فکر و نظر

ہاتھرس معاملہ : یوپی سرکار کی جانب سے دائرحلف نامے میں قانونی خامیاں اور جھوٹ  کی بھرمار ہے

اتر پردیش سرکار کی جانب سےہاتھرس معاملے میں سپریم کورٹ  میں دائرحلف نامے میں جان بوجھ کرگمراہ  کن حقائق پیش کیے گئے ہیں۔ یہ حلف نامہ پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت،اعتباراورمتاثرین  کوانصاف  دلانے کی ان کی نیت، تینوں پر سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ریپ اور قتل معاملے میں سپریم کورٹ میں دائر اتر پردیش سرکار کےحلف نامہ  میں متعدد قانونی غلطیاں ہیں۔اس حلف نامے میں جان بوجھ کر گمراہ کن حقائق  پیش  کیے گئے ہیں اور بکواس  کی بھرمار ہے۔ یہ حلف نامہ کم اور ایک سنگین جرم  کی سفاکی کو کم کرکے پیش  کرنے کی کوشش زیادہ لگتی ہے۔

وہ بھی تب جب الہ آباد ہائی کورٹ نے واقعہ  سے آزردہ  ہوکر اس کا نوٹس لے لیا تھا۔

متاثرہ کے بیانات  میں تضادات کو ڈھونڈناقانوناً غلط ہے

اتر پردیش سرکار نے حلف نامہ میں یہ دکھایا ہے کہ متاثرہ نے اپنے پہلے بیان میں ریپ کا ذکر نہیں کیا تھا۔ یہ گمراہ کن  ہے۔اس بات کا ویڈیو موجود ہے کہ لڑکی نے ناقابل برداشت تکلیف میں ہونے کے باوجود 14ستمبر کو ہی ملزمین کے ذریعے اس سے ‘زبردستی’ کرنے کی بات کہی تھی۔

ہندی بولنےوالے علاقوں  سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ شرم کی وجہ سے وہاں عورتیں  بالخصوص دیہی  علاقوں میں، اکثرریپ لفظ  کا استعمال ہی نہیں کرتیں اور اس کے لیے‘زبردستی’یا ‘غلط کام’بولتی ہیں۔ پیٹ کر زخمی کرنے کو کوئی ‘زبردستی’ نہیں کہتا۔

دوسری بات یہ کہ متعدد فیصلوں میں سپریم کورٹ نے بہت عرصے سے صاف کررکھا ہے کہ ایف آئی آر کو انسائیکلوپیڈیا کی طرح  مفصل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔بہرحال،22 ستمبر کو دیے گئے بیان میں اس نے ملزمین کے نام لیے اور کہا کہ انہوں نے اس سے ریپ کیا تھا اور اس کے دوپٹے سے اس کا گلا گھونٹا تھا۔

بیان لینے والی خاتون  ہیڈ کانسٹبل نے اس سے پوچھا بھی کہ اس نے پہلے تو ریپ کی بات نہیں کی تھی۔ اس پر اس نے صاف کیا کہ اس وقت وہ پورے ہوش میں نہیں تھی۔

چونکہ اس بیان کے بعد 29 ستمبر کو اپنی موت  تک وہ کوئی اور بیان نہیں دے پائی، اس لیے منو راجہ بنام اسٹیٹ آف مدھیہ پردیش کے فیصلے کے مطابق اسے ڈائینگ ڈکلیریشن(موت  کے وقت دیے گئے بیان)کا درجہ حاصل ہوگا اور یہ مقدمے میں بہت اہم ہوگا۔

حلف نامہ نے ریپ کی صحیح  قانونی تعریف کو ہی نہیں سمجھا ہے

سرکار کا حلف نامہ متاثرہ کے ‘سیکسول اسالٹ فارینسک اگزامینیشن’رپورٹ کے حوالے سے کہتا ہے کہ متاثرہ کا ریپ ہی نہیں ہوا تھا۔یہ قانونی طور پر سراسر غلط ہے۔ کریمنل لاء امینڈمنٹ ایکٹ2013 کے ذریعےآئی پی سی  کے سیکشن375میں ترمیم کر دیا گیا ہے۔

اب ریپ کے لیےوجائنا میں پینس کا دخول ضروری نہیں ہے۔ مردکےپینس، انگلی، منھ، ہاتھ یا کسی بے جان شے کے کے ذریعے عورت کے وجائنا ، یامقعد کالمس محض بھی ریپ کے لیے کافی سمجھا جائےگا۔اس لیے اگر پولیس افسر یا ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ وجائنا میں پینس کے دخول کے ثبوت نہیں ہیں، تو یہ ان کی جہالت ہے۔

