خبریں

پرشانت بھوشن نے 1 روپے کا جرمانہ بھرا، کہا -اس کا مطلب یہ نہیں کہ فیصلہ قبول کر لیا

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کو عدلیہ اور ججوں کو لےکر اپنے دو ٹوئٹ کی وجہ سے توہین عدالت کا قصوروارٹھہرایا گیا تھا اور ایک روپے جرما نے کی سزا دی گئی تھی۔

پرشانت بھوشن۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

پرشانت بھوشن۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

نئی دہلی: دو ٹوئٹ کی وجہ سے توہین عدالت کے قصوروار ٹھہرائے گئے وکیل پرشانت بھوشن نے سوموار کو سپریم کورٹ رجسٹری میں ایک روپے کا جرمانہ بھر دیا۔اس کے ساتھ ہی بھوشن نے یہ بھی صاف کیا کہ جرمانہ بھرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلےکو قبول کر لیا ہے اور وہ آج ہی فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کریں گے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کو عدلیہ اور ججوں کو لےکر اپنے دو ٹوئٹ کی وجہ سے توہین عدالت کاقصوروارٹھہرایا گیا تھا اور گزشتہ31 اگست کو ایک روپے جرما نے کی سزا دی گئی تھی۔لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، پرشانت بھوشن نے جرمانہ بھرنے سے پہلے میڈیا کو مخاطب کیا اور کہا کہ جرمانہ بھرنے کے لیے انہیں ملک بھر سے چندےملے ہیں، جس کی مدد سے ایک فنڈبنایا جائےگا۔

انہوں نے کہا کہ اس پیسے کا استعمال ان لوگوں کو قانونی مدد دلانے میں کیا جائےگا جوآواز اٹھانے یا احتجاج درج کرانے کی وجہ سے سرکاروں کے ذریعے جیل میں ڈال دیےگئے ہیں۔بھوشن نے آگے کہا، ‘مزاحمت  کی آواز کو دبانے کے لیےسرکار ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔’ بھوشن نے گزشتہ اتوار کو دہلی پولیس کے ذریعےگرفتار کیے گئے جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالدکی گرفتاری پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

پرشانت بھوشن نے گزشتہ سنیچر کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کےہتک کے معاملے میں جرم ثابت ہونے کے خلاف اپیل کا حق فراہم کرنے کی گزارش کی ہے۔معلوم ہو کہ سپریم کورٹ نے پچھلے مہینے 31 اگست کو دیے اپنے آرڈر میں توہین عدالت کی کی وجہ سے پرشانت بھوشن کو ایک روپے کا جرمانہ بھرنے کی سزا دی تھی۔

جسٹس ارون مشرا، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے بھوشن کو ہدایت  دی کہ وہ15 ستمبر تک جرمانہ جمع کریں۔ ایسا نہ کر نے پر انہیں تین مہینے کی جیل ہوگی اور تین سال تک وکالت کرنے سے روک دیا جائےگا۔بھوشن کو سزا سناتے ہوئے جسٹس ارون مشرا نے کہا تھا، ججوں کی جانب سے میڈیا کو دیا گیا بیان سزا سنانے پر غورکرنے لائق نہیں تھا کیونکہ ججوں کو میڈیا میں نہیں جانا چاہیے تھا۔’

بتا دیں کہ جولائی مہینے کے آخری ہفتے میں جسٹس ارون مشرا کی قیادت  والی بنچ نے جون مہینے میں بھوشن کے ذریعے کیے ٹوئٹ پر ازخود نوٹس لیا تھا اور ان کے دو ٹوئٹس، جن میں سے ایک میں انہوں نے ملک کے چیف جسٹس پر تبصرہ  کیا تھا، کے لیے ہتک  کا نوٹس جاری کیا تھا۔

بھوشن نے اس کے جواب میں دیے حلف نامے میں کہا تھا کہ سی جےآئی کو سپریم کورٹ مان لینا اور کورٹ کو سی جےآئی مان لینا ہندوستان  کی سپریم کورٹ  کو کمزور کرنا ہے۔اس کے بعد 14 اگست کو بنچ نےانہیں توہین  عدالت کا قصوروار ٹھہرایا تھا اور 20 اگست کو سزا سنانے پر بحث سنی تھی۔ اس کے بعد بھوشن کا جواب ملنے پر 25 اگست کو بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔

اس دوران بنچ اس بات پر زور دیتی رہی کہ اگر بھوشن غلطی مان لیتے ہیں یا انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، تو کورٹ انہیں معاف کرنے کی بارے میں سوچ سکتی ہے۔حالانکہ بھوشن نے معافی مانگنے سے صاف طور پر انکار کر دیا تھا۔ 25 تاریخ کی شنوائی کے دوران بھی بھوشن اس بات پر قائم رہے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور کورٹ جو سزا دےگی اس کو وہ  قبول  کریں گے۔

وہیں، کورٹ نے اس بات کو لےکر افسوس کا اظہارکیا تھا کہ بھوشن معافی نہیں مانگ رہے ہیں، معافی مانگنے میں کیا دقت ہے۔ جسٹس مشرا نے کہا تھا، ‘معافی لفظ میں کیا غلط ہے؟ معافی مانگنے میں کیا غلط ہے؟ کیا ایسا کرنے سے آپ قصوروار ہو جائیں گے؟

غورطلب ہے کہ اس سے پہلے 20 اگست کو توہین عدالت کے معاملے میں سزا طے کرنے کو لےکر ہوئی بحث کے دوران بھوشن نے اپنا بیان پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ سے کہا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور نہ ہی ان کے لیے کسی بھی طرح کی رحمدلی  کی اپیل کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورٹ جو بھی سزا انہیں دےگی، وہ انہیں قبول ہوگی۔ حالانکہ کورٹ نے اس پر کہا تھا کہ جب تک بھوشن اپنا بیان نہیں بدلتے ہیں، تب تک کورٹ انہیں سزا دینے سے انکار نہیں کر سکتی ہے۔اس کے بعد سپریم کورٹ کی بنچ نے پرشانت بھوشن کو ان کے بیان پر غور  کرنے کے لیے 24 اگست تک کا وقت دیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 24 اگست کو بھوشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر وہ اپنے ان بیانات، جو ان کے خیال میں صحیح ہیں، کو واپس لیں گے یا معافی مانگیں گے، تو یہ ان کےضمیر کو گوارہ نہیں ہوگا۔معلوم ہو کہ پرشانت بھوشن کے خلاف ایک اور توہین عدالت کا معاملہ چل رہا ہے، جس میں یہ الزام  لگایا گیا ہے کہ بھوشن نے سال 2009 میں تہلکہ میگزین  کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پچھلے 16 چیف جسٹس میں سے کم سے کم آدھے بدعنوان  تھے۔