فکر و نظر

ہاتھرس متاثرہ کے نام خط: اچھا کیا تم چلی گئی کیونکہ اس ملک میں کچھ نہیں بدلنے والا…

آج پھر ایک لڑکی کے ساتھ وہی ہوا، جو تمہارے ساتھ ہوا، شاید اس سے بھی خوفناک۔ ایسا لگاتار اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ گینگ ریپ کرنے والوں کو کسی بھی قانون، کسی بھی سرکار یا کسی بھی انتظامیہ  کا ڈر نہیں رہ گیا ہے۔

ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کرتے پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کرتے پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

پیاری بہن…

کیسی ہو…معاف کرنا یہ سوال پوچھنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ یہ سب اب جان کر کیا کر لوں گی!تمہیں جب چٹھی لکھ رہی ہوں تو لگا جیسے کسی ایسے کو لکھ رہی ہوں جہاں سامنے سے کوئی جواب آئےگا اور رسمی طور پرکیسی ہو سے شروعات کر بیٹھی۔

جب سے تمہارے ساتھ ہوئی حیوانیت کی خبر ملی تب سے من بےچین تھا، بس من کر رہا تھا کہ ایسا کیا کروں کہ سب ٹھیک ہو جائے، ایسا کون سا جادو کروں کہ جو تمہیں جھیلنا پڑا وہ کسی اور کو نہ جھیلنا پڑے۔سوالوں کے بھنور میں پھنستی ہی جا رہی تھی۔ اسی بیچ تم سے ملنا چاہ رہی تھی، ایک بار گلے لگانا چاہ رہی تھی۔ لیکن نہیں پتہ تھا کہ تم اس سسٹم سے لڑتے لڑتے تھک جاؤگی!

تھک جاؤگی تم ان چاروں سے لڑتے لڑتے، تھک جاؤگی تم خود کو انصاف دلاتے دلاتے، تھک جاؤگی تم اس سسٹم سے، تھک جاؤگی تم اس سماج سے، تھک جاؤگی ان کی پدری سوچ سے، تھک جاؤگی ان کے ذات پات سے…اور تھک گئیں تم اس دن…ایک طرف سورج کی پہلی کرن نکل رہی تھی اور دوسری طرف تمہاری سانسیں تھم رہی تھیں۔

اچھا کیا تم چلی گئی کیونکہ اس ملک میں کچھ نہیں بدلنے والا…تمہارے ساتھ جو ہوا، اس کے لیے چند لوگ آواز اٹھا تو رہے ہیں لیکن وہ آواز ابھی پارلیامنٹ نہیں پہنچی۔ وہ آواز اس کرسی تک نہیں پہنچی، جس کو برقرار رکھنے کے لیے تمہاری قربانی دی گئی۔

آج پھر ایک اور بہن کے ساتھ وہی ہوا جو تمہارے ساتھ ہوا، شاید اس سے بھی خوفناک۔ یہ لگاتار اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ گینگ ریپ کرنے والوں کو ڈر نہیں تھا کسی بھی قانون کا، کسی بھی سرکار کا، کسی بھی انتظامیہ  کا۔انہیں گھمنڈ ہے اپنی مردانگی پر اور انہیں گھمنڈ ہے اپنی ذات  کا۔ تم ان کے آگے کل بھی کمزور تھی اور آج بھی کمزور، یہی بتانا چاہ رہے تھے تمہیں اور تم اتنی سی بات نہیں سمجھ پائی!

کیا تم بھول گئی تھی کہ تم ایک عورت ہو! کیا تم یہ بھی بھول گئی تھی کہ تم غریب پریوار سے آتی تھی! تمہیں یہ تو یاد ہوگا ہی نہ کہ تم دلت تھی!تم کیسے بھول سکتی تھی یہ سب ،جبکہ تمہیں یہ سب اس سماج نے پگ پگ یاد دلایا ہوگا۔ تمہارے ہنسنے پر، تمہارے کھانے، تمہارے چلنے پر، تمہارے بولنے، تمہارے پڑھنے پر، تمہارے کپڑوں سے۔

بچپن میں تمہارے کھیلنے کودنے پر کیا تمہیں یہ بالکل یاد نہیں دلایا گیا تھی کہ تم ایک غریب لڑکی ہو اور اوپر سے دلت۔ پھر کیسے تم نے ان کے خلاف لڑنے کی سوچی، کیسے تمہارے من میں اپنے لیے انصاف پانے کا خیال بھر بھی آ گیا۔

کاش تمہیں پتہ ہوتا کہ خواتین کے خلاف جرم ہونے والے اعدادوشمارکیا کہتے ہیں… تب تمہیں پتہ چل جاتا کہ تم غریب اور دلت خاتون  کی پہچان کے ساتھ ایک ایسی  ریاست میں رہ رہی تھیں، جہاں حال کے دنوں میں عورتوں  کے خلاف سب سے زیادہ جرم  درج کیے گئے۔ اس میں بھی دلتوں کے ساتھ سب سے زیادہ۔ شاید تب ہی تمہیں سمجھ آ جاتا!

اگر تب بھی نہیں سمجھنا چاہ رہی تھی، تو تم پھولن دیوی کو یاد کرنا تھا۔ انہیں تو جانتی ہی ہوگی! پھولن دیوی کے ساتھ بھی وہی ہوا تھا جو تمہارے ساتھ ہوا۔ان کے ساتھ صرف چار اشرافیہ نے ہی نہیں بلکہ کئی اشرافیہ اور حکام نے ریپ کیا تھا، سسٹم نے گینگ ریپ کیا تھا۔ چھوٹی کمیونٹی سے ہونے کی قیمت انہوں نے بھی چکائی۔

لیکن ایک کام پھولن نے وہ کر دکھایا تھا جو ہر عورت کو کرنا چاہیے کیونکہ اسے اب سسٹم سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ انہوں نے آخر میں تنگ آکر فیصلہ کیا کہ برہمن وادی/ذات پات والے پدری اقتدار کے حملوں کا واجب جواب ملنا چاہیے۔آج انہیں یاد کیا جاتا ہے تو صرف ان کے اسی حوصلےکی وجہ سے، ان کے اسی غصے کی وجہ سے۔

یہ غصہ اپنے اندر ہر عورت کو بھر لینا چاہیے نہیں، تو تمہاری‘اوقات’یہ سماج ایسے ہی دکھاتا رہےگا اور تم کچھ نہیں کر پاؤگی۔ پریوار انصاف کی بھیک مانگتا رہ جائےگا۔اب چلی گئی ہو تو دیکھ رہی ہو نہ تمہاری‘اوقات’تمہارے مرنے کے بعد بھی دکھائی جا رہی ہے۔آخری بار بھی تمہیں اپنے بھائی والد اور ماں سے ملنے نہیں دیا۔

بھائی اوروالد کی تو تم ہنسی لے ہی گئی ہو، لیکن کیا تم نے اپنی ماں کی حالت دیکھی۔ وہ تمہیں ایک بار دیکھنے کے لیے انہی‘دبنگوں’کے آگے بھیک مانگ رہی تھیں، جن کے گھمنڈ کو تم چکناچور کرنا چاہتی تھی۔میں آج ایک دلت بیٹی،عورت کے ساتھ ساتھ ماں بھی ہوں۔ ہاں شاید میں تمہارا درد پوری طرح محسوس نہ کر پا رہی ہوں لیکن کوشش پوری کر رہی ہوں تمہاری جگہ اپنے آپ کو رکھنے کی، تمہاری ماں کے ساتھ اپنے آپ کو رکھنے کی۔

تبھی تو جب سے تمہارے گزر جانے کی خبر ملی،ٹھیک سے سو نہیں پا رہی ہوں۔ باربار اپنی بیٹی کو تاکنے کا من کرتا ہے۔ اسے کھرونچ بھی آ جاتی ہے تو خود کو کوستی ہوں کہ میں کہاں تھی اس وقت جب اسے چوٹ لگی، میں کیوں خیال نہیں رکھ پائی، اپنی  ممتاپر سوال کرنے لگتی ہوں۔

پھر تمہاری ماں نے تو تمہیں خون سے لت پت،برہنہ حالت میں دیکھا اور جنہوں نے یہ سب کیا ان کے بارے میں جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔جب جب پولیس کی وردی پہنے ذات پات کے نظام کو پسند کرنےوالےمردوں  اور ‘غنڈوں’ کے آگے ان کی بھیک مانگنے والی ویڈیو دیکھ رہی ہوں، نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔…اور تم چلیں ایسے لوگوں کا گھمنڈ توڑنے!

ٹوٹ گئی نہ خود ہی! بس یہی تو چاہتے تھے یہ سب! تمہیں کیا لگا تمہارا ریپ  صرف ان چار اشرافیہ نے کیا ہے اور انہیں تم اب سبق سکھاکر ہی رہو گی، تو نہیں بہن، تم یہاں پوری طرح سے غلط تھی۔تمہاراریپ بھلے ہی ان چاروں نے کیا ہو لیکن جیسے ہی تم نے انہیں سبق سکھانے کی سوچی، اپنے لیے انصاف کی امید کی ویسے ہی انتظامیہ، پولیس، سرکار، پدری سوچ سے بھرے اس پورے سماج نے تمہارا ریپ کیا ہے۔

یہ تمہارے جیتے جی ہی نہیں بلکہ تمہارے مرنے کے بعد تمہاری لاش سے بھی کیا گیا!شرم آ رہی ہے مجھے کہ میں بھی اسی سماج کا حصہ ہوں، میں بھی اس دھرم کا حصہ ہوں، جس نے ہم عورتوں  کو کمزور ثابت کیا اور کمزور بنایا۔فکر نہ کرنا اب تم جہاں گئی ہو وہاں تم محفوظ ہو۔ تم وہاں اکیلی نہیں رہو گی تمہارے ساتھ تمہاری جیسی کئی ملیں گی۔ کچھ تمہارے برابر کی ہوں گی، تو کچھ عمردراز اور کچھ تو مہینوں کی بچیاں بھی مل جائیں گی۔

ان کے بیچ میں پھولن دیوی سے ملنا نہ بھولنا، ان سے ہمت لینا نہ بھولنا اور اگر کبھی پھر اس راستے آنا تو اسی ہمت کے ساتھ آنا، نہیں تو یہ سلسلہ اسی طرح بدستور جاری رہےگا۔تم وہاں خوش رہنا۔ وہاں نہ کوئی تمہاری ذات پوچھےگا نہ کسی کو یہ مطلب ہوگا کہ تم امیر ہو یا غریب یا ایک عورت ہو۔

وہاں بیٹھ کر تھوکنا ہم پر، اس سماج پر، یہاں کے ذات پات پر، یہاں کے مردوں پر… کہ کہاں رہ رہی تھی تم اب تک! بس ایک کام اور کرنا، جب تمہارے قاتل اور ریپیسٹ وہاں پہنچے انہیں‘ایک زور کا تھپڑ لگانا، ان کے منھ پر تھوک دینا اور دکھا دینا انہیں ان کی ‘اوقات۔’

تمہاری بڑی بہن جیسی

مینا

(مضمون نگارآزاد صحافی ہیں۔)