سچ یہ ہے کہ اس ترمیم  کے پہلے ہی سپریم کورٹ نے رادھاکرشن ناگیش بنام اسٹیٹ آف اےپی کے فیصلے میں کہا ہے کہ ریپ کے لیے دخول(پینیٹریشن)ضروری نہیں ہے۔

اسٹیٹ آف یوپی بنام بابل ناتھ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ریپ کا الزام  ثابت کرنے کے لیے متاثرہ کے وجائنل سویب/سمیر میں اسپرم یا نطفہ کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی اور نہ ہی متاثرہ کی شرمگاہوں میں چوٹ کا پایا جانا ضروری ہے۔

اسٹیٹ آف مہاراشٹر بنام چندرپرکاش کیول چند جین کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پولیس افسروں اور ڈاکٹروں کو بتا دیا کہ زندہ اسپرم محض  12 گھنٹوں تک پائے جاتے ہیں۔ مردہ اسپرم 48 سے 72 گھنٹوں تک مل سکتے ہیں اور اس کے بعد وہ بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔

کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر متاثرہ اپنی شرمگاہوں کودھو لیتی ہے تو اسپرم 12 گھنٹوں کے اندر بھی نہیں مل سکتے ہیں۔ اس کیس میں تو متاثرہ کا ‘سیکسول اسالٹ فارینسک اگزامینیشن’ آٹھ دنوں بعد ہوا تھا!

یہ بھی ممکن ہے کہ اس بیچ متاثرہ کے شرمگاہوں کو اس کی جانکاری کے بغیر دھو دیا گیا ہو۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ متاثرہ کےہائی مین کے زخموں کے بھرے ہونے کی بات کہتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ان آٹھ دنوں میں اپنے آپ بھر گئے ہوں۔

دھیان دینے کی بات ہے کہ علی گڑھ کے ہاسپٹل کی رپورٹ مباشرت کا ثبوت نہ ہونے کی بات کرتی ہے۔ صاف ہے کہ قانون کی جانکاری نہ ہونے کے وجہ سے ان کا مطلب روایتی مباشرت سے رہا ہوگا، جس میں پینس کے مکمل دخول اوراسپرم  کی امید کی جاتی ہے۔

انہوں نے ریپ کے بارے میں تبصرہ نہیں کیا ہے، پھر بھی حلف نامہ اس سے غلط نتیجہ نکال کر سپریم کورٹ کو گمراہ  کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ریپ نہیں ہوا۔فارینسک میڈیسن کی اہم کتابوں  میں صاف لکھا ہے کہ آٹھ دن بعد نہ تو پینس کے مکمل دخول  کا ثبوت مل سکتا ہے نہ ہی اسپرم کا۔

قانون میں متاثرہ کے بیان کی اہمیت سب سے اوپر ہے

اسٹیٹ آف اتر پردیش بنام چھوٹے لال، وجے عرف چنی بنام اسٹیٹ آف ایم پی، بھرودا بھوگن بھائی ہیرجی بھائی بنام اسٹیٹ آف گجرات اور دی  اسٹیٹ آف پنجاب بنام گرمیت سنگھ اور دیگر کے فیصلوں میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریپ کے مقدموں میں بالعموم متاثرہ کی گواہی کو کافی سمجھا جانا چاہیے۔ میڈیکل ثبوت کی ضددراصل اس کی توہین ہے۔

رنجیت ہجاریکا بنام اسٹیٹ آف آسام میں سپریم کورٹ نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ میں ہائی مین کا زخمی پایا جانا یا متاثرہ کے بدن پر چوٹوں کا نہ ملنا اس کی گواہی کو جھوٹا ثابت نہیں کرتا۔متذکرہ  فیصلوں کے تناظر میں کرناٹک ہائی کورٹ نے اسٹیٹ آف کرناٹک بنام ایس راجو کے فیصلے میں آرڈر دیا کہ جنسی جرائم میں میڈیکل ثبوتوں کے ذریعے الزام کی تصدیق  ضروری نہیں ہے۔

لاش  کا چوری سے جلایا جانا اور احتجاجی مظاہرے  کے خدشات  کی دلیل قابل قبول نہیں ہے

