجنسی ڈی یوایس آئی بی پر ان بستیوں کو 14 دن کے اندر بازآبادکاری  کا دباؤ بنایا ہے، جو عملی طور پرناممکن ہے۔ایسے میں ریلوے کو یہ کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ من مانے ڈھنگ سے بستیوں کو توڑے، لوگوں کو بےگھر کرے اورمتبادل کے فقدان  میں لوگ اسٹے یا بازآبادکاری  کے لیے عدالت بھی نہ جا پائیں۔

قانونی طور پر ریلوے قانون، 1989 میں کسی بازآبادی  کا ذکر نہیں ہے، دفعہ 147 میں کسی بھی طرح کے تجاوزات کو ہٹانے کی کارروائی  اوررہائش پر جرمانہ  لگانے کی تفصیلات ضرور ہیں۔

لیکن ریلوے کئی بار الگ الگ طریقے سے یہ قبول کر چکا ہے کہ ریلوے کی اپنی کوئی بازآبادکاری کی پالیسی  نہیں ہے اوریہ  ایک ریاستی حکومت  کا معاملہ  ہونے کی وجہ سے وہ یہ کام ریاستی سرکار اور ان کے قوانین پر ہی چھوڑتا ہے۔ یہاں یہ اہم ہے کہ ریلوے دہلی سرکار کے قانون کو مانے۔

ایک اورپہلو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے ریلوے کی زمین پر کبھی کوئی بازآبادکاری  ہوئی ہی نہیں ہے۔ناگپور میں ریلوے کی زمین پر بسی بستی کو ‘آواس یوجنا’ کے تحت  بحال کیا گیا تھا۔ بنگلورو کے قریب ریلوے کی زمین پر بسی قریب 20 بستیوں کوبحال  کرکے رہائشی حق  دیا گیا ہے۔

ممبئی اربن ٹرانسپورٹ پروجیکٹ اورممبئی ریل وکاس نگم کے تحت کئی منصوبوں میں ممبئی میں ریلوے کی زمین پر بسی بستیوں کو بحال کیا گیا ہے۔گویایہ ناممکن  نہیں ہے کہ ریلوے کی زمین پر بسی بستیوں کی بحالی  نہ ہو سکے۔ یہ ممکن  ہے، عملی ہے اور سب سے اہم  ہے یہ قانونی  طور پرمطلوب ہے۔

اس فیصلے سے پڑنے والے اثرات

قابل غور ہے کہ 48000 گھر کوئی تعدادیامقدار نہیں ہیں،یہ تعداد اس سے بھی زیادہ  ہے۔ بقول ڈی یوایس آئی بی کی سلم فہرست، دہلی میں قریب 76 بستیاں ریلوے کی زمین پر ہیں یعنی قریب 12فیصد بستیاں اور 50 ہزار سے بھی زیادہ فیملی۔ کل فیملی کے 20 فیصد سے بھی زیادہ۔

کیا دہلی کی بستیوں میں رہنے والے خاندانوں کا 20 فیصدیوں ہی اجاڑ دیا جائےگا؟ کیا یہ سوال ریلوے، دہلی سرکار و تین ججوں کی بنچ کےدل میں نہیں آیا؟

ریلوے کےدل  میں ایسی بات کا نہ آنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ الگ الگ طریقوں  سے پوچھے گئے سوالات کے جواب  میں ریلوے نے صاف کہا ہے کہ ریلوے کی زمین پر بسی بستیاں تجاوزات ہیں، بستیوں کی بحالی  ریاستی  حکومت کےماتحت  آتی ہے و ریلوے کی اپنی کوئی بحالی پالیسی  نہیں ہے۔

ریلوے کی لامحدودزمینی رقبہ  کے ایک فیصد سے بھی کم زمین پر بستیاں بسی ہوئی ہیں۔ شہروں میں وہ گھنی دکھتی ہیں۔لیکن دہلی سرکار کا کیا، جس نے دہلی سلم اینڈ جے جے کالونی بازآبادکاری اور بحالی کی پالیسی پاس کی! پچھلے ہی سال ‘مکھیہ منتری آواس یوجنا’ کے تحت قریب 200 بستیوں کا سروے کیا، جن میں ریلوے کی زمین پر بسی بستیاں بھی شامل تھیں۔

