خبریں

دہلی فسادات: نوجوان کا دعویٰ-پولیس نے کہا تھا کہ 10 مسلمانوں کا نام لے لے تو رہا کر دیں گے

اٹھائیس سالہ الیاس کو پانچ مہینے سے زیادہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ شمال -مشرقی  دہلی میں ہوئے فسادات  کے دوران دو اسکولوں کی ملکیت کوتباہ کرنے کے الزام میں ان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا الزام ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔

الیاس اور مرسلین(فوٹو: تاروشی اسوانی)

الیاس اور مرسلین(فوٹو: تاروشی اسوانی)

نئی دہلی:28 سالہ الیاس نے پانچ مہینے سے زیادہ  جیل میں گزاراہے، لیکن اب انہیں ضمانت دے دی گئی ہے ۔ 17 مارچ 2020 کو انہیں شمال-مشرقی  دہلی میں ہوئے مسلم مخالف فسادات کے دوران شیو وہار میں راجدھانی پبلک اسکول کو مبینہ طور پر تباہ کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔

اس معاملے میں ضمانت ملنے کے بعد انہیں شیو وہار کے ڈی آرپی سیکنڈری اسکول کی ملکیت کو مبینہ طور پر تباہ کرنے کے لیے 14 مئی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔دوسرے معاملے میں ضمانت ملنے کے بعد الیاس تین ستمبر کو گھر لوٹ آئے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ مسلمان  ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘یہ مانگ رہے تھے نا، آزادی۔ ایسے بات کر رہے تھے تھانے میں مجھ سے اور باقی مسلمانوں سے۔’

مسلمان  ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا

پولیس نے جب پہلےمعاملے میں الیاس کو گرفتار کیا، تب انہیں دیال پور پولیس تھانے لے جایا گیا۔ انہیں بھیڑ کے تشددکا سی سی ٹی وی فوٹیج دکھایا گیا اور الزام  لگایا گیاکہ وہ بھی بھیڑ کا حصہ تھے۔جب الیاس نے اس جگہ  پر ہونے سے انکار کیا تو پولیس نےمبینہ  طور پر ان سے کہا کہ اگر وہ ویڈیو میں سے 10 لوگوں کے نام بتا دیں تو انہیں فوراً رہا کر دیا جائےگا۔

الیاس کہتے ہیں،‘جیسے ہی میں نے کچھ ہندو لوگوں کے نام دیے، تو پولیس نے کہا مسلمان نام بتا۔’قابل ذکر ہے کہ الیاس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہونے ہونے کے باوجود انہیں منڈولی جیل بھیج دیا گیا۔انہوں نے کہا، ‘میرے مذہب کو میرا جرم بنا دیا گیا۔’

الیاس معاملے کو دیکھ رہے کرائم برانچ کے ایس آئی پنکج کمار نے اس سلسلے میں کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ دیال پور تھانے کے ایس ایچ او تارکیشور سنگھ سے کئی بار رابطہ کیا گیا، لیکن وہ کسی طرح کا تبصرہ  کرنے کے لیے  مل نہیں  سکے۔

الیاس کا معاملہ فسادات  کے دوران پولیس کے ذریعےکی گئیں گرفتاریوں کو لےکر پولیس کے  رخ کو پیش کرتا ہے۔دی  وائر کے پاس الیاس معاملے کی چارج شیٹ اور ضمانت عرضی  ہے، جس سے انہیں باربارگرفتار کرنے اور انہیں ہراساں  کرنے کے مقصد کا پتہ چلتا ہے۔

الیاس کو جب فسادات  کے دوران راجدھانی پبلک اسکول کی ملکیت کو ضائع کرنے کے لیے جیل بھیجا گیا، ان کے خلاف اس وقت  نہ صرف شواہد کی کمی  تھی۔ انہیں ایک مسلمان  کے اسکول (راجدھانی پبلک اسکول)کی ملکیت تباہ کرنے کے لیے تب گرفتار کیا گیا، جب مسلمانوں پر ہی حملے ہو رہے تھے۔

اس معاملے میں جب انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا تو انہیں ڈی آرپی اسکول کی ملکیت تباہ کرنے کے لیے دوبارہ گرفتار کیا گیا، جس کی ملکیت  ہندوؤں کے پاس ہے۔اس اسکول کی ملکیت پولیس کے موافق تھی، اس لیے الیاس کو ایک بار پھر جیل بھیج دیا گیا، جس میں یہ ثابت ہی نہیں ہو پایا کہ یہ جرم  انہوں نے ہی کیے تھے۔

دراصل پہلے معاملے میں 16 مئی کو ضمانت ملنے سے دو دن پہلے ہی 14 مئی کو دوسرے معاملے میں الیاس کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس کی الیاس کو اپنی حراست میں رکھنے کی خواہش مندتھی۔

انصاف کوسوں  دور

الیاس پر لگے دوسرے الزام  میں چار گواہوں نے بیان دیے،جہاں  کسی میں بھی الیاس کے نام کا ذکر نہیں تھا۔ پانچویں گواہ نے اپنے بیان میں الیاس کو پہچانا لیکن وہ بھی کسی اور کے ذریعے۔الیاس کے وکیل عادل سیف الدین اور لوکیش بھمبھانی نے گزشتہ پانچ مہینوں میں الیاس کے لیے پانچ ضمانت عرضیاں  دائر کیں۔

سیف الدین نے دی وائر کو بتایا،‘اگر ہم شواہد پر غور کریں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الیاس ضمانت کے لیے ٹرپل ٹیسٹ کے اہل  ہیں۔ (1)الیاس ملک چھوڑکر باہر بھاگنے میں اہل نہیں ہیں۔ (2)الیاس کے پاس گواہوں کو متاثر کرنے کے لیے وسائل  نہیں ہیں اور (3)الیاس شواہد سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں۔’

سیف الدین نے کہا کہ الیاس کا پہلے سے کوئی مجرمانہ  ریکارڈ بھی نہیں ہے اور وہ اپنی فیملی میں اکلوتے کمانے والے شخص ہیں، لیکن پھر بھی عدالت اسے ضمانت دینے کی خواہش مند نہیں تھی۔بھمبھانی نے کہا، ‘الیاس ان غریب اوربے قصور لوگوں میں ہیں، جنہیں فسادات کے معاملے میں دہلی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔’

ہم ڈرے ہوئے ہیں

الیاس کے بہنوئی مرسلین کہتے ہیں کہ ان فسادات نے پڑوس میں ان کے پرامن اوراچھے وقتوں  کی یادوں کو داغدار کر دیا ہے۔انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘24 فروری کے بعد لونی میں ہمارے پڑوس میں لوگوں کو رضاکارانہ طور پرعوامی بھلائی کے لیے سڑکوں کی رکھوالی کرنی پڑی۔ مسلمان چوکسی کے لیے ہر گلی کے دونوں چھور پر پہرہ دے رہے تھے۔’

مرسلین نے کہا، ‘فسادات  کے وقت ہمیں جب گھر کے اندر سے جئے شری رام سنائی دیا، اس میں کوئی بھکتی نہیں تھی۔ وہ ایک اعلان تھا، جیسے کوئی جنگ کرنے آیا ہو۔’الیاس کی بہن پروین فسادات کے بعد سے اپنا نقاب نہیں پہننا چاہ رہی ہیں۔ مرسلین کو ڈر ہے کہ ان کی لمبی داڑھی انہیں گرفتار کرا سکتی ہے۔ الیاس کی ماں کی سننے کی قوت  چلی گئی ہے۔

پروین کے مطابق، ‘جب سے الیاس جیل سے لوٹا ہے، ان کی ماں الیاس کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے۔’الیاس اپنازیادہ  وقت اپنی فیملی کے ساتھ یہ سوچتے ہوئے بتاتا ہے کہ آخر اس کاجرم  کیا تھا؟دیال پور تھانے کے ایس ایچ او تاریکشور ان تین سینئرپولیس افسروں  میں سے ایک ہیں، جن کے خلاف شکایت کی گئی ہے۔

کارواں میگزین کی جون کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک شکایت گزارنے کہا تھا کہ اس نے چاندباغ میں تین سینئرپولیس افسروں  کو دیکھا، جس میں گوکل پوری پولیس تھانے کے اےسی پی انج شرما، اس وقت دیال پور تھانے کے ایس ایچ او تاریکشور سنگھ اور بھجن پورہ  پولیس تھانے کے ایس ایچ او آر ایس مینا کو مظاہرین پر گولی چلاتے دیکھا تھا۔

اس معاملے میں الیاس پر لگے الزامات کو لےکر دہلی پولیس سے جواب مانگا گیا ہے اور جواب ملنے پر اسٹوری کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