حلف نامہ یہ قبول کرتا ہے کہ حالانکہ صفدرجنگ ہاسپٹل پر نعرےبازی ہوئی تھی، لیکن کوئی تشدد نہیں ہوا تھا۔ لوگوں نے پرامن طریقےسے لاش کو لے جانے دیا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب وہ متاثرہ کے گاؤں کے قریب پہنچے تو کوئی 200-250 لوگ ہی جمع تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ پھر بھی آپ نے چوری سے رات ہی میں لاش جلا دیا۔ کیوں؟

حلف نامہ اس کے بعد پٹری بدل لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے پاس اسی دن خفیہ جانکاری آئی تھی کہ وہاں لاکھوں لوگوں کی بھیڑ کاامکان  تھا اور نظم ونسق کا مسئلہ ہو سکتا تھا۔یہ نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ گمراہ کن بھی۔ سب سے پہلے ایسی سنسنی خیز رپورٹ کی سچائی  کودلیل کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے تھا۔ پر ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔

خفیہ جانکاری کے نام پر کوئی بھی بکواس نہیں چلائی جا سکتی ہے۔ یہ دیکھا جانا چاہیے کہ رپورٹ قابل اعتبار ہے بھی یا نہیں۔سوال پوچھا جانا چاہیے تھا کہ ایسی خفیہ جانکاری جس بھی افسر یا مخبر نے دی، تو کس بنیاد پر دی؟ انہیں کیسے  پتہ چلا؟

ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کرتے پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کرتے پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اگر سیاسی پارٹیاں لاکھوں لوگ جمع کرنے والی تھیں، تو ان پارٹیوں میں اس افسر یا مخبر کی کتنی اور کس سطح پر پہنچ یا ‘پیٹھ’ تھی۔چائے سموسے کی دکان پر سنی ہوئی گپ کو انٹلی جنس رپورٹ نہیں کہا جا سکتا ہے۔لاکھوں لوگوں کو جمع کرنے کا فیصلہ پارٹی میں بے حد  اونچی  سطح  پر ہی لیا جا سکتا ہے ضلع تحصیل کی سطح  کے کسی رہنما کے ذریعے نہیں۔ کیا وہ خفیہ ڈھنگ سے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی بات جاننے کے قابل  تھے؟

پھر لاکھوں لوگ ہوا میں اڑکر اچانک اس گاؤں میں نہیں ٹپک سکتے تھے، ایک لاکھ لوگوں کو لانے کے لیے کوئی دو ہزار بسوں کی ضرورت پڑتی۔ ظاہر ہے کہ کوئی پارٹی یہ کام خفیہ طریقےسے نہیں کر سکتی تھی۔انتظامیہ کو یقینی طور پران کی  آمد کی پیشگی اطلاع مل جاتی اور اس کے بعد گاؤں کی طرف جانے والے ہر سڑک پر بیریکیڈنگ یا ناکے لگاکر ان گاڑیوں کو بہت دور ہی روکا جا سکتا تھا۔

اس لیے لاکھوں لوگوں کے احتجاجی مظاہرہ  کے لیے جمع ہو جانے کی بات بکواس ہے۔اور اگر کوئی پارٹی اتنے لوگ جمع کرنے کے قابل ہوتی، تو لاش کے جلا دیے جانے کے بعد بھی وہ  احتجاجی مظاہرہ  کر سکتی تھی۔ ایسا تھوڑے ہی تھا کہ لاش  جل گئی  تومظاہرے کا جواز  ہی ختم  ہو گیا!

بعد میں پارٹیوں نے جو لوگ وہاں بھیجے ان کی تعدادمحض  سینکڑوں میں تھی۔ سوال ہے کہ ان لاکھوں لوگوں کا کیا ہوا؟ وہ کہاں گم ہو گئے؟میچننی کشن راؤ بنام کمشنر آف پولیس اور دیگر کے کیس میں پولیس نے ایسی ہی دلیل دینے کی کوشش کی تھی کہ جلوس میں پیپلس وار گروپ کے ممبر شامل ہو سکتے ہیں جو نظم ونسق کوبگاڑ دیں گے، اور اس لیے جلوس کی اجازت نہیں دی گئی۔

ہائی کورٹ نے یہ دلیل خارج کر دی اور پولیس کو حکم دیا کہ جلوس کے دوران نظم و نسق کو بنائے رکھنے کا انتظام  کریں۔متعدد ثبوت ہیں کہ گھروالوں کے لاکھ گڑ گڑانے کے باوجود متاثرہ کی لاش  پولس نے زبردستی جلا دی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اس کا نوٹس  لیتے ہوئے کہا کہ پورے واقعہ نے ان کے ‘ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔

یہ لوگ کشمیر پولیس سے ہی کچھ سیکھ سکتے تھے۔ وہاں دہشت گردوں  کی لاشوں کے ساتھ قافلہ نکالنے کی اجازت دی جاتی رہی ہے، جن میں ہزاروں کا شامل ہونا عام بات ہے۔برہان وانی کے جنازے میں کوئی دو لاکھ لوگ جمع ہوئے تھے۔ ان قافلوں  میں لوگ کشمیر کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں اور ہوا میں فائر بھی کرتے ہیں۔ کتنی بار پولیس کو بھی مشتعل بھیڑ پر فائر کرنا پڑ جاتا ہے۔

سوال ہے کہ جب اسی ملک میں کشمیر پولیس تین دہائیوں سے یہ کر رہی ہے تو اتر پردیش پولیس کیوں نہیں کر سکتی؟ اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ ڈر گئے تھے تو یہ تونااہلی  کا ثبوت دینا ہوگا۔

ہاتھرس متاثرہ کے گاؤں میں تعینات پولیس فورس۔ (فوٹو: دی  وائر)

ہاتھرس متاثرہ کے گاؤں میں تعینات پولیس فورس۔ (فوٹو: دی  وائر)

سوشل میڈیا پر لگائے گئے الزام غیرمدلل ہیں

حلف نامہ میں سوشل میڈیا پر سرکار کی امیج خراب کرنے کا الزام  لگایا گیا ہے۔ ان کی جانکاری کے لیے امیج خراب کرنا کسی قانون میں جرم  نہیں ہے۔میڈیا، پارٹیوں کے رہنماؤں یا عوام  کا متاثرہ فیملی  یا کسی اور سے ملنا انویسٹی گیشن میں دخل اندازی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ کس قانون میں ایسا لکھا ہے؟

ممکن ہے کہ کچھ شرپسندوں نے ملزمین کے والد کی مخصوص رہنماؤں کے ساتھ کی جھوٹی(مارفڈ)تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دی ہوں یا کسی اور نے وزیراعلیٰ  کی لیپ ٹاپ پر کسی لاش کے جلنے کی دیکھتی ہوئی جھوٹی تصویر ڈال دی ہو۔

جنہوں نے یہ کیا ان کوسزا  ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں دیکھنے یافارورڈ کرنے والے کو نہیں کیونکہ ان کے پاس سچ جھوٹ کا پتہ  کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اسے نسلی/فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی سازش نہیں کہی جا سکتا۔

حلف نامہ نے ایک ویب سائٹ http://justiceforhathrasvictim.carrd.co/ کے اوپر بھی احتجاج کو ہوادینے کا الزام لگایا ہے۔ دھیان دینے کی بات ہے کہ ویب سائٹ انگریزی میں ہے اور اس میں‘بلیک لائیوس میٹر’ سے متعلق  ویب سائٹ سے اٹھاکرمواد ڈالا گیا ہے۔

کامن سینس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس ملک  میں ایسی بیوقوفی  کوئی نہیں کرےگا۔ الٹا یہ الزام  لگایا جا سکتا ہے کہ احتجاج  کو بدنام کرنے کے لیے کسی نے جان بوجھ کر ایسی ویب سائٹ بنوائی ہو۔

ابھی ہم نہیں جانتے کہ ویب سائٹ کس نے بنوائی تھی۔ پر سپریم کورٹ نے مکیش سنگھ بنام اسٹیٹ(نارکوٹکس برانچ آف دہلی)، متعدد دیگر مقدمات اورلاء کمیشن کی 277ویں رپورٹ میں پولیس کے ذریعے جھوٹے ثبوت  بنانے کی بات قبول کی ہے۔

ابھی اگست میں ہی بلرام پور میں ایک مبینہ دہشت گرد کے پاس سے ایک خودکش ڈھماکہ خیز  جیکٹ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔آپ اس کی تصویر کو دھیان سے دیکھیں تو اس میں ٹو پن پلگ دیکھیں گے۔ یعنی پولیس آپ کو بتانا چاہتی تھی کہ دہشت گرد پہلے اپنے کو کسی ایسی ساکیٹ سے جوڑتا اور پھر دھماکہ کرتا!

ہاتھرس معاملے کا حلف نامہ پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت،اعتبار اور متاثرین  کو انصاف  دلانے کی ان کی نیت تینوں پر سوالیہ نشان  لگاتا ہے۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )

(اس مضمون  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)