خبریں

آسام: گائے کا گوشت فروخت کر نے کے الزام میں  پیٹے گئے شخص کو ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کی این ایچ آر سی کی ہدایت

اپریل 2019 میں بشو ناتھ ضلع کے 48 سالہ شوکت علی کو بھیڑ نے ان کی دکان پر پکا ہوا گائے کا گوشت بیچنے کے الزام میں پیٹا تھا اور خنزیر کا گوشت کھلایا تھا۔ این ایچ آر سی نے آسام سرکار کو علی کےانسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کی ہدایت  دی ہے۔

فوٹو بہ شکریہ : یوٹیوب ویڈیو

فوٹو بہ شکریہ : یوٹیوب ویڈیو

نئی دہلی: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن(این ایچ آر سی)نے آسام سرکار کو اس شخص  کو ایک لاکھ روپے کا معاوضہ دیے جانے کی ہدایت دی ہے، جس کو بشو ناتھ ضلع میں اپنی چائے کی دکان میں پکا ہوا گائے کا گوشت بیچنے کے الزام میں بھیڑ نے پیٹا تھا۔کمیشن نے اس بات کاسخت نوٹس لیا کہ نہ توچیف سکریٹری نے وجہ بتاؤ نوٹس کا جواب دیا اور نہ ہی پولیس ڈائریکٹر جنرل نے معاملے میں ملزم پولیس افسروں  کے خلاف کارروائی سے متعلق رپورٹ جمع کی۔

بھیڑ نے شوکت علی(48)کو پچھلے سال سات اپریل کو چائے کی دکان پر گائے کا گوشت بیچنے کی وجہ سے کچھ پولیس اہلکاروں  کے سامنے پیٹا تھا اور اس کو خنزیر کا پکا ہواگوشت کھلایا گیا تھا۔علی کو دکان کھولنے کی اجازت دینے کے لیے بازار کے ایک ٹھیکیدار کو بھی مبینہ طور پر پیٹا گیا تھا۔

این ایچ آر سی کے اسسٹنٹ رجسٹرار (قانون)کی جانب سے چیف سکریٹری کو لکھے خط میں کہا گیا کہ کمیشن آسام سرکار کو شوکت علی کو ایک لاکھ روپے کا معاوضہ دینےکی ہدایت دی جاتی  ہے۔خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، آسام میں گائے کا گوشت کا استعمال قانونی ہے اور آسام کیٹل پروٹیکشن ایکٹ، 1950صرف علاقہ  کے ایک ویٹنری آفیسرکے ذریعےصحیح سندکے ساتھ 14 سال  سے اوپر کے جانوروں  کو ذبح کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ڈی جی پی کو بھیجے گئے این ایچ آر سی کے خط کے مطابق، گزشتہ 9 ستمبر کو کانگریس رہنما اور دیب برت سکییہ کی شکایت پرشنوائی کرتے ہوئے این ایچ آرسی نے ڈی جی پی کو وارننگ دی تھی کہ اگر چار ہفتوں میں رپورٹ نہیں بھیجی گئی تو وہ ان کے خلاف کارروائی شروع کریں گے۔

کمیشن کو متعلقہ اتھارٹی  سے وجہ بتاؤ نوٹس کا کوئی جواب یا کوئی ردعمل نہیں ملا ہے، جس کی وجہ سے کمیشن  نے پایا کہ متعلقہ اتھارٹی  کو وجہ بتاؤ نوٹس کے سلسلے میں کمیشن سے کوئی درخواست نہیں کرنی ہے۔این ایچ آر سی اسسٹنٹ  رجسٹرار(قانون)کی جانب سےچیف سکریٹری  کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا،‘اس لیے کمیشن  آسام سرکار کے چیف سکریٹری کو اپنی سفارش اور ہدایت کی تصدیق کرتی ہے کہ متاثرہ شوکت علی کو 1 لاکھ روپے کا معاوضہ  جاری کریں اور چھ ہفتے کے اندر کمیشن  کو ادائیگی  کےثبوت کے ساتھ ایک رپورٹ پیش کریں۔’

قبل میں بھیجے گئے وجہ بتاؤ نوٹس میں این ایچ آر سی نے ذکر کیا کہ پہلی نظر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے،اورریاست متاثرہ کو معاوضہ دینے کے لئے بالواسطہ ذمہ دار ہے۔کمیشن نے ایک رپورٹ کا بھی ذکر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پبلک سرونٹ کچھ مقامی  بے روزگارنوجوانوں کو شامل کرکے بازار سے رنگداری اکٹھا کر رہے تھے، جو قانون کے خلاف ہے۔

وجہ بتاؤ نوٹس کا حوالہ دیتے ہوئے خط  میں کہا گیا،‘متاثرہ کی کمیونٹی/مذہب کی بنیاد پر بے عزتی کی گئی ۔ ایک پبلک سرونٹ، جو پیشہ سے ٹیکس کلکٹر تھے کے ذریعے متاثرہ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ پولیس نے 15افراد کو پکڑا ہے اور انہیں عدالتی حراست میں بھیجا گیا ہے۔

یہ واقعہ ایک ملزم کے ذریعے سوشل میڈیا پر وائرل کئے گئے ویڈیو کے بعد ہی سامنے آیا تھا، جس کے اگلے دن پولیس نے متاثرہ کے بھائی شہاب الدین علی کی شکایت پر معاملہ درج کیا تھا۔ویڈیو میں شوکت علی پر حملہ ہوتے دکھ رہا تھا اور  بھیڑ یہ پوچھتی نظر آرہی ہے کہ کیا تم بنگلہ دیشی ہو؟ کیا تمہارا نام این آر سی میں ہے؟

متاثرہ  نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کاخاندان تین دہائی  سے زیادہ سے بازار میں پکا ہوا گائے کا گوشت بیچ رہا تھا اور پہلے کبھی اس طرح کے کسی مدعے کا سامنا نہیں کیا۔اس واقعہ  نے بڑے پیمانے پرسیاسی  طوفان پیدا کر دیا تھا کیونکہ آسام میں لوک سبھا انتخاب کے لیے صرف چار دن بعدووٹنگ  شروع ہونی تھی۔

ریاست بھر میں ہوئی تنقید کے بعدوزیراعلیٰ سربانند سونووال نے ڈی جی پی کو تمام قصورواروں کو پکڑنے کے حکم دیےتھے۔ واقعہ  کےسلسلےمیں گرفتار لوگوں میں بی جے پی کے ایک وارڈ ممبر بھی تھے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)