فکر و نظر

ایس اے بریلوی: بے باک صحافی اور سیکولر وطن پرست جس نے انگریزوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا

ان کا اخبار دی بامبے کرانیکل جدو جہدآزادی کا زبردست حامی تھا؛ جس کا  خمیازہ بھی اس کوبھگتنا پڑا۔

وجے لکشمی پنڈت، ایس اے بریلوی اور سپلا کے بانی کے حمید، فوٹو: بریلوی فیملی

وجے لکشمی پنڈت، ایس اے بریلوی اور سپلا کے بانی کے حمید، فوٹو: بریلوی فیملی

ہندوستان میں پریس نے ہندوستان کی جد و جہد آزادی میں  ایک شاندار رول ادا کیا ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ اس جدو جہد کی تاریخ در اصل پریس کی جدو جہد کی تاریخ بھی ہےجو اپنے اوپر ایک اجنبی حکومت کی جانب سےعائد پابندیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے تگ ودو کررہا تھا– ایس اے بریلوی

ہندوستان کی جد و جہد آزادی کے دوران، بہت سارے ایسے  وطن پرست صحافی ہوئے جنہوں نے بے خوف ہو کر برطانوی حکومت کے خلاف اپنے قلم کا زورآزما یا ۔ جس کی قیمت بھی ان کوچکانی پڑی۔

 ان صحافیوں میں گھوش برادارن، سیسیر اور موتی لال(جنہوں نے کلکتہ میں امرتسر بازار پتریکا شروع کیا تھا)، جی سبرا منیم ایئر(جنہوں نے مدراس میں دی ہندو اور سودیس  مترن شروع کیا تھا)،اور لوک مانیہ تلک (جو پونے میں کیسری نکالتے تھے)کے نام ذہن میں آتے ہیں ۔ ان سب نے حکومت کے خلاف سخت اداریے لکھے۔نتیجتاً یہ سیڈیشن کے مجرم ٹھہرائے گئے۔

تاہم ایک ایسا بھی نام ہے، جس کو بالکل فراموش کردیا گیا ہے۔ سید عبد ا للہ بریلوی، جن کی نگرانی میں ‘دی بامبے کرانیکل نہ صرف خوب پھلا پھولا، بلکہ یہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت کے لئے جانا جانے لگا۔ بامبے کرانیکل اپنے نیشنلسٹ کردار کی وجہ سے شہرت بٹورنے میں خاصا کامیاب ہوا تھا۔

بریلوی بھی دو بار جیل گئے۔اس کے باوجود وہ بدستور برطانوی حکومت کی آنکھوں کی کڑ کڑی بنے رہے—اور کبھی کبھی کانگریس کے چند لیڈران کی نظروں میں بھی، جن میں محمد علی جناح بھی شامل تھے۔

بریلوی بامبے میں 18 ستمبر، 1891 کو پیداہوئے۔  ان کا خاندان بریلی سے ہجرت کر کے بامبےآیا تھا۔ قانون کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد، بریلوی 1915(مارچ) میں بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر اخبار میں کام کرنے لگے۔ اس وقت اخبار مالی تنگی کا شکار تھا۔آئندہ  چند سالوں میں بھی کئی دفعہ اسی صورت حال سے اخبار کو جوجھنا پڑا۔

لیکن  اس کی ایک لائل ریڈرشپ تھی۔اس وقت کی سرکار نواز میڈیا کے مقابلے کے لیےبامبے کرانیکل جیسے اخبار کی اشدضرورت بھی تھی، جو سچ لکھنے کی ہمت رکھتا تھا۔ بریلوی اور ان کے دیگر ساتھیوں  نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالا، اور اپنا کام کرتے رہے۔

دی کرانیکل کااجرا،  معزز شہریوں نے  1910 میں بامبے میں کیا تھا، جس کے سربراہ فیروز شاہ مہتہ (جو کبھی کانگریس کے صدر رہ چکے تھے)تھے۔ انگریزی کے اس اخبار کو ٹائمس آف انڈیا کے مقابلے میں پیش کیا گیا، جو اس وقت ‘اینگلو انڈین’پریس کا حصہ سمجھا جا تا تھا۔ اس کی قیمت ایک آنہ تھی، جو ٹائمس کی قیمت کا ایک چوتھائی تھا۔

