خبریں

پی ایم مودی کا دعویٰ ہے کہ ایم ایس پی ختم نہیں ہوگا تو وہ اس پر قانون کیوں نہیں بناتے: پی سائی ناتھ

کسانوں کے مظاہروں  کے بیچ تین زرعی آرڈیننس کو لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا کی بھی منظوری مل گئی ہے۔ صحافی پی سائی ناتھ نے کہا کہ ان قوانین کی وجہ سےہرطرف انتشار کی حالت ہو جائےگی۔ کسان اپنے پیداوار کی مناسب  قیمت  چاہتا ہے لیکن اس کے لیے جو بھی تھوڑا بہت سسٹم  بنا ہوا تھا سرکار اس کوبھی ختم کر رہی ہے۔

پی سائی ناتھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

پی سائی ناتھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

نئی دہلی:سینئر صحافی اور زرعی معاملوں کے جان کار پی سائی ناتھ نےمودی سرکار کے ذریعے حال ہی میں لائے گئے تین زرعی  آرڈیننس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر سرکار کو دعویٰ ہے کہ ایم ایس پی کا نظام  ختم نہیں ہوگاتو وہ ایک قانون لاکر اس کو یقینی  کیوں نہیں بناتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکار نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کر دیں گےتو اس پر انہیں بل پاس کرنے سے کون روک رہا ہے۔

سائی ناتھ نےکہا،‘وزیر اعظم  نریندر مودی نے بھروسہ  دلایا ہے کہ وہ ایم ایس پی کو ختم نہیں ہونے دیں گے اور وہ کسانوں کی کمائی 2022 تک دوگنی کر دیں گے۔ بہت اچھی بات ہے۔ ان باتوں کو ایک بل کےکے ذریعےیقینی بنانے سے انہیں کس نے روکا ہے۔ باقی کے تین زرعی آرڈیننس کےبرعکس یہ بل بنامخالفت کے پاس ہوگا۔’

انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصدیہ ہونا چاہیے کہ ایم ایس پی(سوامی ناتھ فارمولہ پر مبنی، جس کا بی جے پی نے سال 2014 میں وعدہ کیا تھا)گارنٹی ہوگی۔ بڑے تاجر، کمپنیاں یا کوئی بھی خریدارایم ایس پی سے کم دام پر زرعی پیداوار نہیں خریدیں گے۔پی سائی ناتھ نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی گارنٹی کے ساتھ کسانوں سے خریداری ہونی چاہیے، تاکہ ایم ایس پی مذاق بن کر نہ رہ جائے۔

اس کے ساتھ ہی سینئر صحافی  نے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لیےزرعی قرض معاف کرنے کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘قرض معافی کے بنا کسانوں کی کمائی2022یا2032 تک بھی دوگنی نہیں ہو سکتی ہے۔ جب کسان قرض میں ڈوبے ہوں تو ایسے مقصد کی تکمیل  ممکن نہیں ہے۔’

سائی ناتھ نے آگے کہا،‘جس طرح تین زرعی آرڈیننس کو تھوپا گیا ہے، اس کے برعکس ایم ایس پی اور قرض معافی گارنٹی والے بل کووزیر اعظم مودی آسانی سے پاس ہوتا دیکھ سکیں گے۔ پارلیامنٹ میں اس کو لےکر نہ تو گھماسان ہوگا اور نہ ہی اسے تھوپنا پڑےگا۔’

سرکار کا دعویٰ ہے کہ ان زرعی آرڈیننس  کا مقصدزرعی بازاروں کو کھولنا ہے تاکہ کسانوں کو ان کے پیدوارکی صحیح قیمت مل سکے۔ حالانکہ اس کی مخالفت  میں ہریانہ، پنجاب اور ملک  کے مختلف حصوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ماہرین نے زرعی اصلاحات کے نام پر لائے گئے ان قوانین کو ای پی ایم سی منڈیوں اورایم ایس پی سسٹم  کے لیے خطرہ  بتایا ہے۔

دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں پی سائی ناتھ نے کہا کہ سرکار ای پی ایم سی کو تمام پریشانیوں کی جڑ بتا رہی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔انہوں نے کہا،‘ان بلوں کے لاگو ہونے کے بعد ای پی ایم سی سسٹم  ویسا ہی رہ جائےگا جیسے کہ سرکاری اسکول ہیں۔ کہنے کو تو سرکاری اسکول ہیں، لیکن ان کی اہمیت نہیں رہی اور ہر جگہ پرائیویٹ اسکولوں نے گھیر لیا ہے۔’

