فکر و نظر

بابری مسجد مذہب کے لیے نہیں، اقتدار حاصل کر نے کے لیے مسمار کی گئی تھی: آنند پٹوردھن

انٹرویو: ملک کے نامور ڈاکیومنٹری فلمسازآنند پٹوردھن نے 90 کی دہائی میں شروع ہوئی رام مندرتحریک  کو اپنی ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’میں درج کیا ہے۔ بابری انہدام معاملے میں خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کے مدنظر ان سے بات چیت۔

آنند پٹوردھن، بابری مسجد، رام کے نام کو لےکر چھپا ایک ریویو۔(بہ شکریہ:فیس بک/http://patwardhan.com)

آنند پٹوردھن، بابری مسجد، رام کے نام کو لےکر چھپا ایک ریویو۔(بہ شکریہ:فیس بک/http://patwardhan.com)

آنند پٹوردھن ملک  کے ڈاکیومنٹری فلسازوں میں ایک معروف  نام ہیں۔ کئی نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈ جیت چکے پٹوردھن سماجی، سیاسی  اورانسانی حقوق سے متعلق موضوعات پرفلمیں بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔سال1978 سےفلمیں بناتےآ رہے پٹوردھن کی اہم فلموں میں‘کرانتی کی ترنگیں، ضمیر کے بندی، رام کے نام،فادر، سن اینڈ ہولی وار اور جئے بھیم کامریڈ جیسے نام شامل ہیں۔

نوے کی دہائی  میں شروع ہوئی  رام مندر تحریک کو انہوں نے اپنی ڈاکیومنٹری‘رام کے نام‘میں درج کیا ہے۔ رام مندر تحریک کو کور کرنے کے لیے پٹوردھن نے تب کافی وقت  ایودھیا میں بتایا تھا۔بتادیں کہ 75منٹ کی اس فلم میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے لیے چھیڑی گئی مہم اور اس سے بھڑکے تشدد، جس کا نتیجہ بابری انہدام کے طور پرسامنے آیا، اس کودکھایاگیا ہے۔

سال1992میں ریلیز ہوئی اس فلم کو نیشنل  فلم ایوارڈ کی بیسٹ انویسٹیگیٹو فلم کے زمرے میں تو ایوارڈ ملا ہی تھا، اس کو دو انٹرنیشنل ایوارڈبھی ملے تھے۔گزشتہ  بدھ کو خصوصی سی بی آئی عدالت نے 28 سال پرانے بابری انہدام معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے تمام 32 ملزمین کو بری کر دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بابری مسجد انہدام کا واقعہ منصوبہ بندنہیں تھا۔ حالانکہ ڈاکیومنٹری بنانے کے لیے ایودھیا میں رہے پٹوردھن اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ عدالت کے حالیہ فیصلے کو لےکرمختلف  پہلوؤں پرآنند پٹوردھن سے وشال جیسوال کی بات چیت۔

بابری مسجد انہدام کو لےکر خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

‘رام کے نام’ ڈاکیومنٹری دیکھنے پر صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہ سب ایک سازش تھی۔ رام جنم بھومی کے پجاری مہنت لال داس ہی بتا رہے تھے کہ یہ لوگ جو کر رہے ہیں وہ صرف پیسہ پانے اوراقتدارمیں آنے کے لیے کر رہے ہیں، انہیں تو مذہب  سے بھی کوئی مطلب نہیں ہے۔

ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام کا پوسٹر۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/آنند پٹوردھن)

ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام کا پوسٹر۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/آنند پٹوردھن)

انہوں نے یہ بھی  بتایا کہ یہاں پر وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)کے لوگ کبھی پوجا کرنے کے لیے بھی نہیں آئے۔ یہ صرف ایک سیاسی  معاملہ ہے۔ لبراہن کمیشن کے سامنے ‘رام کے نام’ایک ثبوت کے طور پر رکھی گئی تھی۔

میں نے ایودھیا میں دیکھا کہ 20 سے زیادہ  ایسے مندر تھے جو کہتے تھے کہ رام یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا مقصدیہی تھا کہ اگر آپ وہاں رام کے جنم کو ثابت کر دیں گے تو وہاں پر چڑھاوا زیادہ آئےگا، زیادہ دان ملےگا۔ مگر وی ایچ پی  نے ایک ہی جگہ کو رام جنم بھومی مانا کیونکہ وہاں مسجد تھی۔

بابری مسجد گرنے سے پہلے میں نے ‘رام کے نام’بنائی تھی۔ 1990 میں جب میں وہاں گیا تھا تب بھی کارسیوکوں نے مسجد گرانے کی کوشش کی تھی، لیکن تھوڑی بہت توڑ پھوڑ ہونے کے بعد مسجد بچ گئی تھی۔اس دوران ریاست  میں ملائم سنگھ یادو کی سرکار تھی، جو کارسیوکوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن دوسری طرف کارسیوکوں کی جانب  سے سابق پولیس چیف تھے، جو وی ایچ پی  کے ممبر بن گئے تھے۔