مہتہ نے بی جی ہار نی مین (جو اس وقت دی اسٹیٹس مین کلکتہ میں کام کر رہے تھے) کی خدمات  اپنے اخبار کے لیے حاصل کیں۔ برطانوی حکومت کے خلاف  اور  قوم پرستوں (نیشنلسٹ)کی حمایت میں لکھنے کی وجہ سے وہ جلدی ہی  برطانوی حکام کی نظروں میں کھٹکنے لگے تھے۔ 1919 میں جلیاں  والا قتل عام کےحوالے سے  بامبے کرانیکل میں چھپی رپورٹ کے سبب انہیں  بستر علالت سے گھسیٹ کر برطانیہ جلا وطن کر دیا گیا۔

گورنر جارج لائیڈ نے کئی مرتبہ اخبار کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی ، حتیٰ کہ اس نے ایک ایسے ضابطہ کا اعلان بھی کر دیا، جس کے تحت اسے(اخبار کو) کسی بھی خبریا اسٹوری کو شا ئع کرنے سے پہلے اس  (گورنر)کے پاس پیش (منظوری کے لئے)کرنا ضروری قرار  دیا گیا۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دی کرانیکل نے اس حکم نامہ کو قبول کرنے سے سرے سے انکار کردیا، اور اخبار نے اپنی اشاعت کو تب تک ملتوی رکھا جب تک کہ اس حکم نامہ کو واپس نہ لے لیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ ایک ہفتہ کے بعد اس  نئے ضابطے کو واپس لے لیا گیا تھا۔

ایس اے بریلوی

ایس اے بریلوی

ہارنی مین کے بعد، محمد مارماڈیوک پکتھال نے اخبار کی ادارت سنبھالی۔ وہ مغربی عالم دین اور اسکالرتھے۔ انہیں قرآن کے ترجمے کےلیے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کو خلافت کے حامی کے طور پربھی جانا جاتا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنا  موقف واضح کر دیا تھا۔ اور یہی بات بورڈ  کے ممبران کو ناگوار گزری، جن میں خاص طور پر وہ لوگ تھے جو قدامت پسند تھے اور  گاندھی جی کو پسند نہیں کرتے تھے، جبکہ کرانیکل  اخبارگاندھی جی کا حامی تھا۔

اس زمانے میں، بامبے سیاست کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ 1914 میں گاندھی جی جنوبی افریقہ سے یہیں آئےتھے، جہاں انہیں بھرپور حمایت  ملی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ  بہت جلدی انہوں نے نیشنلسٹ موومنٹ میں جوش بھردیا ۔ ٹیکسٹائل ورکرز سیاست میں خوب سرگرم ہو گئے تھے۔ جب تلک کو قید کر لیا گیا ، تو سارے ٹیکسٹائل ورکروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ اس وقت تک دی کرانیکل  اس تحریک کے ترجمان کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ ہر کوئی اسے  اپنے قابو میں کرنا چاہتا تھا۔

سن 1924 میں محمد نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد، ایس اے بریلوی کو اخبار کی ادارت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت تک بریلوی کو کرانیکل میں کام کرتے ہوے  کئی سا ل ہو گئے تھے۔  یہاں تک کہ وہ کئی مواقع پر  مدیر کی حیثیت سے بھی کام کر چکے تھے۔ وہ بھی گاندھی جی کے حامی اور  مسلم لیگ بشمول  آئیڈیا آف پاکستان کے سخت  مخالف تھے۔

محمد علی جنا ح سے ان کی دوستی (گہری) تب ختم ہو گئی جب 28 ستمبر 1925 کو انہوں نے—’گاندھی جناح بات چیت ‘کے ناکامیاب ہونے کے بعد—ایک سخت اداریہ لکھا؛

جناح کا رویہ ایک اسٹیٹ مین والا با لکل بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ایک وکیل کا سا برتاؤ کیا—ایک ایسا وکیل جو محض اپنے درخواست میں درج متن کی بنیاد پر  اپنے موقف کو دہراتا رہتا ہے۔

سال 1975 میں   دیے گئےاپنے ایک میموریل لیکچر میں، جی این آچاریہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جناح نے بریلوی کو کبھی معاف نہیں کیا۔ آچاریہ نے دی کرانیکل میں کام کیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں اور لوگ جو کرانیکل میں کام کرتے تھے، ان میں نمایاں نام کےاےعباس (خواجہ احمد عباس)کا بھی ہے، جو فلم کریٹک تھے۔

