خبریں

عمر خالد ’دہشت گرد‘ ہے کہ نہیں؟

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائےگا، ان کو میں کہہ دوں، کیوں نہ آپ کو سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ کیوں نہ ملک  کے ہر شہری کو 18سال کا ہوتے ہی سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے۔ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔

عمر خالد۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

عمر خالد۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

عمر خالدگرفتار ہو گیا!

ٹوئٹر پر پڑھا، دہشت گرد ہے۔ کچھ نے کہا دہشت گرد نہیں ہے تو چھوٹ جائےگا۔ اکثریت کو لگتا ہے، جہاں آگ ہوتی ہے دھواں وہیں سے اٹھتا ہے۔کچھ سال پہلے تک شایدیہ بات درست بھی تھی۔اب اس سوشل میڈیا کے زمانہ میں آگ بھی کمپیوٹر گرافکس سے بنائی جا سکتی ہے اور دھواں بھی۔

خیر،سوال یہ ہے کہ عمر خالد دہشت گرد ہے کہ نہیں؟ اور اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ میں آج تک نہ کسی دہشت گرد سے ملا ہوں اور نہ کسی دہشت گرد کو جانتا ہوں۔ہاں، عمر سے میں کئی بار ملا ہوں اور سینکڑوں بار بات کر چکا ہوں پر مجھے پتہ نہیں دہشت گرد کیا بات کرتے ہیں۔

ہو سکتا ہے عمر نے کچھ دہشت گرد ٹائپ کی باتیں مجھ سے کی ہوں ، اور کیونکہ آپ سب لوگ کئی دہشت گردوں سے مل چکے ہوں تو میں آپ کو اس کے ساتھ ہوئی کچھ باتیں بتاؤں گا، ہو سکتا آپ لوگ اس کے اندر کا دہشت گرد پکڑ لیں۔

ابھی گرفتاری سے تین دن پہلے تک بھی وہ جئے پور میں تھا اور کورونا کی وجہ سے میں بھی ممبئی سے پچھلے 3-4 مہینے سے بھاگ کر جئے پور میں چھپا ہوں۔

ہم تین چار دن روزانہ ملے، گھنٹوں باتیں بھی ہوئی۔ میری اہلیہ بھی اس سے اس بار کافی دیر تک ملی۔ اس نے بھی مذاق میں مجھ سے کہا،‘کتنا پرسکون اورتمیزدار لڑکا ہے، پڑھا لکھا بھی ہے۔ ایسے لڑکوں کو تو لڑکیوں کے باپ اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے ڈھونڈتے ہیں۔’

میں نے پلٹ کر جواب دیا،‘بس دو مسئلے ہیں، ایک تو پڑھا لکھا ہے تو کچھ کماتا  نہیں اور دوسرا مسلمان ہے تو دہشت گرد ہے۔’وہ ہنسی، میں نہیں ہنسا کیونکہ بولتے بولتے مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ باتیں اب ہندستان میں مذاق نہیں ہیں، سچ ہیں۔

آج کل ہمارے ملک میں پڑھے لکھے کچھ کماتے نہیں ہیں اور مسلمان تو دہشت گرد ہوتے ہی ہیں۔ ہارورڈ کو ہارڈ ورک نے ایسا دبوچا ہے کہ لوگوں نے کتابیں چھوڑکر پستولیں اٹھا لی ہیں کیونکہ‘وہ گولی مارنی ہے نہ ٭٭٭ کو!’

میرا اور عمر کا کافی بےادب سا رشتہ ہے۔ وہ 90فیصدی وقت اپنی کمر پر ہاتھ ایسے رکھ کر کھڑا ہوتا ہے جیسے اپنے ہی ہاتھ سے اپنی کمر کو دبا دباکر سیدھی کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔

جب آپ کی بات سن رہا ہوتا ہے، تو لگاتار ہم ہم کرتا رہتا ہے، (غضب بورنگ)کئی بار اسے ٹوک چکا ہوں، ایک ہم سے دوسرے ہم میں گیپ دیا کرو۔ پر وہ عادتاً مجرم ہے، بےساختہ اس کے منھ سے ہم ہم نکلتا رہتا ہے۔

آنکھوں کے نیچے کالے گڑھے ہیں، وزن بس اتنا ہے کہ ابھی زمین پر ہے، دو کیلو اور کم ہوا تو پنچھی بن کر آسمان میں اڑ جائےگا۔اگر سوچ اتنی اچھی نہیں ہوتی تو خاصہ زہر آدمی ہے۔ تو چلیے اب جلدی سے سنیے وہ باتیں جو میرے اور عمر کے بیچ ہوئی ہیں۔ پھر ہم مل کر عمر کے اندر کا دہشت گرد پکڑتے ہیں۔

تو سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اس بات کا جو سب سے زیادہ ہوئی، وہ تھی عمر خالد کی گرفتاری کی بات۔ سوال یہ نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہوگا کہ نہیں، سوال یہ تھا کہ ایسا کب ہوگا اور اسے باہر آنے میں کتنا وقت لگےگا۔اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی نہ کوئی یہ کہہ دیتا تھا، پر گرفتار ہوگا کیوں، کیا کیا ہے؟ اور یہ سن کر ہم ہنسنے لگتے تھے۔

آج بھی لوگوں کو ایسا لگتا ہے جیسےملک میں قانون کام کر رہا ہے۔ کچھ اور وقت کی بات ہے، یہ غلط فہمی بھی دور ہو جائےگی۔ڈاکٹر کفیل خان کو یوگی سرکار نے 8 مہینے جیل میں رکھا، ڈاکٹر کفیل خان کو سی اےاے اور این آرسی کے خلاف بھڑکاؤ بیان دینے کے الزام میں29 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر کفیل خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں12 دسمبر 2019 کو ایک اسپیچ  دیا تھا۔ پتہ ہے ان پر کیا کیا دفعات لگائی گئیں؟

پہلے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں153اے میں کیس درج کیا گیا تھا۔ اور بعد میں 153 بی(قومی اتحاد کے خلاف بیان بازی)، 109 (اکسانے) اور 502 (2) (نظم و نسق کو خراب کرنے)جیسی دفعات میں کیس درج کیا گیا۔

گرفتاری کے بعد 13 فروری کو ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگایا گیا۔اب یہ این ایس اےکا کیا ہے؟ نیشنل سکیورٹی ایکٹ یعنی این ایس اے کے تحت ایسے کسی بھی شخص کو 12 مہینے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے، جس سے نظم ونسق  کو خطرہ  ہو۔

حالانکہ تین مہینے سے زیادہ تک کسی کو جیل میں رکھنے کے لیے صلاح کار بورڈ کی رضامندی لینی پڑتی ہے۔ مطلب کسی بھی آدمی کو سال بھر کے لیے یوں ہی جیل میں سڑایا جا سکتا ہے۔ تب تک آپ کے گھر والے ، بال بچہ سب بس سانس روکے سال بھر بیٹھے رہیں گے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں، اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائےگا، ان کو میں کہہ دوں، کیوں نہ آپ کو سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ کیوں نہ ملک کے ہر ایک شہری کو 18 کا ہوتے ہی سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے۔ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔

خیر آٹھ مہینے بعد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں ضلع انتظامیہ کی بھی سرزنش کی ۔ ہائی کورٹ نے کہا پوری تقریرکو سنے بنا ہی این ایس اے لگا دیا گیا جبکہ ڈاکٹر کفیل کا بیان قومی اتحاد کا مظہرہے۔میں اعادہ کرتا ہوں، ‘ڈاکٹرکفیل کا بیان قومی اتحاد کا مظہرہے۔’

عمر خالد کی گرفتاری کے بعد دہلی میں ہوئی ایک پریس کانفرنس میں ان کی ماں صاحبہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

عمر خالد کی گرفتاری کے بعد دہلی میں ہوئی ایک پریس کانفرنس میں ان کی ماں صاحبہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

یہہی عمر کے ساتھ بھی ہوگا، میں لکھ کر دے رہا ہوں۔ 3 مہینے بعد، 6 مہینے بعد، 9 مہینے بعد یا سال بھر بعد، کورٹ کہے گا، عمر کا بیان، اس کے کام، اس کےآئیڈیل  سب کچھ قومی اتحاد کے مظہر ہیں۔پر تب تک کسی کی زندگی کا سال بھر جیل میں برباد ہو چکا ہوگا۔ جیسے ڈاکٹر کفیل کے 8 مہینے غارت ہو گئے۔

ہم نے ایمرجنسی کے بارے میں سنا تھا، جس میں ملک کے سارے اپوزیشن رہنماؤں  کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ پر تب کم سے کم اسے ایمرجنسی کا نام تو دیا گیا تھا۔یہ ایک نئی طرح کی ایمرجنسی ہے، جو تھوڑا سلو موشن میں چل رہی ہے۔ ہر آواز جیل میں جائےگی، ایک ساتھ نہیں، ایک ایک کرکے۔ یہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ملک  میں اب بھی جمہوریت  زندہ ہے، جلد ہی اس کی  غلط فہمی دور کر دی جائےگی۔ایسا نہیں ہے کہ حق کی لڑائی کے لیے جیل جانا کوئی بری بات ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہر انقلابی کے لیے جیل جانا اشوک چکر کی طرح ہے۔ یہ وہ تمغہ  ہے جو ہر انقلابی فخر سے اپنے سینہ پر پہنتا ہے۔

پر ان لوگوں کی بھی بات کرنا ضروری ہے، جو بے قصور لوگوں کو صرف اس لیے جیل میں ڈال رہے ہیں کیونکہ انہیں آوازیں پسند نہیں ہیں۔ جنہیں یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی سر اٹھے، کسی کی ابرو نہ تنے، کسی کی گردن ان کے سامنے خم نہ ہو۔ ان لوگوں کو آپ کیا کہیں گے؟

ارے! میں بھول گیا، مجھے تو آپ کو وہ سب باتیں بتانی ہے جو عمر کرتا ہے۔ ہمیں ان باتوں میں دہشت گرد ڈھونڈنا ہے۔

وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے، ‘میں مسلمانوں کے لیے لڑتا ہوں کیونکہ ابھی ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اگر مسلمان ظلم کر رہے ہوتے، تو میں ان کے خلاف لڑ رہا ہوتا۔ میں ان سب کے لیے لڑوں گا جو آج کمزور ہیں، چاہے وہ دلت ہوں، چاہے غریب، مزدور یا کاریگر۔’

‘تمہیں شاید لڑنے کی عادت ہے،’جب میں اس سے کہتا ہوں، تب وہ جواب دیتا ہے، ‘جب تک انہیں ظلم کرنے کی عادت ہے، مجھے لڑنے کی عادت ہے۔ وہ ظلم کرنا چھوڑ دیں، میں لڑنا چھوڑ دوں گا۔’اور پھر میں چپ ہو جاتا ہوں۔

میں نے کہا نہ آدمی زہر ہے، پر سوچتا بہت اچھا ہے۔ ایک دن ‘میل کی بتی’ پر بات ہوئی۔ پہلے سمجھا دوں کہ ‘میل کی بتی’ کیا بلا ہے۔جب آپ اپنے سینہ پر اپنی انگلی رگڑتے ہیں، تو ان انگلیوں کے نیچے کالی کالی میل کی لکیریں بن آتی ہیں، انہیں ہی میل کی بتی کہتے ہیں۔

اس کے لیے دو تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے، پہلے تو جلد پر پسینے کی ایک پتلی پرت کا ہونا، پھر نہانے کے اور اس فعل کے ہونے میں کم سے کم ایک گھنٹے کا وقف ہونا۔ تو اب جب آپ کو میل کی بتیاں سمجھ آ گئی ہیں، آپ سوچ رہے ہو ں گے ہماری اس بارے میں کیا چرچہ ہوئی ہوگی۔

عمر کا ماننا ہے،‘میل کی بتی’اور ہندوستان  کا گہرا رشتہ ہے۔ ہندوستان کو صرف وہ سمجھتا ہے جس نے میل کی بتیاں جی ہیں۔ میل کی بتیاں ایک اسٹیٹ آف مائنڈ ہیں۔ اس ملک کے ہر محنتی انسان کو پتہ ہے کہ وہ ہر وقت میل کی بتیوں سے ڈھکا ہے، وہ کبھی بھی ویسا صاف نہیں ہوگا یا ہوگی، جیسے لوگ ٹی وی پر دکھتے ہیں۔ لیکن یہ میل کی بتیاں اس کی ڈھال ہیں اور یہی اس کا سچ ہیں۔

