خبریں

دہلی فسادات: گرفتار جامعہ اسٹوڈنٹ نے تہاڑ جیل کے اہلکاروں پرذہنی ہراسانی کے الزام لگائے

دہلی تشددسے جڑے معاملے میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار اسٹوڈنٹ گل فشا ں فاطمہ نے مقامی عدالت کی شنوائی میں الزام لگایا کہ جیل میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے، فرقہ وارانہ تبصرےکیے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر وہ خود کو کوئی نقصان پہنچاتی ہیں، تو جیل انتظامیہ  اس کی  ذمہ دار ہوگی۔

گل فشاں  فاطمہ(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

گل فشاں  فاطمہ(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی:یو اے پی اےقانون کے تحت گرفتار جامعہ کی اسٹوڈنٹ اور کارکن  گل فشا ں فاطمہ نے دہلی کی ایک عدالت میں الزام  لگایا کہ جیل حکام  ان کے خلاف فرقہ وارانہ تبصرہ  کرتے ہیں اور انہیں ذہنی اذیت  دے رہے ہیں۔گل فشاں  فاطمہ شمال-مشرقی دہلی میں فروری میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد سے جڑے ایک معاملے میں تہاڑ جیل میں ہیں۔ انہوں نے یہ الزام اس وقت لگائے جب انہیں معاملے میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعےایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے پیش کیا گیا۔

فاطمہ نے الزام لگایا کہ جیل میں ان پرتبصرے کیے جاتے ہیں، ان سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا،‘جیل میں مجھے ایک پریشانی ہو رہی ہے…جب سے میں یہاں لائی گئی ہوں، لگاتار جیل حکام  کےامتیازی سلوک کا سامنا کر رہی ہوں۔ وہ مجھے ‘تعلیم یافتہ دہشت گرد’ کہہ کر پکارتے ہیں اور مجھ پر فرقہ وارانہ تبصرہ  کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں  کہ باہر تم نےفسادات کروائے، تم اندر رہ کر مرو…’

گل فشاں  نے آگے کہا، ‘…میں یہاں ذہنی ہراسانی کا سامنا کر رہی ہوں۔ اگرمیں خود کو کوئی نقصان پہنچاتی ہوں تو اس کے لیے صرف جیل انتظامیہ  ذمہ دار ہوگی۔’

فاطمہ کے سیدھے عدالت میں اپنی دلیل دینے پر جج نے ان کے وکیل کو اس بارے میں ایک عرضی دائر کرنے کو کہا۔ اس پر اسٹوڈنٹ کے وکیل محمود پراچہ نے کہا کہ وہ اس معاملے میں ضروری درخواست دیں گے۔عدالت نے سوموار کو ملزم کے وکیلوں کو چارج شیٹ  کی کاپی سونپے جانے کی ہدایت  دی اور معاملے پر اگلی شنوائی کے لیے تین اکتوبر کی تاریخ طے کر دی۔

چارج شیٹ یو اے پی اےاور آئی پی سی  کی مختلف کے تحت داخل کی گئی ہے۔بتا دیں کہ گل فشاں  فاطمہ کو 9 اپریل 2020 کو جعفرآباد مظاہرہ میں سڑک بند کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر نمبر48/20 میں ان کے اوپر آئی پی سی کئی دفعات  لگائی گئی تھیں۔

اس ایف آئی آر پر انہیں 13 مئی کو ضمانت مل گئی تھی، لیکن اس کے بعد آرمز ایکٹ اور یو اے پی اے جیسی دفعات  لگاکر انہیں جیل میں بند کر دیا گیا۔گزشتہ جولائی میں گل فشاں  فاطمہ کی رہائی کی اپیل کرتے ہوئےشہری سماج کے ممبروں ، ماہرین تعلیم، کارکنوں، قلمکاروں، صحافیوں ،فن کاروں اور وکیلوں سمیت 450 سے زیادہ  لوگوں نے ایک بیان جاری کیا تھا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ گل فشاں  کے بارے میں ایسی کئی مثالیں  ہیں جن میں وہ مقامی مظاہرے کی جگہ  میں شامل ہے،کلاسزچلا رہی ہیں، کمیونٹی  کے بچوں اور خواتین  کوتعلیم دے رہی ہیں اور انہیں تعلیم یافتہ  بنا رہی ہیں۔

بیان میں کہا گیا تھا، ‘اس طرح گل فشاں ، ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ کی وراثت کی ایک  وارث  اور امین ہیں ہیں،  جنہوں نے لڑکیوں اور خواتین  کے لیےتعلیم اور آزادی کو ایک حقیقت بنانے کے لیے تمام رکاوٹوں سے لڑائی کی۔’انہوں نے کہا کہ جیسے ہی گل فشاں  کو ایک معاملے میں ضمانت ملی، ویسے ہی پولیس نے ایک اور ایف آئی آر دائر کرکے انہیں دوبارہ گرفتار کیا اور یواے پی اے جیسے سخت  قانون کی دفعات  لگا دیں۔

سرکار اس قانون کا استعمال احتجاج کی آوازوں کو دبانے کے لیے کر رہی ہے اور مظاہرین  کوقومی سلامتی کے لیے خطرہ  قرار دے رہی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)