بریلوی نے جب ادارت سنبھالی، تب اخبار کے بورڈ اور کانگریس کے  اندر کشیدگی بنی ہوئی تھی۔سوراجسٹ جو کاؤنسل جوائن کر نا چاہتے تھے  ان کا یہ ماننا تھا  کہ سسٹم کا حصہ بن کر لڑائی لڑی جائے۔ ان میں موتی لال نہرو  اور ایم آر جئے کار وغیرہ شامل تھے۔ ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ اخبار نے انہیں تنقید کا نشانہ بنا یا ہوا ہےاور یہ گاندھی کے عدم تعاون تحریک کی حمایت کرتا ہے۔ وہ چاہتے تھے اخبار ان کی حمایت میں لکھے۔

اسی درمیان، اخبار کی حالت خراب ہونے لگی۔ نہرو نے بامبے کے کاروباریوں سے چندہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کامیابی ہاتھ نہیں آئی۔  اکیڈمک ملٹن اسرائیل  نے اپنی کتاب ‘کمیونی کیشن اینڈ پاور—پروپیگنڈہ اینڈ دی پریس ان دی انڈین نیشنلسٹ اسٹرگل’ میں بامبے کانگریس کے اندر کے پاور اسٹرگل پر تفصیل سے خامہ فرسائی کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کس طرح مختلف گروپوں نے اپنے اپنے طور پر کرانیکل کو اپنے قابو میں کرنے کی سعی کی۔

 دی بامبے کرانیکل،وکی پیڈیا امیج

دی بامبے کرانیکل،وکی پیڈیا امیج

جس وقت بریلوی کی تقرری ہوئی تھی، اس وقت یہ بات ایک طرح سے طے تھی کہ ہارنی مین  (‘دی کنگ اکراس دی کالا پانی’—انہیں اسی نام سے بلا یا جا تا تھا)واپس آئیں گے تو انہیں جگہ چھوڑنی پڑےگی۔ بااثرسوراجی لیڈران نے بھی یہ  گمان کیا ہوا تھا کہ وہ انہیں بھرپور کوریج دیں گے۔ لیکن بریلوی کا ارادہ کچھ اور ہی تھا۔

جب  ایک دفعہ ایم آرجئے کارکی پوری تقریر کو اخبار میں شائع کر دیا گیا، تو بریلوی نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسا پھر کبھی نہیں ہو گا۔  اس کے بعد اخبار نے گروپ کو بھرپور کوریج تو دیا مگر گاندھی کی طرف اپنے جھکاؤ کو  جاری رکھا۔ بریلوی  خود ایک کمیٹیڈ گاندھین تھے۔ وہ ہمیشہ کھادی کی شیروانی پہنتے تھے۔  ان کے  سر پر ہمیشہ گاندھی ٹوپی ہوا کرتی تھی۔ بریلوی اور گاندھی کے درمیان خط و کتابت  کے بھی ثبوت ملتے ہیں۔ ایک خط میں گاندھی جی نے بریلوی کو ‘بریلوی بھائی’ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

غور طلب ہے کہ 1924 سے 1949 تک وہ اخبار کے مدیر رہے۔ درمیان میں محض دو مہینے کا ایک وقفہ ہے جب وہ اخبار کے مدیر نہیں تھے۔ ایسا 1926 میں ہوا تھا جب ہارنی مین  برطانیہ سے واپس آگئے تھے، لیکن ان کی یہ نئی اننگ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکی ، اور بریلوی  نےدوبارہ عہدہ سنبھال لیا تھا۔

تب سے، انہوں نے مسلسل برطانوی حکومت کی تنقید  کی۔ جناح اور مسلم لیگ کی مخالفت کو جاری رکھا۔ انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں سے بھی اپیل کی وہ جناح کی بات میں نہ آئیں اور یہ کہ پاکستان کو خارج کریں۔ لیگ والے اور قدامت پسندانہیں با لکل بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ جب وہ  کانگریس کے امیدوار کی حیثیت سے انتخاب کے میدان میں اترے، تو انہوں نے اپنے اخبار میں ایک اپیل جاری کی—’وینڈیکیٹ یور پیٹریو ٹزم'( اپنی وطن پرستی ثابت کرو)۔  کرانیکل نے  اس حوالے سے بھی ایک اسٹوری چھاپی کہ کیسے جعلی کاغذکی مدد سے ان (بریلوی) کی شبیہ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سال 1937 میں، جب بامبے قانون ساز کونسل کے انتخاب کے لئے مہم چلا ئی جا رہی تھی،  تب اخبار نے ایک سخت اداریہ لکھا؛’لیٹ مسٹر جناح آنسر ‘(جناح کو جواب دینے دو)، یہ یاد دلاتے ہوئے کہ مسلم لیگ نے 1920 میں کیا قرارداد پاس کی تھی؛’تمام جائز اور پر امن طریقوں سے سوراج کا حصول۔’