پولیس ان کی مدد کرنے میں ہی لگی تھی۔ اس دن مسجد بچ گئی تھی مگر کچھ لوگ مارے بھی گئے تھے۔ 2014 میں کوبرا پوسٹ نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا تھا، جس میں انہوں نے بابری کو گرانے والے کئی ملزمین  کے خفیہ کیمرے سے انٹرویو کیے تھے۔

اس ویڈیو میں کارکن کھل کر بول رہے تھے کہ انہیں پتہ تھا کہ اگر ان کے کچھ لوگ مارے جا ئیں گے تو اور بھی اچھا ہوگا۔ان کا ماننا تھا کہ اگر پولیس کی گولی باری میں کچھ جانیں گئیں، تو اس کا فائدہ ملےگا اور 1990 میں یہی ہوا۔ انہوں نے اپنے ہی کارسیوکوں کو جان بوجھ کر مروایا۔

کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد انہدام کے بعد ہمارا سماج زیادہ فرقہ پرست ہوا ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟

میں نے جب ‘رام کے نام’بنائی تھی، تب کم سے کم غریب، مظلوم  اورمحروم طبقہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی گڑبڑ ہو اور اسے مندر سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ہم جب ایودھیا گئے تھے تب لوگ کہتے تھے کہ ہم تو ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کی شادی میں جاتے ہیں،تمام  چیزیں ایک ساتھ کرتے ہیں۔ ہمارے بیچ کوئی دنگافساد نہیں ہوتا ہے لیکن باہر کے لوگ آکر یہ سب کروا رہے ہیں۔

اس وقت ایسے جذبات تھے کہ باہر کے لوگ آکر ماحول خراب کر رہے ہیں۔ حالانکہ آج حالات  بدل چکے ہیں۔میں کہوں گا کہ فرقہ پرست  ہونے سے زیادہ اکثریت کا نشہ چڑھ گیا ہے۔ ابھی فرقہ وارانہ  دنگے نہیں ہوتے ہیں بلکہ پوگرام [Pogrom-کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ بناکر ہونے والا قتل عام]ہوتے ہیں۔ کچھ ہوتا ہے، تو مسلمان زیادہ مارے جاتے ہیں۔

آپ چاہے 2002 کو دیکھ لیجیے، 1984 دیکھ لیجیے یا پھر اس سال جو دہلی میں ہوا وہ دیکھ لیجیے۔ اقلیت زیادہ مارے گئے ہیں اور مارا کس نے ہے وہ ہم جانتے ہیں۔

‘رام کے نام’بنانے کے دوران ہم نے دیکھا تھا کہ وہاں بہت سے اکھاڑے تھے۔ وہاں کشتی وغیرہ کے ساتھ ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ یہ اکھاڑے بہت پہلے سے ہیں کیونکہ وہاں بابری مسجد کو لےکر ہندو مسلم کا جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

حالانکہ، یہ جھگڑے شیو اور ویشنو فرقے میں ہوتے تھے۔ شیو اور ویشنو میں ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی۔ آج کا ہندوتوا بنانے میں انہوں نے اس معنی  میں کامیابی حاصل کی ہے کہ شیو اور ویشنو کو ایک کیا ہے اور ان کا دشمن صرف مسلمان ہے۔

آج لوگوں میں یہی تصور بن گیا ہے کہ مسلمانوں نے جو ہمارے ساتھ 500 سال پہلے کیا ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ گاؤں میں آج بھی یہ اتنی گہرائی میں نہیں پہنچا ہے لیکن شہروں اور متوسط طبقے کےلوگوں میں یہ بہت گہرائی تک بس گیا ہے۔

خصوصی سی بی آئی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد انہدام کے لیےملزم32رہنما نہیں بلکہ غیرسماجی عناصر ذمہ دار ہیں۔ آپ کا کیا کہنا ہے؟

اگر عدالت کہہ رہی ہے کہ یہ کام غیرسماجی عناصر نے کیا تو اس کا مطلب ہے کہ پورا سنگھ پریوار غیرسماجی ہے۔ انہوں نے ہزار بار بیان دیا ہے کہ مندر وہیں بنائیں گے۔ اس فیصلے کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا راج  ختم ہو چکا ہے۔ ہم ہندو راشٹر بن چکے ہیں۔ جو اقتدارمیں ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کریں گے سب چلےگا۔

