خبریں

دہلی فسادات: نو سابق آئی پی ایس افسروں نے پولیس کی جانچ پر اٹھائے سوال

آئی پی ایس افسروں نے دہلی پولیس کمشنر کو خط لکھ کر فسادات سےمتعلق تمام معاملوں کی غیرجانبداری  سےدوبارہ جانچ کرانے کی گزارش کی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ شہریت قانون  کی  مخالفت کر رہے لوگوں کو اس میں پھنسانا افسوس  ناک ہے۔ بنا کسی ٹھوس ثبوت کے ان پر الزام لگاناغیرجانبدارانہ جانچ کے تمام ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: ملک کے نو سابق آئی پی ایس افسروں نے دہلی پولیس کمشنر ایس این شریواستو کو کھلا خط لکھ کر اس سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات  کی جانچ پر سوال اٹھائے ہیں۔اس خط میں پولیس کے ان طریقوں کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے، جنہیں لےکر ان افسروں کو لگتا ہے کہ دہلی فسادات  کی جانچ خامیوں سے پرتھی۔

اس خط پر نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آربی)کے سابق ڈائریکٹرجنرل شفیع عالم، سی بی آئی کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر کے سلیم علی،سابق پولیس ڈائریکٹر جنرل(جیل)مہندرپال اولکھ، پی ایم اوکے سابق اوایس ڈی اے ایس دُلت، اتراکھنڈ کے سابق ڈائریکٹرجنرل آلوک بی پال، کابینہ کے سابق اسپیشل سکریٹری امیتابھ ماتھر، سکم کے سابق پولیس ڈائریکٹرجنرل اویناش موہننے، گجرات کے سابق پولیس ڈائریکٹرجنرل پی جی جے نامپوتھری اور مغربی بنگال کے سابق پولیس ڈائریکٹرجنرل(خفیہ)اےکے سمنتا شامل ہیں۔

ان افسروں نے خط کی شروعات میں لکھا، ‘ہم سب ہندوستانی پولیس فورس کے سبکدوش افسر ہیں اور ریٹائرڈافسروں کے ایک بڑے گروپ کانٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ (سی سی جی)سے وابستہ  ہیں۔ جولیو ربیرو سی سی جی کے لیونگ لیجنڈ ہیں اور سی سی جی کے اہم ممبروں  میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے دہلی فسادات کی جانچ میں گڑبڑی کو لےکر آپ کو جو خط لکھا تھا، ہم سب اس کی حمایت کرتے ہیں۔’

ان پولیس افسروں نے دہلی فسادات کی جانچ کو جانبدارانہ اور سیاست سے متا ثر بتایا ہے۔دراصل سابق آئی پی ایس افسر جولیو ربیرو نے دہلی فسادات کی جانچ پر سنگین سوال اٹھاتے ہوئے دہلی پولیس کمشنر شریواستو کو خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا، ‘برائے مہربانی دہلی میں اپنی کمان میں پولیس اہلکاروں کی سرگرمیوں پر دوبارہ غور کر کےیہ طے کریں کہ وہ (پولیس اہلکار) اپنی بحالی کے وقت لیے گئے حلف پرعمل کر رہے ہیں یا نہیں؟’

وہیں، ان نو سابق افسروں نے خط میں کہا ہے، ‘ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ یقیناً یہ ہندوستانی  پولیس فورس کی تاریخ میں سب سے افسوس ناک  دن ہے کہ دہلی پولیس کے ذریعے اس سال ہوئے فسادات کے سلسلے میں عدالت میں پیش کی گئی جانچ رپورٹ اور چالان وسیع پیمانےپرجانبدارانہ اور سیاست سے متاثر ہیں۔ اس سے ان سب پولیس افسروں (ورکنگ اورریٹائرڈ)کو افسوس ہوا ہے، جو قانون اور ہمارے آئین کے ضابطہ کو بنائے رکھنے میں یقین کرتے ہیں۔’

خط میں افسروں نے انڈین ایکسپریس کی اس رپورٹ کا بھی ذکر کیا،‘جس میں کہا گیا تھا کہ اسپیشل پولیس کمشنر(کرائم)پرویر رنجن نے دہلی فسادات معاملے کی جانچ ٹیموں کی قیادت کر رہے سینئرپولیس افسروں کو خط لکھ کر کہا تھا کہ شمال-مشرقی دہلی کے کچھ ہندونوجوانوں کی گرفتاری سے ہندو کمیونٹی ناراض ہو سکتی ہے۔’

اس خط میں پولیس افسروں نے لکھا، ‘ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ آپ کے اسپیشل کمشنروں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے جانچ کو متاثر کرنے کی کوشش کی کہ کچھ ہندو فسادیوں کی گرفتاری سے ہندو کمیونٹی ناراض ہو سکتی ہے۔ پولیس قیادت میں اس طرح کا اکثریت پسند رویہ اقلیتی کمیونٹی سے جڑے تشدد کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ  کے لیے انصاف سے بھٹکاؤ کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ اکثریتی کمیونٹی سے جڑے ہوئے تشدد کے حقیقی  مجرم سلامتی کے ساتھ بچ کر نکل سکتے ہیں۔’

معلوم ہو کہ دہلی فسادات کی ایف آئی آر میں بی جےپی رہنما کپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کا نام تک نہیں ہے جبکہ دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ میں کپل مشرا کو اس تشدد کے لیے ذمہ دار مانا تھا۔خط میں پولیس اہلکاروں  نے یہ بھی کہا کہ ان مجرموں کی جانچ کر رہی دہلی پولیس کی یہ جانچ مبینہ قبولنامے پرمبنی ہے، جو پوری طرح سے غیرجانبدارانہ جانچ کے ضابطہ کی خلاف ورزی ہے۔

خط میں کہا گیا،‘شہریت قانون (سی اے اے)کی مخالفت کر رہے لوگوں کو اس معاملے میں پھنسانے سے ہمیں اور زیادہ افسوس ہو رہا ہے۔ یہ لوگ سی ا ے اے کی مخالفت کرکےآئین  کے ذریعےملی اظہار رائے  کی آزادی اورپرامن مظاہرہ کرنے کے اپنے بنیادی حقوق پر عمل کر رہے تھے۔ بنا کسی ٹھوس ثبوت کے ان پر الزام  لگاناغیرجانبدارانہ  جانچ کے تمام ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔’

آگے کہا گیا ہے، ‘سی اےاے کو لےکر اپنی بات رکھ رہے رہنماؤں اور کارکنوں کو ملزم ٹھہرا کر تشددکو بھڑ کانے والے اور مقتدرہ پارٹی سے وابستہ لوگوں کو انصاف کے کٹہرے سے دور کر دیا ہے۔’خط میں کہا گیا،‘اس طرح کی جانچ سے لوگوں کاجمہوریت، انصاف، غیرجانبداری اور آئین میں صرف بھروسہ کم ہوگا۔ یہ ایک خطرناک تصورہے، جو منظم  سماج کے ستونوں کو ہلا سکتا ہے اور نظم ونسق کے بگڑنے کی وجہ  بن سکتا ہے۔’

اس خط کے آخری میں معاملے کی غیرجانبداری  سے دوبارہ جانچ کی اپیل  کی گئی ہے۔وہ کہتے ہیں،‘ہم آپ سے  فسادات کے تمام معاملوں کی غیرجانبداری  سے بنا کسی طرفداری  کے دوبارہ جانچ کرنے کی گزارش کرتے ہیں تاکہ اس سے متاثرین اور ان کے اہل خانہ  کو انصاف مل سکے اور قانون کی پیروی  ہو سکے۔’

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