بریلوی کانگریس کے امیدوار کے طور پرالیکشن لڑ رہے تھے۔ ان کے خلاف لیگ والے جو حربہ (ڈرٹی ٹرکس)استعمال کر رہے تھے، اس کا انکشاف دی کرانیکل کر رہا تھا۔  لیکن با اثر لوگوں اور کچھ مذہبی  لیڈران کی حمایت کے باوجود،  بریلوی ( جوعلیحدہ مسلم ریاست کے سخت مخالف تھے )کو شکست کھا نی پڑی۔

بریلوی نے کبھی اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ وہ اور اخبار دونوں گاندھی کے حامی بنے رہے۔اب گاندھی کا قد اور اونچا ہو چکا تھا، گرچہ کانگریس کے اندر اور باہر ان کے بھی ناقدین کی کمی نہیں تھی۔ بامبے کے مالدار تاجر (گجراتی، پارسی اور مسلم) ہمیشہ گاندھی کی مدد کرتے تھے۔

 سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ ایس اے بریلوی، فوٹو: بریلوی فیملی

سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ ایس اے بریلوی، فوٹو: بریلوی فیملی

اخبار اچھا چل رہا تھا۔ یہ ٹائمس آف انڈیا کو ٹھیک ٹھاک فائٹ دے رہا تھا۔ ٹائمس کانگریس  کامخالف تھا۔ لیکن سرکار اسے مسلسل دبانے کی کوشش کر رہی تھی، جیسے کہ یہ  شہر کےدیگر  اشاعتی ادا روں پر دباؤ ڈالتی رہی تھی۔  1930 میں   بریلوی کو  پانچ مہینے جیل کی سزا  سنائی گئی اور 250 روپے جرمانہ مقرر کیا  گیا۔ انہوں نے جرمانہ ادا نہیں کیا۔ نتیجتاً انہیں جیل میں ایک  اورمہینہ گزارناپڑا۔

اسی طرح 1932-1933 میں،  انہیں ایک بار پھر 18 مہینہ قید کی سزا سنائی گئی۔ ‘ان دونوں سزاؤں کا تعلق ان خبروں کی اشاعت سے تھا، جو برطانوی حکومت کو ناگوار گزری تھی۔’ یہ بات   ایس جی حیدر نے بریلوی کے ایک پروفائل میں لکھی ہے جو   ہندوستان کے مشہور صحافیوں پر مشتمل  چلڈرن بک ٹرسٹ کی مشہور کتاب میں شامل ہے۔

حیدر نے یہ بھی لکھا ہے کہ مقدمہ کی ایک شنوائی کے دوران انہوں نے  مچلکہ ادا  کرنے  سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً انہیں ضمانت نہیں ملی اور جیل  جانا  پڑا۔  بہت سارے با اثر لوگ جو ان کے حامی تھے اور دیگر اخبار والوں نے بھی  یہ اپیل کی کہ  انہیں اچھے جیل میں  (جہاں بہتر سہولیات ہیں)منتقل کیا جائے۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ خود انہوں نے کبھی ایسی کوئی درخواست نہیں کی۔

بریلوی بامبے کی پبلک لائف کا حصہ تھے۔  وہ اپنے دوستوں اور معزز لوگوں کے درمیان یکساں طور پر بے تکلف تھے۔  وہ کو آپریٹو بینکنگ  ،  ایڈلٹ ایجوکیشن اور لیبر موومنٹ سے بھی وابستہ تھے۔  وہ جوائنٹ اسٹرائیک کمیٹی کے بھی ممبر تھے جس نے 1928 میں نو مہینے کا طویل اسٹرائیک کیا تھا۔ وہ کئی زبان جانتے تھے۔

ایک دلچسپ قصہ یہ ہے کہ  جب انہوں نے ہندی سیکھنے کی خواہش ظاہر کی، تو گاندھی جی نے انہیں لکھا؛’چونکہ آپ اردو اور فارسی جانتے ہیں، لہذا آپ کے لئے ہندی سیکھنا چٹکی کا کھیل ہے۔ آپ تلسی داس کا اوریجنل دی  رامائن بھی پڑھ سکتے ہیں–’