ایم ایس پی بنے رہنے کے وزیراعظم  کے دعوے پر انہوں نے کہا کہ مودی کی باتوں پریقین کرنے سے پہلے ایم ایس پی پر کیے گئے ان کے پچھلے چھ سالوں کے وعدوں کو غور سے دیکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘سال 2014 میں بی جے پی نے وعدہ کیا کہ وہ اقتدارمیں آتے ہی سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات بالخصوص ایم ایس پی طے کرنے کے C2+50 فارمولے کو لاگو کریں گے۔ کمیشن نے ایم ایس پی  طے کرنے کا ایک تفصیلی فارمولہ  دیا تھا جو کہ کافی مناسب  تھا۔’

سائی ناتھ نے کہا،‘لیکن انہوں نے کیا کیا؟ سرکار نے کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے، اس سے بازار میں خرابی آ جائےگی۔ جو لوگ اس وعدے کی بنیادپر کروڑوں لوگوں کا ووٹ لےکر اقتدار میں آئے، آج کہہ رہے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ آگے چل کروزیر رادھاموہن سنگھ نے تویہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے کبھی ایسا وعدہ ہی نہیں کیا تھا۔’

پی سائی ناتھ نے کہا کہ سرکار اتنے پر ہی نہیں رکی اور سال 2018-19 کے بجٹ اسپیچ میں اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ ہم نے ربیع فصلوں کے لیے سوامی ناتھن کمیشن  کی سفارشات کو لاگو کر دیا ہے اور اب بس خریف فصلوں کے لیے یہ کیا جانا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سرکار نے کبھی بھی اسے لاگو ہی نہیں کیا اور وے C2+50 کی جگہ A2+FL فارمولہ کی بنیاد پر ایم ایس پی طے کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایم ایس پی لاگت کے مقابلےکافی کم ہوتی ہے۔سائی ناتھ نے کہا کہ کسان کو مناسب قیمت اوراستحکام چاہیے، لیکن سرکار ضروری مدعوں کے بجائے جو بھی تھوڑا بہت سسٹم بنا ہوا تھا اس کو ختم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان سب کی وجہ سے اس کافوری اثرہرطرف انتشار ہوگا۔صحافی  نے کہا، ‘آپ جب کچھ توڑتے ہیں، تو اس سے خالی پن جنم لیتا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ اس کی جگہ نیا سسٹم  بنایا جائے گا لیکن ایسا ہونے کاامکان نہیں ہے۔’

سائی ناتھ نے آگے کہا،‘زرعی کمیونٹی  میں استحکام  کی مانگ میں بہت اضافہ  ہوا ہے۔ انہوں نے اب تک بہت زیادہ نشیب وفراز دیکھ لیے ہیں۔ کسان اپنی اپج کا دام طے نہیں کرتا ہے، یہ کام کوئی اور کرتا ہے۔ انہیں قیمتوں میں ڈراؤنے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’

مرکز کی مودی حکومت نے ضروری اجناس ایکٹ،1955 میں ترمیم کیا ہے، جس کے ذریعےاشیائے خوردنی کی ذخیرہ اندوزی پر عائد پابندی ہٹا دی گئی ہے۔

حکومت نے ایک نیا قانون – زرعی پیداوار تجارت اورکامرس(فروغ اور سہولت)آرڈیننس ، 2020 متعارف کرایا ہے ، جس کا مقصد زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں(اے پی ایم سی منڈیوں)کے باہر زرعی پیداوار فروخت اور خریدنے کے لئے ایک طریقہ کار تشکیل دینا ہے۔

مرکزنے ایک اور نیاقانون پرائس انشورنس اور زرعی خدمات آرڈیننس ، 2020 سے متعلق کسان (بندوبستی اور تحفظ)معاہدہ ، جو معاہدے کی کاشت کو قانونی حیثیت دیتا ہے تاکہ بڑے بزنس  اور کمپنیاں معاہدے پرزمین لے کرکھیتی  کرسکیں۔کسانوں کو اس بات کا ڈرہے کہ سرکار ان آرڈیننس کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے مستحکم نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگر اس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم وکرم پر جینا پڑےگا۔

دوسری جانب  مودی سرکار ان آرڈیننس کو ‘تاریخی زرعی اصلاحات’کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل سسٹم بنا رہے ہیں۔بہرحال گزشتہ 20 ستمبر کواپوزیشن کے ہنگامہ اور مختلف  شہروں میں کسانوں کے مظاہرہ کے بیچ ان تین متنازعہ زرعی آرڈیننس کو لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بھی منظوری مل گئی ہے۔