سنگھ پریوار کی منصوبہ بندی  کی شروعات پرانی ہے۔ 1990 میں‘رام کے نام’بناتے وقت ہم نے ان مہنت کا انٹرویو لیا تھا، جنہوں نے خود اپنے ہاتھ سے 1949 میں ایک اندھیری رات میں مسجد میں گھس کر رام مورتیاں رکھی تھیں۔ ایودھیا کے ضلع مجسٹریٹ  نے مورتی ہٹانے سے انکار کیا اور بعد میں جاکر سنگھ کے ممبر بن گئے۔

اس کے بعد وی ایچ پی  نے بھیے پرکٹ کر پالا نام’سے ایک ویڈیو بھی بنوایا تھا، جس میں ایک چار سال کا بچہ بھگوان رام کی ایکٹنگ کرکے مسجد میں اچانک نمودار ہوتا ہے۔ اس کو‘منصوبہ بندی’ نہیں تو کیا کہیں گے؟دسمبر 1992 میں مسجد گرانے کا واقعہ تقریباً نو گھنٹے تک چلا۔ مکمل واقعہ  کیمرے میں قید ہواہے۔ یہ تمام(ملزم رہنما) وہاں موجود تھے۔ آپ تصویریں دیکھیے کہ وہ کیسے ہنس رہے ہیں۔

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

سال1989میں وی ایچ پی نے راجیو گاندھی کو دھوکہ دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ صرف سنگ بنیاد ڈالناچاہتے تھے جس کی اجازت راجیو گاندھی نے دی تھی۔ 6 دسمبر کے لیے انہوں نے کہا کہ وہاں وہ صرف جا ئیں گے اور کچھ توڑ پھوڑ نہیں کریں گے۔

ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ان کے لوگ قابو میں نہیں ہیں، آر ایس ایس سے زیادہ ہمارے ملک میں(کارکنوں پر) قابو رکھنے والی کوئی تنظیم  نہیں ہے۔

ہندوستان  کا آئین سیکولرازم کی بات کہتا ہے، آج کے سماج میں اسے کہاں پاتے ہیں؟

میں نے جو ریسرچ کیا تھا اس کے مطابق1857 میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کے مطابق اس احاطہ  میں مسلم نماز ادا کر سکتے تھے اور ہندو پوجا کر سکتے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کا ذکر ہے۔

یہ سمجھوتہ ہندوؤں کی جانب  سے بابا رام چرن داس اور مسلمانوں کی جانب  سے اس وقت کے ایک رئیس مسلم اچھن میاں نے کرایا تھا۔

سال1857کا مطلب ہے کہ آزادی کی پہلی لڑائی جب ہندو اور مسلمان دونوں انگریزوں کے خلاف متحد ہوکر لڑ رہے تھے۔ انگریز جب اس لڑائی کو جیت گئے، تب انہوں نے بابا رام چرن داس اور اچھن میاں دونوں کو پھانسی دے دی۔

وہی کام ہم آج کر رہے ہیں کہ جو لوگ سیکولر ہیں، ہندو مسلم اتحاد اورشہری حقوق  کے لیے لڑ رہے ہیں، انہیں جیل میں ڈالا جا رہا ہے جبکہ جو لوگ اس ملک  کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کو بگاڑنے میں لگے ہیں، اقلیتوں  کوہراساں  کر رہے وہ آج اقتدار میں ہیں۔

سال1990میں ایک نعرہ چلتا تھا ‘کن کن میں ویاپے ہیں رام،’ یعنی رام کسی ایک اینٹ یا ایک مندر میں نہیں، ہر چیز میں ہیں۔ اب انہوں نے اس کے پورے تصورکو بدل ڈالا ہے۔

بابری انہدام کے بعد جب اتر پردیش میں بی جے پی کی سرکار اقتدارمیں آئی تب اس نے پجاری لال داس کی سکیورٹی  ہٹا دی اور پھر ان کا قتل ہو گیا۔ گاندھی جی کا قتل ہوااور ایسے ہی سیکولرملک کے لیے لڑنے والے کئی اور لوگ مارے گئے۔

آپ ان قاتلوں  کا موازنہ کسی بھی مذہبی شدت پسند گروپ  سے کر سکتے ہیں لیکن میں انہیں دہشت گرد ہی کہوں گا۔

کیا لگتا ہے کہ بابری مسجد انہدام معاملے کو آگے لے جایا جانا چاہیے؟ کیا متاثرہ فریق انصاف  کی امید کر سکتے ہیں؟

مسلمان تھک گئے ہیں، ڈر گئے ہیں، اب وہ یہ جھنجھٹ نہیں چاہتے ہیں۔ عدالت میں اگر آگے معاملہ جاتا ہے تو سی بی آئی کس کے ہاتھ میں ہے؟ جب ملزم فریق  ہی ان کی طرف ہے توکیس پر فرق کیسے پڑےگا۔عدالتوں پر بھی اقتدارکا پورا پورا دباؤ دکھتا ہے۔ اہم  مدعوں پر ایک بھی فیصلہ لوگوں کےحق میں نہیں آیا ہے۔ جیسے امریکہ میں کووڈ 19 کے باوجود لوگ لڑنے سڑکوں پر اتر گئے ویسے ہی ہمیں بھی اترنا پڑےگا۔

