خبریں

چھتیس گڑھ: مبینہ گینگ ریپ کے بعد لڑکی نے کر لی تھی خودکشی، پولیس نے تین مہینے بعد درج کیا کیس

چھتیس گڑھ کےکونڈاگاؤں ضلع میں18جولائی کومبینہ طور پرسات لوگوں نے ایک لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کیا تھا۔ اگلے دن اس نے خودکشی کر لی تھی۔واقعہ کے تین مہینے بعد پولیس نے چھ ملزمین کو گرفتار کیا ہے۔ تھانہ انچارج کو سسپنڈ کرکے ان کے خلاف محکمہ جاتی جانچ شروع کر دی گئی ہے۔

Kondagaon-e1602314485307

نئی دہلی: چھتیس گڑھ کے کونڈاگاؤں ضلع میں18جولائی کو ایک لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ واقعہ کے ایک دن بعد لڑکی نےخودکشی کر لی تھی۔چھتیس گڑھ پولیس نے اب لگ بھگ تین مہینے بعد ساتوں ملزمین کے خلاف معاملہ درج کیا ہے اور چھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے چھ اکتوبر کو مبینہ گینگ ریپ معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ365، 376ڈی،306،506 کے تحت سات ملزمین کے خلاف معاملہ درج کیا ہے، جن میں سے چھ کو گرفتار کیا ہے، ان میں سے دو نابالغ ہیں۔

معاملہ درج ہونے کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے لڑکی کی لاش کو قبر سے باہر نکالا گیا اور پوسٹ مارٹم کے بعد جمعہ کو دوبارہ لاش کو دفن کردیا گیا۔وہ گونڈہ قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں اور کسان فیملی سے تھیں۔لڑکی کےاہل خانہ نے بتایا،‘18 جولائی کو وہ گاؤں سے 10 کیلومیٹر دور ایک شادی میں گئے تھے۔ اس دوران ان کی بیٹی سمیت پانچوں بچے گھر پر ہی تھے۔’

لڑکی کے والد نے کہا، ‘ان کی بیٹی کی شادی میں جانے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ وہ اپنا ارادہ بدل دےگی اور بعد میں شادی میں پہنچے گی۔’

گزشتہ 18جولائی کےاس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے لڑکی کی دوست 15سال کی عینی شاہدبتاتی ہیں،‘میری دوست سمیت ہم چار لوگ دو پہیہ گاڑی سے شادی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے،رقص وموسیقی شروع ہو گیا تھا اس لیے ہم باہر ہی ناچنے لگے اور گھر کے لوگوں سے نہیں ملے۔ بعد میں کچھ لوگوں نے ہمیں گھیر لیا اور ہمیں گھسیٹ کر ایک سنسان جگہ لے گئے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ہم سب ان لوگوں میں سے ایک کو جانتے تھے۔

لڑکی کی دوست نے بتایا،‘ان میں سے ایک شخص پاس کے گاؤں کا تھا۔ حالانکہ، ہم سب ایک ہی کمیونٹی سے ہیں۔ میری دوست (متاثرہ)اور وہ شخص بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ وہ اسے (متاثرہ)پسند کرتا تھا لیکن وہ اسے پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ شخص غصے میں تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شادی میں آئی تھی۔’

وہ بتاتی ہیں،‘اس کے بعد ملزم اس کی دوست (متاثرہ)کومبینہ طور پر گھسیٹ کر جھاڑیوں میں لے گئے۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے کسی کو بھی کچھ بتایا تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچےگا۔’انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دو اور دوستوں کے ساتھ شادی کی تقریب کے باہر لگ بھگ چار گھنٹے تک متاثرہ  کے لوٹنے کا انتظار کرتی رہی۔

انہوں نے بتایا،‘گھنٹوں کے انتظار کے بعد چہرہ ڈھکے ہوئے دو لوگ اسے (متاثرہ)واپس چھوڑکر چلے گئے۔ اس کا حلیہ پوری طرح سے بےترتیب تھا۔ اس کے ہاتھ پر چوٹ کے نشان تھے اور کپڑوں پر خون تھا۔’

وہ کہتی ہیں،‘میری دوست نے مجھ سے کہا کہ کئی لوگوں نے اس کے ساتھ ریپ کیا۔ اس نے کہا کہ اس کی پہچان والے شخص نے کہا ہے کہ وہ ہر کسی کو بتائےگا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ بہت رو رہی تھی اور مجھ سے درخواست کر رہی تھی کہ جو بھی ہوا ہے، میں اس کے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہ بتاؤں۔’

اگلے دن دوپہر لگ بھگ 1:30بجے متاثرہ کے بھائیوں کو اس کی لاش پھانسی کے پھندے پر لٹکی ملی۔ اس دوران متاثرہ کے گھروالے شادی کی تقریب میں ہی تھے۔متاثرہ  کے چچا نے کہا، ‘ہم اسے اسپتال لے جا رہے تھے کہ راستے میں ہی اس کی موت ہو گئی۔’

وہیں،پولیس نے ملزمین میں سے دو کے نابالغ ہونے کی وجہ سے ان کے پتے اور دوسری جانکاریاں اجاگر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے ملزمین کی عمر کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گھروالوں کاالزام ہے کہ بیٹی کے مردہ  پائے جانے کے بعد تھانہ انچارج نے انہیں بے عزت کرتے ہوئے کہا تھا، ‘وہ جو چاہتے ہیں، وہی ایف آئی آر میں لکھیں گے۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اس نے خودکشی کیوں کی اس لیے ہم تیار ہو گئے لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔’

اس معاملے میں تھانہ انچارج کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی جانچ شروع کر دی گئی ہے۔آئی جی پی سندرراج پی نے کہا کہ بستر کے آئی جی نے ضلع کے ایس ایس پی کے تحت پانچ رکنی کمیٹی بنائی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ہم نے معاملے پر نوٹس لےکر ایف آئی آر درج کی ہے اور معاملے کی جانچ کر رہے ہیں۔ پہلے ہی چھ ملزمین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔’