خبریں

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہندوستان میں کام بند کیا، مرکزی حکومت کو ٹھہرایا ذمہ دار

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے ملک میں اپنا کام بند کرنے کا یہ قدم ای ڈی کی جانب سے اس کے اکاؤنٹ کو فریز کیے جانے کے بعد اٹھایا ہے۔تنظیم  کے اس قدم سے تقریباً 150ملازمین  کی نوکری چلی جائےگی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کا بنگلوروواقع دفتر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کا بنگلوروواقع دفتر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہندوستان  میں آٹھ سالوں تک کامیابی کے ساتھ کام کرنے اورانسانی حقوق کی خلاف ورزی  کے کئی اہم  معاملوں کو اٹھانے کے بعد شہری آزادی  کو دبانے کی سرکار کی کوششوں کے بیچ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے ملک میں اپناکام  بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایمنسٹی نے یہ قدم ای ڈی کی جانب سے اس کے اکاؤنٹ کو فریز کیے جانے کے بعد اٹھایا ہے۔ اس کے اس قدم سے تقریباً150ملازمین  کی نوکری چلی جائےگی۔مبینہ  طور پرغیرملکی  چندہ ریگولیشن قانون (ایف سی آراے)کی خلاف ورزی کے الزام میں 5 نومبر، 2019 کوسی بی آئی کے ذریعے ایک ایف آئی آر درج کیے جانے کے بعد ای ڈی نے پچھلے سال اس معاملے میں الگ سے جانچ شروع کی تھی۔

ای ڈی نے اب منی لانڈرنگ کا الزام  لگاتے ہوئے پرائمری  جانچ کو ای سی آئی آر(ایف آئی آر کے برابر)میں تبدیل کر دیا ہے اور ایمنسٹی انڈیا کے تمام اکاؤنٹ کو فریز کر دیا ہے۔ اس بار ای ڈی نے منی لانڈرنگ سے متعلق ایکٹ پی ایم ایل اےلگایا ہے۔ایک پریس ریلیز میں ایمنسٹی انڈیادفتر نے کہا، ‘10 ستمبر 2020 کو ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کو پتہ چلا کہ اس کے تمام  بینک اکاؤنٹ ای ڈی کے ذریعے پوری طرح سے فریز کیے جا چکے ہیں، جس کی وجہ سےانسانی حقوق  کے اکثر کام رکنے کی حالت میں آ گئے ہیں۔’

اپنے کاموں کو روکنے کےلیے سرکاری انتقامی کارروائی کو ذمہ دار بتاتے ہوئے ایمنسٹی انڈیا نے آگے کہا، ‘بے بنیاد اور ٹارگیٹ بناکر لگائے جا رہے الزامات پر حکومت ہندکے ذریعےانسانی حقوق کی تنظیموں کو لگاتار نشانہ  بنائے جانے کے سلسلہ میں یہ حالیہ معاملہ ہے۔’

پچھلے سال جولائی میں ای ڈی نے 51.72 کروڑ روپے کی فنڈنگ کی مبینہ خلاف ورزی کے لیے ایمنسٹی کو وجہ  بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا۔حالانکہ، سی بی آئی نے پی ایم ایل اے کی جگہ ایف سی آراے اور آئی پی سی کی دفعہ  120-بی(مجرمانہ سازش)کو نافذکیا گیا تھا۔ دفعہ 120-بی کی  بنیادپر ہی ای ڈی منی لانڈرنگ کی جانچ شروع کی ہے۔

بتا دیں کہ ایمنسٹی انڈیا کے 150ملازمین میں ریسرچ، مہم ، صلاح اور ٹیلی کالرس کی ٹیمیں شامل ہیں۔ملک  میں انسانی حقوق کی پامالی کے معاملوں پر لگاتار سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ حال کے سالوں  میں تنظیم  پانچ اہم منصوبوں  پر کام کر رہا ہے جس میں کاروبار اورانسانی حقوق ، خطرے میں لوگ،جنس کی بنیاد پر تشدد، انسانی حقوق کی تعلیم  اور جموں وکشمیر میں انصاف تک رسائی  شامل ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں دو سب سے اہم  رپورٹ جموں وکشمیر میں حالات اورشمال مشرق دہلی میں تشددکو لے کر جاری کی ہیں ۔تنظیم  نے کہا، ‘ان کی ان دو رپورٹ نے سرکار کو اپنی جانچ ایجنسیوں کے توسط سے ایمنسٹی انڈیا کو ہراساں  کرنے اور دباؤ ڈالنے کی نئی وجہ  دے دی۔’

بتا دیں کہ ایمنسٹی انڈیا کو پہلی بار سال 2016 میں تب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ‘جموں وکشمیر میں سکیورٹی فورسز  کے ذریعہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنے میں ناکامی’رپورٹ پر مبنی مہم کے دوران رائٹ ونگ طلبہ تنظیم  اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی)نے ہنگامہ کیا تھا۔

اس کے اگلے دن تنظیم  کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کیا گیا تھا جس میں سیڈیشن کا الزام بھی شامل تھا۔ تشدد کے ڈر سے تنظیم  کو اپنے بنگلورو اور دہلی واقع  دفتروں  کو کچھ دن کے لیے بند رکھنا پڑا تھا۔

اس کے بعد تنظیم  کو 25 اکتوبر 2018 کو ای ڈی کے ذریعےتقریباً 10 گھنٹے تک چھاپےماری کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ ایجنسی نے جن دستاویزوں کی مانگ کی تھی ان میں سے اکثر پہلے سے ہی عوامی  طور پر دستیاب  تھے۔ اس دوران اس وقت کے ایمنسٹی انڈیا ڈائریکٹرآکار پٹیل کے گھر کی بھی جانچ کی گئی تھی۔

ایمنسٹی انڈیا نے کہا، ‘چل رہی جانچ اور الزامات کے تعین سے پہلے ہی حکومت ہندنے سرکار حامی  میڈیا کو ای ڈی کے ذریعےجمع کیے گئے چنندہ دستاویزوں کے لیک کے کے ذریعے ملک میں ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے خلاف ایک گندی مہم  شروع کی۔ اس کی وجہ سےتنظیم  کے خلاف ایک متعصب  میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا۔’

ای ڈی کے علاوہ 2019 کی شروعات میں محکمہ انکم ٹیکس  نے تنظیم  کے 30 چھوٹے اور ریگولر ڈونرس  کو انکوائری پیپر بھیجنا شروع کیا تھا۔ایمنسٹی انڈیا نے کہا کہ محکمہ کو کچھ غلط نہیں ملا، لیکن اس کی وجہ سے اس کے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کو دھکا لگا۔

اسی سال جون میں تنظیم  کو جموں وکشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے)کے غلط استعمال  پر ’لاءلیس لاء’رپورٹ کی تیسری قسط کو ریلیز کرنے کے لیے سرینگر میں پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعدتنظیم  نے وہ رپورٹ آن لائن جاری کی تھی۔

بتادیں کہ 22 اکتوبر، 2019 کو تنظیم  کے بین الاقوامی دفتر نے جنوبی  ایشیا میں انسانی حقوق  کی حالت پر امریکی کانگریس کی شنوائی میں گواہی دی جو بنیادی طور پرجموں وکشمیر میں آرٹیکل370 کے اکثراہتماموں کو ختم کیے جانے پرمبنی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایکٹنگ سکریٹری جنرل جولی ویرار نے ایک بیان میں کہا ہے، ‘یہ حکومت ہند کے ذریعے ایک متکبر اور شرمناک کام ہے، جو ہمیں اب تک ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے اہم انسانی حقوق  کو روکنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ حالانکہ، یہ ہندوستان  میں انسانی حقوق  کے لیےجدوجہدکی ہماری پرعزم وابستگی کے انجام کونشان زد نہیں کرتا ہے۔ ہم یہ طے کرنے کے لیے پوری طرح سے کام کر رہے ہیں کہ کیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل آنے والے سالوں  میں ہندوستان  میں انسانی حقوق کی تحریک کے اندر رول  نبھا سکتا ہے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘ایمنسٹی تحریک  کو ہندوستان  میں ہمارے بہترین معاونین کے ذریعے خطروں کا سامنا کرنے کے باوجود کیے گئے اہم  کاموں  پر بہت فخر ہے۔ انہوں نے دہلی تشدد اور جموں و کشمیر میں کاموں کے ذریعے حقوق  کو ان کے کاموں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی کوشش کی۔’

این ڈی ٹی وی کے مطابق، ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اویناش کمار نے کہا، ‘پچھلے دو سالوں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا پر سرکار کی لگاتار ہو رہی کارروائی کوئی اچانک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘سرکار سے شفافیت کی مانگ، دہلی فسادات  میں دہلی پولیس اور حکومت ہند  کے رول کی جوابدہی طے کرنے کی مانگ اور دہلی اور جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے ای ڈی  سمیت دوسری سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے ہمارا استحصال ہو رہا ہے۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)