فکر و نظر

مخالفین سازش کے تحت ہندوستان میں پیدا ہو ئے ہیں ،تاکہ وہ حکومت کی مخالفت کر سکیں…

عوام  کی ہر مخالفت کو جرم ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں ہے جب حکومت ہندوستانیوں کو یہ بتائےگی کہ ان کا بےروزگاری کے خلاف بولنا، کسانوں کا حکومت کے خلاف کھڑا ہونا، سب کچھ بین الاقوامی سازش ہے۔ ہندوستان میں پیدا ہونے کوبھی ایک سازش قراردیا جا سکتا ہے۔

ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے لیے نئی دہلی میں منعقدایک مظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے لیے نئی دہلی میں منعقدایک مظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ہم بھیما کورےگاؤں3 میں داخل ہوچکے ہیں۔ اتر پردیش حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان میڈیا نے زور شور سے پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے کہ ہاتھرس میں دلت لڑکی کے ساتھ ہواتشدد اور اس کی موت کے بعد پورے ملک میں جو مظاہرےہو رہے ہیں، وہ ایک سازش کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ سازش ہے اتر پردیش میں ذات پر مبنی  فسادات  بھڑ کانے کی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ہاتھرس کی پولیس نے اس سلسلے میں ایک نہیں، 20 سے زیادہ ایف آئی آردرج کی ہیں۔یہ ایف آئی آر جونامعلوم  لوگوں کے خلاف ہیں، دعویٰ کرتی ہیں کہ اس نے ایک بین الاقوامی سازش کا پتہ کیا ہے جو ہاتھرس کے تشدد کی آڑ میں ریاست  میں ذات پر مبنی فسادات  بھڑ کانے اور اتر پردیش کی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے کی جا رہی تھی۔

حکومت کے حامی  ٹی وی چینل یہ‘سنسنی خیز’ پردہ فاش کر رہے ہیں کہ اس سازش میں ایمنسٹی انٹرنیشنل شامل ہے۔ پاپولرفرنٹ آف انڈیا اور سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کو بھی سازش میں شامل بتایا جا رہا ہے۔یاد کر لینا مناسب ہوگا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کو حکومت ہند کی ہراسانی کی وجہ سے اپنا کام بند کر دینا پڑا ہے۔

ایمنسٹی پوری دنیا میں ہیومن رائٹس کے لیےغیرجانبدارانہ آواز اٹھانے کے لیے معروف ہے۔ وہ ایران میں ہو یا ترکی میں، جو مسلمان اکثریت ملک ہیں اور جہاں کااقتدار ایک طرح کے اسلامی نظریات کے دست نگرہے، ایمنسٹی نے حکومت کےناقدین پر ہونے والے جبرکی مسلسل مخالفت کی ہے۔

روس میں بھی، جو ایک طرح کی تاناشاہی ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت کے جمہور مخالف رویےکی تنقید کی ہے اور انسانی حقوق  کی پامالی کی کارروائی پر آواز اٹھایاہے۔وہ پاکستان میں اقلیتوں پر ہراسانی کی مخالفت کرتی  رہی ہے۔ چین کی تاناشاہی اور ویگر مسلمانوں کے اقتدار کے جبرکی بھی ایمنسٹی نے تنقیدکی ہے۔ میانمار میں روہنگیا کمیونٹی  کے جبر کی تنقید ایمنسٹی نے کی ہے۔

ایمنسٹی ان اولین اداروں  میں تھا، جس نے سری لنکا میں تمل ہندوؤں پر حملوں اور جبر کی تنقید کی۔ اس مختصر سی فہرست  سے یہ واضح  ہو جاتا ہے کہ ایمنسٹی، کوئی بھی ملک ہو اور کوئی بھی حکومت ہو، اگر وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے میں شامل  ہیں تو وہ آواز اٹھاتا ہے۔