جب گاندھی جی کا قتل ہوا، تو بریلوی کو بڑا صدمہ لگا۔ وہ  بہت ٹوٹ گئے تھے۔’مہاتما سکمبس ٹو اساسینز بلیٹ'(مہاتما قاتل کی گولی کی تاب نہ لا سکے)۔ 31 جنوری کی صبح کے اخبار میں یہی بینر ہیڈ لائن تھا۔فرنٹ پیج پر  تفصیلی رپورٹ تھی؛ جن میں نہرو کی  اسپیچ ‘لائٹ ہیز گون آؤٹ فرام آور لائیو ز’ (ہماری زندگی سے روشنی چلی گئی) کو خاص طور سے جگہ دی گئی تھی۔

دی بامبے کرانیکل، 31جنوری 1948 کا پہلا صفحہ

دی بامبے کرانیکل، 31جنوری 1948 کا پہلا صفحہ

اگلے ہی برس بریلوی بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ 1945میں جب وہ کلکتہ کے سفر پر تھے، تب  ان پر دل کا دورہ پڑ چکا تھا۔  حیدر لکھتے ہیں کہ ؛اچھی بات یہ تھی کہ وہ ڈاکٹر بی سی رائے کے علاج میں رہے، جو ایک فیزیشین بھی تھے اور اس وقت بنگال کے وزیر اعلیٰ بھی۔

بریلوی کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں بڑے لوگ شامل تھے۔  جواہر لال نہرو نے  یہ کہا کہ؛بریلوی کی ضرورت پہلے سے زیادہ ابھی تھی۔’  سردار پٹیل نے  کہا؛ ملک کی جد و جہد آزادی کے وہ ایک عظیم مجاہد تھے؛ وہ ایک  نیشنلسٹ تھے اور پریس کی آزادی  کے علم بردار بھی۔’ ان کے جنازے میں ایک جم غفیر امڈ پڑا تھا۔

سال 1959 میں دی بامبے کرانیکل ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ چیزیں بدل گئی تھیں۔ مقابلہ اور بڑھ گیا تھا۔ دی ٹائمس آف انڈیا کے پاس بے بہا  فنڈ تھا۔ اس کے سامنے ٹکنا مشکل ہو گیا تھا۔

آج بریلوی کا نام تقریباًفراموش کر دیا گیا ہے۔ بامبے (اب ممبئی)میں محض ایک گلی ان کے نام سے  منسوب ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بریلوی کے حوالے سے کوئی کتاب بھی نہیں ہے۔ ان کے نام کا وکی پیڈیا پیج تک نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پر کہیں کوئی ریفرنس موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ایک تصویر تک دستیاب نہیں ہے۔ کرانیکل کی کاپیاں خاک آلودہ کتب خانوں میں ضرور دستیاب ہیں۔ افسوس یہ بھی ہے کہ شاید ہی کسی کو اس حوالے سے کوئی دلچسپی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ انہیں یاد کیا جانا چاہیے؛ نہ صرف ان کی صحافتی خدمات کے لئے جو انہوں نے نامساعد حالات میں انجام دیے، بلکہ  سیکولر، لبرل اور ڈیموکریٹک انڈیا  کے حوالے سے جو ان کا کمٹ منٹ تھا، اس لیے بھی۔

اگر جدید دیو جانس کلبی کو موجودہ دور میں ،  روشن چراغ لےکر ہندوستانیوں کی تلاش میں نکلنا  پڑتا  تو  اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا سامنا جذباتی ہندوؤں، متعصب مسلمانوں اور شدت پسند لوگوں  سے ہوتا، اور جن کی محض ایک ہی شکایت ہوتی کہ ان کی قوم کے لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک  کیا جا رہا ہے، اور افسردہ ہوکر اس (دیو جانس کلبی) کو یہ سوال  کرنا پڑتا: ہندوستانی کہاں ہیں؟

 یہ بات  بریلوی نے 1926 میں لکھی تھی۔ دلچسپ بات ہے کہ آج بھی یہ اتنی ہی بامعنی لگ رہی ہے جتنی اس زمانے میں رہی ہوگی۔

(انگریزی سے ترجمہ سید کاشف)