میل کی بتیوں سے کروڑوں لوگ اپنا پریوار پال رہے ہیں، رسوئیوں میں کھانے پکا رہے ہیں، سڑکوں پہ آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ میل کی بتیاں اس ملک  کی روح ہیں۔ یہ پسینے میں لپٹی میل کی بتیاں ہماری توانائی ہیں۔اور آخر میں وہ سوال پوچھتا ہے، ‘یار، یہ جو 24 گھنٹے اےسی میں رہتے ہیں، کیا ان کے میل کی بتیاں آتی ہیں۔’ مجھے اس کا جواب نہیں پتہ، شاید آپ کو پتہ ہو۔

ہمارے بیچ اکثر ایسی ہی کئی باتیں ہوتی ہیں، اس کا ماننا ہے، ‘کسی کو کسی کی جان لینے کا حق نہیں ہے، لیکن سب کی جان بچانا سب کا فرض ہے۔’اس کا ایک سوال ہے کہ ‘کتنا امیر ہونا بہت ہے؟ کیا امیری کی کوئی حد ہے؟ جب ملک میں 20 کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہوں، تو کیا امیری کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے؟’

وہ اس بات سے پریشان ہے کہ ‘کیونکہ وہ پڑھ لکھ گیا، وہ آج رہنما ہے، لیکن وہ لڑکے لڑکیاں جو اس کے ساتھ اس کے بچپن میں اس کے محلے میں کھیل رہے تھے، جن میں سے کچھ تو اس سے کہیں زیادہ سمجھدار تھے، آج وہ لوگ ان ہزاروں محلوں میں کیوں گل رہے ہیں؟’

وہ بہت بولتا ہے، جب ایک بار شروع ہوتا ہے تو بولتا ہی رہتا ہے لیکن اس کی آنکھوں میں غم اور اس کی آواز سے رنج ٹپکتا رہتا ہے۔ وہ جب ہنس رہا ہوتا ہے، تو اپنی ہنسی سے پریشان ہوتا ہے اور جب خوش ہوتا ہے تو اپنی خوشی سے ناراض۔

جیل جانے سے پہلے اسے پتہ تھا کہ وہ جیل جائےگا۔ اس نے یہ بھی طے کیا ہوا تھا کہ اس بار وہ سگریٹ چھوڑنے کی پوری کوشش کرےگا۔ اس نے وہاں جیل میں پڑھنے کے لیےکتابوں کی ایک فہرست  بھی بنا رکھی تھی۔ وہ خبردار تھا، وہ تیار بھی تھا۔

لیکن یہ کیسا نظام ہے میرےعزیز ہموطنوں، ہم سب کو پتہ ہے کہ ناانصافی ہوگی اور ہمیں سہنی بھی پڑےگی؟ نہ کوئی دوا ہے، نہ علاج۔ اس ظلم کو سہنا اب جیسے عادت بن گئی ہے۔خیر، مجھے امید ہے کہ ان باتوں میں آپ نے عمر کا دہشت گرد ابھی تک ڈھونڈ لیا ہوگا اور اگر نہ ملا تو اس کے نام میں تو مل ہی گیا ہوگا۔ آخر اس کا نام عمر خالد ہے۔

ستیہ میو جیتے،ہندوستان  کاقومی مثالی جملہ ہے۔ جس کامطلب ہے: ستیہ ہی جیتتا ہے/ستیہ کی ہی جیت ہوتی ہے۔ شاید ہندوستان کا مقصد ہی سچ کی تلاش ہے۔ لیکن آج ہم سچ نہیں ڈھونڈ رہے ہیں، آج ہم ناموں میں دہشت گرد ڈھونڈ رہے ہیں۔

ستیہ میو جیتے چاہے آج ہمارا قومی مثالی جملہ ہو، پر جس سمت میں آج ہندوستان  جا رہا ہے، دیر نہیں ہے ہمارا مثالی جملہ ہوگا ‘نفرتیو جیتے’ کیونکہ شاید اب یہاں نفرت ہی جیتے گی…

(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔ )