خبریں

خصوصی ریاست کا درجہ ملنے پر ہی بہاریوں کو بے روزگاری اور غریبی سے نجات ملےگی: کے سی تیاگی

انٹرویو:بہار اسمبلی انتخاب سے پہلے بنتے بگڑتے سیاسی گٹھ جوڑ کے بیچ جے ڈی یو کے قومی ترجمان کے سی تیاگی کا دعویٰ ہے کہ این ڈی اے دوبارہ اقتدارمیں آ رہی ہے اور نتیش کمار ہی وزیراعلیٰ  بنیں  گے۔ ان سے وشال جیسوال کی بات چیت۔

(فوٹو: دی وائر)

(فوٹو: دی وائر)

بہار میں اسمبلی انتخاب  کی تیاریاں زور پکڑ چکی ہیں۔ جہاں این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کا روپ طے ہو چکا ہے  وہیں ایل  جے پی اور تھرڈ فرنٹ دونوں ہی گٹھ بندھنوں کے ووٹوں میں سیندھ لگانے کی تیاری میں ہیں۔بتادیں کہ243 سیٹوں والے بہار اسمبلی انتخاب میں این ڈی اے گٹھ بندھن میں جنتا دل یونائٹیڈ(جے ڈی یو)115، بی جے پی110، ہم 7 اور وی آئی پی11 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

اسی طرح اپوزیشن مہاگٹھ بندھن میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)144، کانگریس 70 اور تین لیفٹ  پارٹی 29 سیٹوں پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ادھر لوک جن شکتی پارٹی(ایل جے پی)نے 143 سیٹوں پر امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا۔اس بار انتخاب  میں وزیراعلیٰ نتیش کمار کو اقتدار مخالف  لہر کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں کی پریشانیوں اور حال میں آئے سیلاب جیسے مدعوں کا بھی سامنا کرنا ہے۔

وہیں،جے ڈی یو کے خلاف امیدوار اتارنے کے ایل جے پی کے فیصلے نے نتیش کمار کی مشکلیں بڑھانے کا کام کیا ہے۔ بہار انتخاب کے مختلف  مدعوں پر جے ڈی یو کے قومی ترجمان کے سی تیاگی سے بات چیت۔

کووڈ19 انفیکشن کے بہار میں تقریباً دو لاکھ معاملے ہو چکے ہیں، کیا لگتا ہے کہ وبا کے دوران انتخاب کس طرح متاثر ہوں گے؟

کورونا کے زمانے میں انتخاب  کرانا مشکل امرہے، لیکن جمہوری عمل  کا حصہ ہے کہ انتخاب  وقت پر ہونے چاہیے۔ پڑوسی ملک سری لنکا میں انتخاب ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سنگاپور، جنوبی کوریااورکئی دیگر ممالک  میں انتخاب  ہوئے ہیں۔

یہ پایا گیا ہے کہ انتخاب  کے بعد انفیکشن زیرو فیصدی پھیلا ہے۔ یہ چیلنج ہمارے سامنے چھ سات مہینوں سے ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ بہار ان ٹاپ 15ریاستوں میں بھی نہیں ہے، جہاں کورونا نے اپنے پیر پھیلائے ہوئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جتنی بھی گائیڈلائنس ہے ان پر ہم عمل کریں گے۔ آئی سی ایم آر کی سفارشات کو نافذ کرتے ہوئے انہی چیلنجز میں یہ انتخاب ہونا ہے اور یہ سچ ہے کہ پہلے کی طرح یہ انتخاب مزیدار نہیں ہوں گے۔

پہلے بڑے بڑےعوامی اجلاس ہوتے تھے، جلوس نکلتے تھے، عوامی میٹنگ  ہوتے تھے، پٹاخے چھٹتے تھے، پیدل مارچ ہوتے تھے، نعرے لگتے تھے، گلال پھینکتے تھے، گلی گلی اور محلے محلے ناچ گانے ہوتے تھے۔ ان سب چیزوں کی کمی ہمیں کھلےگی لیکن اس کے علاوہ اس دور میں کوئی راستہ نہیں تھا۔

ایل جے پی کے جے ڈی یو کے خلاف آنے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا لگتا ہے کہ یہ بی جے پی کی حکمت عملی  کا حصہ ہے؟

ایل جے پی اور جے ڈی یو نے 2000 سے 2015 تک کبھی بھی مل کر ایک ساتھ انتخاب نہیں لڑا۔ اس لیے وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے اس کاامکان صفر ہے۔جہاں تک گٹھ بندھن کی بات ہے تو یہ آج کا نہیں ہے۔ یہ اٹل جی کے زمانے کا چلا آ رہا گٹھ بندھن ہے اور کسی ایک رہنما، کسی ایک پارٹی کے پروپیگنڈہ  سے آپ بھی متاثر ہیں کہ ہمارے اور بی جے پی کے بیچ میں کوئی چیز الگ الگ ہے۔ ہمارا گٹھ بندھن این ڈی اے ہے جس کے دہلی میں رہنما وزیراعظم(نریندر مودی)ہیں اور پٹنہ میں رہنما وزیراعلیٰ(نتیش کمار)ہیں۔

وزیراعظم،وزیر داخلہ، پارٹی صدر، پارٹی ترجمان، پارٹی کے بہار انچارج یہ سب ایک آواز میں کہہ چکے ہیں کہ بہار کے انتخاب کے بعد نتیش کمار جی ہی وزیر اعلیٰ  ہوں گے اور ان کی قیادت  میں انتخاب لڑا جائےگا۔دوسراپروپیگنڈہ یہ چلایا جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی کی سیٹیں زیادہ آ گئیں تو وزیراعلیٰ بی جے پی کا ہوگا۔ اس پر بھی پارٹی نے صاف کیا ہے کہ انتخاب  کے نتائج چاہے جو ہوں، رہنما صرف اور صرف نتیش کمار ہوں گے۔

لیکن اس بیچ بہار بی جے پی کے کئی بڑے چہرے ایل جے پی میں شامل ہوئے ہیں…

انتخاب  سیاسی کارکنوں کی جنگی مہارت کی علامت ہوتا ہے۔ تمام پارٹیوں کے کارکن جوانتخابی عمل  کا حصہ رہتے ہیں،عوامی تحریکات میں لگے رہتے ہیں، ان کی خواہش انتخاب لڑنے کی ہوتی ہے۔این ڈی اے کا گٹھ بندھن ایسا جتاؤ گٹھ بندھن ہے کہ سب لوگ ٹکٹ پانا چاہتے ہیں لیکن کئی بار سیٹوں کا تال میل آڑے آ جاتا ہے۔ پارٹی کے اندر بھی ایسی مشکل آتی ہے۔

یہاں تک کہ بی جے پی اور جے ڈی یو کو ٹکٹ بانٹنے میں مشقت کرنی پڑی ہے۔ گٹھ بندھن ہونے پر دو نئی پارٹی سامنے آئی۔اس لیےبی جے پی کے تین چار ایم ایل اے اور سابق ایم ایل اےایل جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں، جس کاانتخاب کے نتیجے پرصفر کے برابر بھی فرق نہیں پڑےگا۔

لاک ڈاؤن کے دوران بہار کے مزدور مختلف  ریاستوں اور بڑے شہروں میں پھنسے ہوئے تھےاور انہیں واپس لانے کو لےکر وزیراعلیٰ نتیش کمار کو کافی تنقید  کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا اس پریشانی  کو بہتر طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا؟

کووڈ19انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے، کبھی انسانی تاریخ میں ایساقہر نہیں ہوا جیسے اس بار ہوا ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین میں کئی لاکھ لوگ مر چکے ہیں۔ یہ صرف ہندوستان یا بہار کے لیےنہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تھا۔ آج چین کو چھوڑکر ہندوستان  سمیت باقی ساری معیشت  مائنس میں چلی گئی ہیں۔

مہاجرمزدور بہار کےبھی ہیں اور دیگر ریاستوں کے بھی ہیں۔ میں آپ سےمتفق ہوں کہ انہیں بہت سی مصیبتوں کو سامنا کرنا پڑا۔ اچانک لاک ڈاؤن ہونے سے مستقل اور عارضی تمام ملازمین کی نوکری چھوٹ گئی۔ اگلے ہی دن سے مکان مالکوں کا دباؤ ہو گیا کہ آپ مکان چھوڑیئے اور انہیں کھانے پینے کی بھی پریشانی ہو گئی۔

انہیں دنوں ڈبلیو ایچ او کے گائیڈ لائن کی بنیاد پر وزیر اعظم  کابیان آیا تھا کہ جو جہاں ہے، وہیں رہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ پر جب بڑے پیمانے پر ممبئی اور دہلی کے آنند وہار جیسی جگہوں سے لوگ چلنے کو تھے، تو مہاراشٹر کی سرکار ہو یا دہلی کی سرکار، وہ بھی انفیکشن کا مذاق اڑا رہی تھیں۔