انٹرنیٹ پر دباؤ بنانے سے کچھ نہیں بلکہ انٹرنیٹ پر ہمارا دباؤ کم ہے اور ان کا دباؤ زیادہ ہے۔ وہ لوگ ابھی انٹرنیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کئی بار میری ہی فلموں کو ایک طرح سے بین کر دیا یا عمر سے متعلق پابندی  لگا دی تاکہ اسے کم لوگ دیکھیں۔

ملک  کی موجودہ سیاست کے لیے کہیں نہ کہیں رام مندر تحریک کو بنیاد مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی کے سہارے موجودہ قیادت کی زمین بنی۔ آپ اس پوری تحریک اور واقعات کوکیسے دیکھتے ہیں؟

ان کی دلیل ہے کہ رام مندر توڑکر بابری مسجد بنائی گئی تھی جبکہ جب بابری مسجد بنی، تب رام مقبول  ہی نہیں تھے۔ بابری کی تعمیر سے پہلے تو شیو اور دیگر مندر بنتے تھے۔

اصل رامائن والمیکی نےسنسکرت میں لکھی تھی، جسے بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ رام مندر کی مقبولیت کا دور تلسی داس کی  لکھی رام چرترمانس سے شروع ہوا اور یہی وہ وقت تھا جب بابری مسجد کی تعمیر ہوئی  تھی۔ اس کے بعد ہی رام مندر بننے شروع ہوئے۔ سب سے زیادہ  گہرائی میں جانے والے آثار قدیمہ کے ماہرین  کو وہاں بودھ دھرم سے متعلق آثار ملے تھے۔

(فوٹو بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری رام کے نام/ویڈیوگریب)

(فوٹو بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری رام کے نام/ویڈیوگریب)

اس سے پہلے جتنے بھی فیصلے آئے وہ اتنے غلط تھے کہ ہر فیصلے کے بعد میں حیران  رہ گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بھگوان رام یعنی رام للا خود ایک فریق  ہیں اور انہوں نے اپنا ایک وکیل چنا ہے۔ بھگوان خود زمین پر آکر کیس لڑ رہے ہیں اور وہ رام للا کی ملکیت ہے۔ بھگوان کی ملکیت اگر اس دنیا میں ہو جائےگی تو ملکیت کا مطلب کیا رہ جائےگا۔

ابھی متھرا میں بھی ایک عرضی دائر کی گئی تھی کہ بھگوان کرشن کی ایک ملکیت ہے۔ ایک سیکولر ملک، جس میں ہمارا آئین  ہمیں سیکولر کہتا ہے، میں بھگوان کا درجہ اتنا گرا دیا کہ بھگوان زمین کا جھگڑا کر رہے ہیں!

رام کے نام’ کو لےکر ہوئے کچھ تجربے بتانا چاہیں گے

‘رام کے نام’جب بنی تب ہم نے اسے دوردرشن پر دکھانے کی بہت کوشش کی۔ تب بی جے پی  کی نہیں، کانگریس اور اس کے بعد وی پی سنگھ کی مشترکہ  محاذکی سرکاریں تھیں لیکن کسی نے نہیں سوچا کی ایسی فلم کو لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔

اگر انہوں نے سوچا ہوتا کہ ہمارے ملک میں جو چل رہا ہے اور ایسی فلم چل جائےگی تو نفرت کم ہو جائےگی اور لوگوں کو سمجھ میں آ جائےگا کہ یہ پیسے اور اقتدار کے لیے کیا جا رہا ہے۔اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ساری سیکولر سرکاریں آئی گئیں لیکن فلم نہیں دکھائی گئی۔

آخرکار، عدالت کے فیصلے کی وجہ سے ایک بار دوردرشن پر فلم آ پائی۔ وہ بھی بابری مسجد ٹوٹنے کے چار پانچ سال بعد۔ہم اپنے ملک میں سیکولراقدارکو بڑھاوا نہیں دیتے ہیں۔ وہ ہماری فلموں کو دبا دیتے ہیں جبکہ ہر طرح کی  ضعیف الاعتقادی  ٹی وی پر چلتی ہے۔ لوگوں کا ذہن برباد کر رہے ہیں۔

اس کے لیےصرف بی جے پی ذمہ دار نہیں بلکہ سیکولر لوگوں نے بھی اسے بڑھاوا نہیں دیا۔ کیرل اور بنگال میں لیفٹ  کی سرکاریں تھیں لیکن انہوں نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