ان کی ہی ایجنسی ڈی یوایس آئی بی نے عدالت کو یہ یاد کیوں نہیں دلایا؟

دہلی کے سرائے روہیلا ریلوے اسٹیشن کے پاس بسی ایک بستی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

دہلی کے سرائے روہیلا ریلوے اسٹیشن کے پاس بسی ایک بستی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اتنا ہی اہم ہے یہ سوال عدالت  کی اس بنچ سے بھی پوچھنا کہ 1985 میں اولگا ٹیلس بنام بامبے میونسپل ودیگر کے معاملے میں پانچ ججوں کی بنچ نے رہائشی حقوق  کو بنیادی حق کے برابربتایا تھاا ور نوٹس جاری کرنے اوربحالی پر زور دیا تھا۔کیا 35 سالوں  کے بعد بھی وہ حکم ابھی تک عدالتوں میں چل رہی شنوائی میں ایک اصول کے طورپر نہیں آ پایا ہے؟

دو اہم سوال ہیں -ایک کہ کیا تین مہینوں میں 48000 گھر توڑنا ممکن ہے؟ عملی طور پر نہیں۔دوسرا کیا تین مہینے میں 48000 خاندانوں کی بازآبادکاری ممکن  ہے؟ قطعی نہیں۔پھر کیا ہوگا؟ ان تین مہینوں میں ہم کہیں بیچ میں اٹک جائیں گے۔ بےدخلی اوربحالی  کے بیچ کہیں، پھر بازآبادکاری کی کارروائی میں جس طرح کااستحصال  ہوتا ہے وہ سب کو پتہ ہے۔

اہلیت نااہلیت، کٹ آف، راشن کارڈ اور نہ جانے کیا کیا۔ یہ سب ایک طے شدہ وقت لیتا ہے گویاوقت  کے ساتھ بحالی  کاانتظام  مناسب ہے۔ سرکار کے لیے بھی، لوگوں کے لیے بھی اور ان کے رہائشی حقوق کے لیے بھی۔رہائش کیا ہے؟ کس کے پاس کس طرح کی رہائش ہونی چاہیے؟ متوسط اوراعلیٰ طبقات کے لیے سائز ، رقبہ ، قیمت سب معنی رکھتا ہے۔

ان کی صفائی  کی اپنی تعریف بھی ہے۔ ان کے لیے ان کا گھر اچھا اور بستی والے گندے، میلے،آلودہ۔ کون طے کرتا ہے یہ؟ایک گھر کیسا ہونا چاہیے؟ اس میں کیا کیا ہونا چاہیے؟ کم از کم  کیا؟ زیادہ سے زیادہ  کیا؟کم ازکم کے ساتھ اور کیا کیا؟ زیادہ سے زیادہ کو طے کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ لیکن کم ازکم کو تو طے کیا جا سکتا ہے۔

یہ کم ازکم  کیا ہے؟ یہ ہے ان رہائش کے وجود کی عزت۔ جن کی کمی سب سے زیادہ  دیکھی جاتی ہے۔ گھروں کا توڑنا یہی تو ہے، ملکیت کے تحفظ کی کمی کی وجہ سے گھروں کو توڑنا۔پھر ان کی بحالی، لیکن اس میں بھی گھروں کی ملکیت  نہیں سونپنا۔ سہولیات  کی کمی اور سب سے بڑا حملہ ثقافتی سلوک پر۔

کیوں؟ کیونکہ بستیاں ننگی آنکھوں سے ہمیں چبھتی ہیں۔ رہائش کی سمجھ سے زیادہ  ضروری  ہے رہائش کے وجود کا احترام۔رہائش صرف چار دیواروں سے مل کر بنی بناوٹ  کا نام نہیں ہے بلکہ رہائش ایک عمل ہے جو ہمیشہ جاری  رہتا ہے۔اس حکم کی وجہ سےسالوں  کے عمل کو روکنےکی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے رکنے سے آس پاس جاری ایسے ہی عمل کے رکنے کا خطرہ  بڑھ جائےگا، دہلی میں، دہلی کے باہر۔

اس لیےاس کے خلاف کھڑا ہوناضروری  ہے، عدالت کا پورے طو رپر احترام  ہے لیکن اس کی اس  سے کچھ سوال بھی ہیں۔

(مضمون نگار سماجی کارکن ہیں اور رہائشی حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔)