عالمی خبریں

ٹویوٹا اور ہار لے: کیا ہندوستان میں ٹیکس اور ادارہ جاتی مانگ کو لے کر مشکلات درپیش ہیں؟

موجودہ اقتصادی تناظر میں ہندوستان عالمی کمپنیوں کے لیے نسبتاً کم کشش کابازار بن رہا ہے، جس کے اسٹرکچرل طور پر ٹھیک ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ کئی عالمی  برانڈ ہندوستان میں یا تو بڑے  پیمانے پر سرمایہ کاری کو کم کرنا چاہتے ہیں یا معیشت  کو دیکھتے ہوئے مزید توسیع  کے لیے سرمایہ کاری  نہیں کر رہے ہیں۔

ہارلے ڈیوڈسن اور ٹویوٹا کا لوگو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Flickr)

ہارلے ڈیوڈسن اور ٹویوٹا کا لوگو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Flickr)

کیا ایک ارب سے زائدصارفین  والامعروف ہندوستانی بازار(منڈی)اب بھی غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے اتنا ہی پرکشش ہے جتنا پہلے لوگوں نے مان رکھا تھا؟پچھلے کچھ وقت سے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اشیا اورخدمات  کی مانگ کم ہی رہی ہے۔ انڈین  ریزرو بینک(آر بی آئی)کے اندازے کے مطابق صنعت  میں کل صلاحیت کا استعمال(متعینہ مدت میں ملنے والی مکمل پیداواری صلاحیت کا فیصد)گرکر لگ بھگ 65 فیصدی پر آ گیا ہے اور یہ صورتحال کووڈ 19وبا کے آنے سے بہت پہلے کی ہے۔

ظاہر ہے کہ کووڈ 19کے بعد صلاحیت کے استعمال میں پہلے کےمقابلے کافی زیادہ گراوٹ آئی ہے۔ اس لیے کووڈ 19 کےاثرات  کے بعداصلاحات  کا مطلب وبا سے پہلےگزشتہ سال کی بگڑی ہوئی معیشت میں جانا ہوگا۔یہ ادارہ جاتی  مانگ کے بحران کا مظہرہے جو کہ پچھلے 7-10سالوں سے بنی ہوئی ہے۔ یہ صاف ہے کہ ہندوستان متوسط طبقہ کے اکثر حصوں کے بیچ ان کی آمدنی کے ذریعے خاطر خواہ مقدار میں نئے مانگ کو نہیں بڑھا پا رہا ہے۔

اس بحران  کے بارے میں ماہرین اقتصادیات، مثلاًوزیر اعظم کےاکانومک ایڈوائزری کونسل(پی ایم ای اے سی)  کےسابق ممبر رتھین رائے نےجامع طور پربتایاہے۔کیا اس کاتعلق سست ہندوستانی بازار،بالخصوص کم ضروری سیکٹر کو لےکرغیرملکی  کمپنیوں کی جانب سے ظاہر کی جا رہی مایوسی سے ہے؟

غیرملکی کمپنیوں کو اکثر ہندوستان کے بازاروں میں کام کرنا مشکل لگتا رہاہے۔ ان میں سے اکثر شروعاتی سالوں  میں اس امید میں پیسہ گنوا دیتے ہیں کہ آگے چل کر اچھی کمائی ہونے پر شروعاتی نقصان کی بھرپائی ہو جائےگی۔

ہندوستانی بازار کی جانب سے عالمی کمپنیوں کو متوجہ  کرنے کے دعوے پر دو حالیہ مثالیں سوالیہ نشان کھڑی  کرتی ہیں، بالخصوص لگزری والے سیکٹر میں۔ ٹویوٹا موٹر کارپوریشن نے کہا ہے کہ وہ ہندوستان میں توسیع  کے لیے سرمایہ کاری  نہیں کرنا چاہیں گے۔

اس کے دو ہفتہ کے بعد لگزری بائیک بنانے والی عالمی  کمپنی ہارلے ڈیوڈسن نے مودی سرکار کو ایک اور جھٹکا دیا اور کہا کہ وہ ہندوستان سے واپس جا رہے ہیں اور مینوفیکچرنگ کے کام کو بند کر رہے ہیں۔بی بی سی نیوز نے کہا کہ ہارلے ڈیوڈسن کی جانب سےکمپنی بند کرنا ‘ہندوستانی وزیر اعظم  نریندر مودی کے غیرملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ  کرنے یا بنائے رکھنے کی کوشش کے لیے ایک شدیدجھٹکا ہے۔’

ٹرمپ اور مودی کی بات چیت

ہار لے کےہندوستان میں مینوفیکچرنگ بند کرنے کے فیصلے میں سب سے بڑا معمہ  یہ ہے کہ پی ایم نریندر مودی نے 2018 میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وذاتی طور پر یقین  دلایا تھا کہ ہندوستان ہار لے کے لیے ایک خصوصی معاون  کے طور پردرآمدات ڈیوٹی کو کم کرےگا تاکہ وہ ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کے لیے کم لاگت میں کٹس کی درآمدات کر سکیں۔

ٹرمپ کے لیے ہارلے ڈیوڈسن پر ہندوستانی درآمدات کی ڈیوٹی کوکم کرنا، امریکہ کے ساتھ گہرے تجارتی  اور سرمایہ کاری تعلقات  کےلیے کمٹ منٹ کے اظہارکےلیے ہندوستان کاامتحان  تھا۔حالانکہ ہارلے ڈیوڈسن اپنے کٹس پر درآمدات فیس75 فیصدی سےگھٹاکر 50 فیصدی کرنے سے خوش نہیں تھا۔ ٹرمپ بھی واضح طور پرڈیوٹی  میں کمی سے ناخوش تھے اور چاہتے تھے کہ ٹیرف کو صفر پر لایا جائے۔

ٹرمپ دیگر تجارتی مدعوں کو درکنار کرتے ہوئے مودی کے ساتھ اس مدعے کو اٹھاتے رہے، جو شاید کہیں زیادہ اہم  تھے۔ حالانکہ دو ممالک  کےرہنماؤں کی اتنی ذاتی توجہ حاصل  کرنے کے بعد بھی ہارلے ڈیوڈسن ہندوستان میں اپنی دکان بند کر رہا ہے۔

آخر کیوں امریکہ کی بائیک کمپنی دنیا کے سب سے بڑے بائیک بازار سے ہٹ رہی ہے؟ایک وجہ تو ہے کہ یہ نان گلوبلائزیشن پروسس ہے، جہاں دنیا کے اہم  برانڈ کووڈ 19 کے بعد اپنےاہم  بازاروں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ مانگ میں ہر طرف سے کمی آئی ہے۔

اس سے زیادہ اہم وجہ واضح طور پریہ ہے کہ ہندوستان موجودہ اقتصادی حالت  میں عالمی کمپنیوں کے لیے نسبتاً کم کشش کابازار بن رہا ہے، جس کے اسٹرکچرل  طور پر ٹھیک ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔

کئی غیرملکی کمپنیوں کو لگتا ہے کہ ہندوستان میں نموکی موجودہ حالت  کو دیکھتے ہوئے ان کی کوششیں یہاں ملنے والے کسی فائدے کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ احساس پچھلے 7-8 سالوں  میں تیز ہوا ہے جب اضافہ، آمدنی اور کھپت مستحکم  ہو گئے ہیں۔

اقتصادی نمومیں تھوڑا بہت اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ ایک یا دو سال سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ اس کا گھریلو اور غیرملکی  دونوں سرمایہ کار بہت باریکی سےتجزیہ کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹرکی جانب سے شاید ہی کوئی نیا گرین فیلڈ انویسٹ منٹ  کیا جا رہا ہے۔ حال کے دنوں میں کمپنیوں کے بیانات  میں مایوسی  کا بھی سراغ  لگایا جا سکتا ہے۔

ٹویوٹا نےبھی کہا تھا کہ وہ ہندوستان میں اپنے کام کو بڑھانا نہیں چاہتے ہیں، حالانکہ سرکار کی جانب  سے بعض یقین دہانیوں کے بعد اس نے اپنے اس بیان پر دوبارہ غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں مینوفیکچرنگ بالخصوص آٹو سیکٹر میں، جس کو ترقیات کی گھنٹی کےطور پر دیکھا جاتا ہے، کووڈ 19 کے دنیا میں دستک دینے سے پہلے ہی اپنی صلاحیت سے نیچے چل رہا تھا۔

آپ صلاحیت کی توسیع  کیسے کر سکتے ہیں جب موجودہ صلاحیت  کا استعمال آٹو سیکٹر میں صرف50-60 فیصدی پر ہی ہے۔کئی بڑے عالمی برانڈ ہندوستان میں یا تو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کوکم کرنا چاہتے ہیں یا معیشت میں مانگ کو دیکھتے ہوئے مزید توسیع  کے لیے سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔

ٹیکس اور ریگولیٹری مسائل  سے مایوسی

کچھ لوگ ٹیکس لگانے اور اسی طرح کے دیگرریگولیٹری مسائل  سے بھی مایوس ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ٹویوٹا اور ہارلے ڈیوڈسن کو بھی شکایت کرنی پڑی۔ہندوستان کے دو سب سے بڑے سرمایہ کاروں  ووڈافون اور برٹش پیٹرولیم نے 2500 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی  ہے، لیکن انہیں صفر رٹرن ملا ہے۔ بلکہ، انہوں نے اپنی  پوری  سرمایہ کاری کا نقصان بتایا ہے۔

ایک غیر منافع بخش اور زیادہ ٹیکس  کے اپنے نتائج  ہوتے ہیں– چاہے کچھ خاص طرح  کی کار یا بائیک (ٹویوٹا اور ہارلے ڈیوڈسن)کی مانگ کم ہونا ہویاسرکارکابین الاقوامی ثالثی کے نتائج،جو کھونے لائق ہی تھے، کو نامنظور کرنا۔ (ووڈافون)۔

یہ تجربہ دیگر سرمایہ کاروں  کو بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں پیسہ کمانا آسان نہیں ہے۔ کچھ سالوں  تک کمپنیوں کے تجربے کے بعداب 130 کروڑ لوگوں کے ایک باصلاحیت بازار ہونے کا بھرم ٹوٹنے لگتا ہے۔ اور ساتھ ہی، اسٹرکچرل مسائل ہیں جس کی وجہ سے اس طرح کا منفی احساس بڑھ رہا ہے۔

ہندوستان کا یہ دعویٰ کہ وہ ہر 6-8 سالوں میں اپنی جی ڈی پی دوگنی کر رہا ہے، اب صحیح معلوم  نہیں ہوتا ہے۔نریندرمودی سرکار کچھ سالوں  سے گرین فیلڈ سرمایہ کاروں  کو متوجہ کرنے کے لیے جدوجہدکر رہی ہے۔ پچھلے سال اس نے نئے سرمایہ کاروں کے لیے کارپوریٹ ٹیکس  کی شرح  کو 15 فیصدی گھٹا دیا تھا، جو دنیا میں سب سے کم ٹیکس میں سے ہے۔

سرکار نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ نئے گھریلوسرمایہ کاروں  کومتوجہ  کرنے کے لیے‘ہائر اینڈ فائر’کی پالیسی، یعنی مالک کے ذریعے مزدوروں کو نوکری سے نکالنے میں چھوٹ دیناکو آسان بنانے کے لیے لیبر قانون میں بڑی  تبدیلیاں  پیش کی ہیں۔

پھربھی ہارلے ڈیوڈسن جیسی کمپنیاں ہندوستان میں اپنے مینوفیکچرنگ کو بند کر رہی ہیں۔اس پرسنجیدگی سے غوروخوض کی ضرورت ہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)