جہاں ڈبلیو ایچ او دوگز کی دوری بنانے کےلیے کہہ رہا تھا، وہیں ایک جگہ پر 10ہزار آدمی اکٹھے ہو گئے تھے۔

انفیکشن نہ پھیلے اس لیےوزیراعظم  اوروزیراعلیٰ  چاہتے تھے کہ کچھ وقت کے لیے جو جہاں ہے وہیں رہے۔ لیکن جب ایک حالت  ایسی آ گئی کہ وہ وہاں نہیں رہ سکتے تھے تب ان کے لیے ٹرینیں بھی مہیا کرائی گئیں، پانچ پانچ ہزار روپے ہر بہاری کے کھاتے میں دیے گئے، گھر لوٹنے کے بعد کورنٹائن کا انتظام کیا گیا۔

اس کے بعد پانچ سو روپے گھر جانے کے لیے دیے گئے اور کوئی پریوار نہیں بچا، جس کو پانچ کیلو گیہوں، چاول یا دال نہ مہیا کرائی گئی ہو۔

یہ درست ہے کہ ان کو دقتیں ہوئیں، بہار میں روزگار کے امکانات کم تھے اور وہ آئے۔ لیکن سب کو احساس ہے کہ ایک ذمہ دار سرکار تھی جس نے ان کے سماجی  اورمعاشی سروکاروں کو ٹھیک سے ایڈریس کیا۔

روزگار کی بات کریں، تو بےروزگاری بہار کے لیے بھی ایک بڑی پریشانی ہے۔ این ایس او کی2019 کی رپورٹ کے مطابق بہار میں بےروزگاری کی شرح 7.2 فیصدی ہے جو قومی اوسط (6.1)سے زیادہ ہے۔ سی ایم آئی ای کی رپورٹ کے مطابق، اس سال اپریل میں بہار میں بےروزگاری 46.6 فیصدی تھی جو قومی اوسط سے 20 فیصدی زیادہ ہے۔۔ بےروزگاری کے مدعے پر آر جے ڈی لگاتار نتیش سرکار پر حملہ آور ہے۔ تیجسوی یادو نے کہا ہے کہ وہ اقتدارمیں آتے ہی پہلی کابینہ بیٹھک میں سب سے پہلا فیصلہ10 لاکھ نوجوانوں کو روزگار دینے کا لیں گے۔

میں کہہ رہا ہوں کہ 10 کروڑ لوگوں کو روزگار دیں گے، جبکہ بہار کی آبادی کل 12 کروڑ ہے۔ اونچی، غیرعملی، نقلی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟کس سیکٹر میں دیں گے وہ10 لاکھ (روزگار)، اگر کوئی بلوپرنٹ مانگے تو شاید وہ بول نہیں پائیں گے۔ بہار کے بٹوارے کے بعد سارے وسائل جھارکھنڈ چلے گئے۔ سارے کوئلہ کان، بڑے شہر،تعلیمی مرکز چلے گئے، دھنباد چلا گیا، رانچی چلا گیا، ٹاٹا سٹی چلا گیا جبکہ بہار کے حصہ میں کچھ بچا ہی نہیں تھا۔

تیجسوی یادو جی اپنے والداوروالدہ کے 15 سال یاد کریں، جب بجلی نہیں تھی۔ آج بہار کے ہر گھر میں بجلی ہے۔نظم ونسق کا یہ حال تھا کہ شام پانچ بجے تھانے بند ہو جاتے تھے۔ سڑکوں پر سے لوگ اٹھائے جاتے تھے، تاوان  مانگے جاتے تھے، نیشنل ہائی وے کے لیے کام کرنے والے مزدور اور ٹھیکیداروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔

ایک بار انتخاب کے دوران میں بی جے پی رہنما پرمود مہاجن جی کے ساتھ جا رہا تھا، تو ہمارا ہیلی کاپٹر بجلی کی تار سے ٹکرا گیا اور ہم دونوں ڈر گئے کہ ہم مر سکتے ہیں۔ تب پائلٹ کا کہنا تھا کہ یہ کپڑے سکھانے کے لیے ہے، یہاں بجلی نہیں آتی ہے۔ آج پورے بہار میں گھر گھر بجلی ہے۔

تعلیم اور بنیادی صحت کے شعبہ میں کافی کام ہوا ہے۔ حالانکہ، ہم ان باتوں سے انکار نہیں کرتے ہیں کہ ابھی ہمیں اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن تب کا بہار اور اب کا بہار،انتخاب  کے دوران مدعا یہی ہے۔

حال ہی میں وزیرمملکت نتیانند رائے نے کہا کہ آر جے ڈی اقتدار میں آئےگی تو کشمیر سے دہشت گرد آکر بہار میں بس جائیں گے۔ کیا فرقہ وارانہ  اور نیشنلسٹ پروپیگنڈے پر روک لگانے کو لےکر جے ڈی یو اور بی جے پی میں کوئی بات ہوئی ہے؟

ہم ان کے (بی جے پی)کئی طرح کے بیانات اورخیالات سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ دفعہ370 پر ہم نے حمایت نہیں دی، وزیراعلیٰ  نے اسمبلی کے اندر بولا کہ این آرسی ہمارے یہاں نافذ نہیں کیا جائےگا۔اسی طرح یونیفارم سول کوڈ پر ہماری صاف رائے ہے کہ سماج کے اسٹیک ہولڈرزکو شامل کرنا چاہیے اور جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں لینا چاہیے۔

اور نتیانند رائے جی کی یہ نجی رائے ہو سکتی ہے، یہ این ڈی اے کی رائے نہیں ہے۔ ہم ایسا مانتے ہیں کہ لالوجی کے راج میں جنگل راج تھا، مجرم پناہ پاتے تھے لیکن اس کا موازنہ کشمیر سے ہم نہیں کرتے ہیں۔

این ڈی اے کے مقابلے مہاگٹھ بندھن کو کہاں دیکھتے ہیں؟ مہاگٹھ بندھن کے سب سے بڑے رہنما لالو پرساد یادو فی الحال جیل میں ہیں، کیا ان کے باہر ہونے سےحالات  بدلے ہوئے ہوتے؟

ہم تو لالو جی کو ہراکر ہی اقتدارمیں آئے ہیں۔ 2005 میں تھے وہ، 2010 میں تھے وہ اور وہاں ہم نے ان کو ہرایا، تو بنیادی طور پرووٹرکا بڑا حصہ لالو جی کی خراب حکومت کے خلاف ہے اور وہ ہوتے تو اور بھی بری طرح سے ہارتے۔

سیٹوں کو لےکر آپ کا کیا اندازہ ہے؟

سال 2019 کے لوک سبھا انتخا ب کا اگر آپ انتخابی حلقہ کے حساب سےاعدادوشماراکٹھا کریں تو 243 سیٹوں کی اسمبلی میں 220 سیٹوں پر این ڈی اے آگے ہے۔ 2010 میں بھی 118 سیٹوں پر ہم جیتے تھے اور 92 سیٹوں پر بی جے پی جیتی تھی۔

ہمارے لیے2010 اور پچھلے لوک سبھا کے اعدادوشمارچیلنج ہیں کہ ہم اتنی ہی تعدادکے ساتھ دوبارہ واپس آئیں گے۔

سال2015اسمبلی انتخاب میں وزیراعظم مودی نے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے ڈی این اے کو لےکر ایک متنازعہ تبصرہ  کیا تھا۔ آج دونوں رہنما ساتھ ہیں لیکن کیا کوئی کڑواہٹ باقی ہے؟

پچھلے اسمبلی اور لوک سبھا انتخاب میں ہم ایک دوسرے کے خلاف لڑے۔ سبھی پارٹیوں،رہنماؤں، افراد اورلوگوں کے گروپ  کو اپنےحق میں دلیل دینے اورمخالفین کےخلاف پروپیگنڈہ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے لیے وہ باب ختم  ہو چکا ہے۔

پچھلے کافی عرصے میں مرکز کی طرف سے بہار سرکار اور ریاست کو کافی اقتصادی  مدد ملی ہے۔ اب ہم ایک جدید اورنیا بہار بنانے کے دہانے پر ہیں۔یہ دو انجن کی سرکار کہی جاتی ہے، دہلی اور پٹنہ مل کر کام کرتے ہیں۔ اس انتخاب میں بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد پھر بہار کی  نئی  تعمیرکے لیے ہم دونوں اکٹھے کام کریں گے۔

کیا بہار کے لیے خصوصی ریاست کا درجہ اب کوئی مدعا نہیں ہے؟

خصوصی ریاست کا مدعا ہر وقت ہے، ہر دن رہےگا۔ جب تک خصوصی ریاست کا درجہ نہیں ملےگا تب تک بےروزگاری، غربت، غریبی، لاچاری، بے بسی سے بہاریوں کو نجات  نہیں ملےگا۔ہماری اس سرکار سے بھی اپیل ہے اور کانگریس پارٹی کی سرکار سے بھی تھی کہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دو۔