اس کی بین الاقوامی شہرت اور وقارکی وجہ سےاس کی تنقید سے حکومتوں کا گھبرانافطری ہے۔ یہ بہت مزے کی بات ہے کہ ظلم کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کرنے والی حکومتیں انسان دوست نظر آنا چاہتی ہیں۔انہیں جبر اور تشدد سے کوئی پرہیز نہیں، لیکن وہ چاہتی ہیں کہ انہیں رحم دل اور عوام کا نمائندہ مانا جائے۔ ایمنسٹی جیسے ادارے ان کی اس امیج  میں پر ہاتھ رکھ کر انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔

ظاہری  طور پر وہ اپنی سچائی کو ملک کے باہر نہیں جانے دینا چاہتے اس لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو کام کرنے سے روکنا ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل پر ہرتاناشاہی حکومت وہی الزام لگاتی ہے جو آج ہندوستان میں حکومت حامی میڈیانے لگایا ہے۔ روس میں اس کا کام کاج بند کر دیا گیا ہے۔

چین میں وہ کام نہیں کر سکتا۔ ترکی نے ایمنسٹی چیف اور دو سینئر حکام کو جیل بھیج دیا ہے۔ نائجیریا میں حکومت حامی یاحمایتی  بھیڑ نے ایمنسٹی کے دفتر پر حملہ کیا۔ مراکش میں بھی یہی ہوا۔ہندوستان میں حکومت کی الگ الگ ایجنسیوں نے طرح طرح کے الزام لگاکر اور اس کا بینک اکاؤنٹ بند کرکے کام کرنا ناممکن کر دیا ہے۔ وجہ سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے۔

ایمنسٹی نے ابھی کچھ دن پہلے رپورٹ جاری کی اور دہلی میں فروری میں ہوئےتشدد میں دہلی پولیس کی ملی بھگت کے ثبوت پیش کیے۔ اس سے پہلے اس نے کشمیر میں حکومت ہندکے جبروتشددکو لےکر بھی رپورٹ جاری کی تھی۔

ایمنسٹی کے دہائیوں کے کام کی صداقت کی وجہ سے اس کی ان رپورٹس نے حکومت ہندکو دنیا کے سامنےشرمندہ کیا ہے۔ وہ ایمنسٹی کو ہراساں کرکے انتقام  لے رہی ہے۔اتر پردیش میں ہاتھرس کی پولیس اور انتظامیہ  نے جو کیا ہے وہ بھی پوری دنیا نے دیکھا۔ عام طور پر تشدد کے شکار لوگوں کے لیےحکومت کی ہمدردی ہونی چاہیے، یہ مانا جاتا ہے۔

ہاتھرس میں اس کے ٹھیک برعکس ہوا۔ حکومت کے  محکموں نے ایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے میں لگا دیا کہ ریپ  کا الزام جھوٹا ہے۔سینہ زوری کا عالم یہ تھا کہ ماری گئی لڑکی کے گھروالوں سمیت پورے گاؤں کی ناکہ بندی کر دی گئی اور انتظامیہ فیملی کو طرح طرح سے دھمکی دینے لگی کہ وہ اس کے مطابق بیان دے۔ یہ سب کچھ سب نے سنا اور دیکھا۔

ہاتھرس کےتشدد کے خلاف کیوں اتر پردیش اور ہندوستان بھر میں مظاہرہ ہوا؟ کیوں اور ریپ  کے واقعات کے بعد مخالفت نہیں ہوئی؟اس کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ ایک بات تو انتظامیہ  اور پولیس کی بدسلوکی اور بے حسی  کا حد پار کر جانا ہو سکتا ہے۔

دوسرا، طرح طرح کے جبر کو جھیلتے ہوئے اس کے خلاف جمع غصے کا اس بہانے پھوٹ پڑنا! جیسے دہلی میں 2012 میں ایک ریپ کے خلاف پھوٹ پڑے غصے کی کوئی ایک توضیح نہیں کی جا سکتی۔اس وقت حکومت نے مظاہرین  کااستقبال بھلے نہ کیا ہو، لیکن اس نے ان پر یہ الزام  نہیں لگایا تھا کہ وہ ایک سازش کے تحت حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ جائز مانا گیا تھا کہ عوام  مخالفت کرے۔

وہ ریپ  کا محض ایک واقعہ نہیں تھا لیکن اس مظاہرہ  کو بدنام کرنے کی کوشش حکومت کی طرف سے نہیں کی گئی تھی۔ میڈیا نے بھی مخالفت کا ساتھ دیا تھا۔ہاتھرس کے تشدد کے معاملے میں حکومت اور میڈیا کا رخ ٹھیک الٹا ہے۔ وہ پہلے تو تشدد کی نوعیت  کو ہی کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، دوسرے اس کے خلاف عوام کی مخالفت کو ایک بین الاقوامی سازش ٹھہرا کر مخالفت کو ہی جرم میں بدلنے کی قانونی کوشش کر رہی ہے۔

جیسا ہم نے کہا یہ بھیما کورےگاؤں ماڈل کا تیسراتجربہ ہے۔ 31 دسمبر،2017 کو پونے کے قریب دلتوں نے ایلگار پریشد نام کا  ایک تقریب کیا۔وہاں سے جب وہ لوٹ رہے تھے، ان پر حملہ کیا گیا۔ ایک شخص کی موت ہوئی۔حملے کاالزام  دو سمبھا جی بھڑے اور ملند ایکبوٹے نام کے دو لوگوں پر لگا، جن کا تعلق  بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی  نظریات  سے ہے۔

ان کے خلاف قاعدے سے جانچ کرنے کی جگہ پولیس نے ایک دوسری ہی کہانی بناڈالی۔ اس کے مطابق ایلگار پریشد کا انعقاد ہی ایک سازش تھی جس کا ارادہ ذات پر مبنی تشدد بھڑ کانے کا تھا۔پہلے پونے پولیس اور بعد میں این آئی اے نے اس سازش کی جانچ شروع کر دی۔ کہا کہ یہ ایک لمبی اور گہری سازش تھی جس کے تحت ایلگار پریشد کا انعقاد کیا گیا تھا۔

اس نے ملک بھر میں چھاپہ مارنا شروع کیا اور سدھا بھاردواج، رونا ولسن، مہیش راؤت،ورنن گونجالوس، سریندر گاڈلنگ، شوما سین، ورورا راؤ، گوتم نولکھا، آنند تیلتمبڑے، ہینی بابو جیسے وکیلوں،کارکنوں اوردانشوروں اور اب کبیر کلا منچ کے فن کاروں  کو گرفتار کر لیا۔

اس کا الزام  ہے کہ یہ سارے لوگ ایک بڑی سازش میں شامل تھے جس کا مقصد اس تشدد سے بھی زیادہ سنگین تھا جو ایلگار پریشد کے بعد ہوا۔ اس کا الزام  ہے کہ ان کا ارادہ وزیر اعظم کے قتل  تک کا تھا۔این آئی اے کی‘جانچ’جاری ہے اور وہ ہر طرح کے کارکنوں اور بایاں محاذکے دانشوروں سے پوچھ تاچھ کا دائرہ بڑھاتی جا رہی ہے۔

ایلگار پریشد کے بعد کاتشدد بھلا دیا گیا ہے اور اس کےملزم کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ عدالتوں کو بھی اس سے کوئی اعتراض نہیں۔بھیما کورےگاؤں ماڈل کو آزمایا جا رہا ہے دہلی میں۔ دسمبر سے پورے ملک میں اور دہلی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔ اس کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے تشدداور نفرت کی مہم شروع کی۔

اپنے حامیوں کو سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں کے خلاف بھڑکایا گیا۔ آخرکار فروری میں تشدد ہوا جس میں نشانہ مسلمان تھے۔جیسا ایمنسٹی کی جانچ سے معلوم ہوا اور اس کے پہلے بھی کئی صحافیوں نے اجاگر کیا، دہلی پولیس نے بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد میں حصہ لیا۔ پولیس پروجیکٹ نے یہ بھی اجاگر کیا کہ کس طرح پولیس جھوٹے ثبوت گڑھ رہی ہے۔

لیکن تشدد کے بعد پولیس نے سازش کی ایک کہانی گڑھ لی ہے۔ وہ گویا بھیما کورےگاؤں‘جانچ’کو ہی دوہرا رہی ہے۔پولیس نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں پر ہی الزام لگایا ہے کہ وہ ایک گہری اور لمبی سازش کر رہے تھے کہ حکومت کو بدنام کیا جائے اور اسے اس قانون کو واپس کرنے پر مجبور کیا جائے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تشدد اگر نہیں بھی ہوتا تو بھی اس سازش کی نوعیت  کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ اس سازش کے نام پر اس نے عمر خالد، شرجیل امام، خالد سیفی، میران حیدر، آصف تنہا جیسے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے اور نتاشا نروال، دیوانگنا کلتا، گل فشاں، عشرت جہاں جیسی خواتین کو بھی۔

پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ، پنجرہ توڑ جیسی تنظم پی ایف آئی جیسےادارے کے ساتھ مل کر حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی سازش کر رہے تھے۔ وہ قلمکاروں،اساتذہ،صحافیوں، فلم سازوں کو بھی اس سازش میں شامل بتا رہی ہے۔

جیسے بھیما کورےگاؤں میں حکومت کے ناقدین کو سازش میں شامل  بتاکر یواے پی اےجیسے خطرناک قانون کا استعمال کرکے غیرفعال کیا گیا ہے، اسی طرح کی سازش دہلی پولیس کر رہی ہے۔اور اب ہاتھرس میں دلت لڑکی کے ساتھ کیے گئےتشدد اور اس پر سرکاری  بےحسی کی مخالفت کو حکومت اور پولیس پھر سازش بتا رہی ہے۔

اس سازش میں اس کے مطابق وہ شامل ہیں جو سی اے اے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان کا ارادہ دلت سوال کی آڑ میں اتر پردیش میں ذات پر مبنی فسادبھڑکانا ہے۔یہ سب نے دیکھا ہے کہ ہاتھرس تشدد کے معاملے میں انتظامیہ اور حکومت کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ یہ کسی کمیونٹی کے خلاف نہیں ہے۔

لیکن ماری گئی لڑکی کے گاؤں کے آس پاس مبنیہ اشرافیہ کی تنظیم، ان کی پنچایتیں فعال ہو گئی ہیں جو ریپ اور تشدد کے الزام کو ہی جھوٹا ثابت کرنے پرمصر ہیں۔ان سارے لوگوں کو پولیس کا تحفظ حاصل ہے۔ اس کی موجودگی میں یہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اور اب پولیس نے سازش کی کہانی کو ایک قانونی کارروائی میں بدل دیا ہے۔

جو میڈیا سی اے اے تحریک کے خلاف حکومت کا ساتھ دے رہا تھا، وہی آج اتر پردیش میں ذات پات اور فرقہ وارانہ  تشدد بھڑ کانے کی سازش کی حکومت کی  کہانی کا پروپیگنڈہ کرنے میں پیش پیش ہے۔ابھی توعوام کی ہر مخالفت کو جرم ٹھہرایا جا رہا ہے، سازش بتایا جا رہا ہے، وہ دن دور نہیں ہے جب حکومت ہندوستانیوں کو یہ بتلائےگی کہ ان کا بےروزگاری کے خلاف بولنا، کسانوں کا حکومت کے خلاف کھڑا ہونا، سب کچھ بین الاقوامی سازش ہے۔

ہندوستان میں پیدا ہونے کوبھی تب ایک سازش قراردیا جا سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ مخالفین نے سازش کے تحت ہندوستان میں جنم لیا تاکہ وہ حکومت کی مخالفت کر سکیں۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)