الیکشن نامہ

نتیش کے بہار اسمبلی انتخاب کو اپنا ’آخری انتخاب‘ بتانے کے کیا معنی ہیں

نتیش کمار نے تیسرےمرحلہ کے انتخابی مہم کےآخری دن کہا کہ یہ ان کا آخری انتخاب  ہے۔ کیایہ ووٹنگ سے پہلے سیمانچل کے اقلیتوں  سمیت ان کے روایتی ووٹرس کی ہمدردی حاصل کرنے کا کوئی انتخابی ہتھکنڈہ ہے یا اس کا کوئی گہرا سیاسی مفہوم  ہے؟

نتیش کمار(فوٹو: پی ٹی آئی)

نتیش کمار(فوٹو: پی ٹی آئی)

بہار اسمبلی انتخاب  کو اپنی آخری پاری بتاکر نتیش کمار نے کیا دوہرا داؤ چلا ہے؟ اسے ایک طرف اس بی جے پی  کے لیےوارننگ  مانا جا سکتا ہے، جو سرعام ایل جے پی رہنماچراغ پاسوان کے ذریعے ان کے پر کترنا چاہ رہی ہے۔

دوسرے، سیمانچل میں بھاری تعداد میں بسےاقلیتوں اور اپنے روایتی حامیوں خواتین  اور بے حد پسماندہ کے ہمدردی والے ووٹ بٹورنے کی کوشش تو یہ دکھتی ہی ہے۔انہوں نے انتخابی مہم  کے آخری دور میں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ عرف اجے سنگھ بشٹ کےپولرائزیشن  والے بیان پر سخت ردعمل دے کر کر بھی نیا داؤ چلا ہے۔

یوگی کے سی اےاےیعنی شہریت  قانون کےتحت این آرسی میں بہار سے مبینہ بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کو نکال باہر کرنے سے متعلق  بیان کو انہوں نے فالتو کی بات کہا ہے۔

نتیش نے کہا، ‘انہیں دیش سے کون نکالے گا؟ کسی کو بھی کسی کو باہر نکالنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ سب ہندوستانی ہیں۔ ہماری کوشش بھائی چارہ، ایکتا اور ہم آہنگی  کے لیے کام کرنے کا ہے تاکہ ترقی ہو سکے۔ اور یہ لوگ صرف بانٹنا چاہتے ہیں، انہیں اور کوئی کام نہیں ہے۔’

ان کے اس محاورہ کی اہمیت‘انت بھلا ،سو بھلا’والے بیان سے اور بڑھ گئی ہے۔ اس کے ذریعے کیا وہ بہار کے نتیجوں کو بھانپ کر اپنے لیے قومی سطح  پر جگہ بنانے کی فراق  میں ہیں؟شاید وہ سمجھ گئے کہ بی جے پی اگر انہیں بہار میں کمزور کرنے میں کامیاب رہی تو انہیں اسے جھٹک کر متبادل سیاست کرنی ہوگی۔

متبادل سیاست توسیکولرازم اورسب کے لیے جگہ کی  نیت جتا کر ہی ہو سکتی ہے، اس لیے انہیں بدھ کی دھرتی پر خالص بھگوادھاری یوگی کی جانب سے ہفتہ عشرے  سے پولرائزیشن  کی کوشش کے پروپیگنڈہ کے آخری دن جواب دےکر بی جے پی کو خبردار کرنے کی سوجھی ہے۔

اس لحاظ سے یوگی مخالفت  کا فوری فائدہ بھلے سیمانچل کے اقلیتی  ووٹرس میں جے ڈی یو کی حصے داری بڑھانے کے طور پر دکھے، مگر اس میں ان کے مستقبل کی سیاست  کی جھلک سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔سچ یہ بھی ہے کہ ان کے ڈیڑھ دہائی  لمبے راج میں اقتدار میں بی جے پی  سے شراکت  کے باوجود وہ  اقلیتوں  کے لیے لگ بھگ عام  زندگی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

سی اے اےکو حمایت  دینے کے باوجود نتیش نے این آرسی کے ریاست میں نافذ ہونے کا سوال ہی نہ پیدا ہونے کی بات کہی تھی۔یہ اور بات ہے کہ ان کے یوگی مخالفت سے اشرافیہ  ہندو ووٹ بی جے پی امیدواروں  کے پیچھے صف بند ہو سکتے ہیں، جن کا وزیراعظم  نریندر مودی سے دل ٹوٹنے کاتصور بن رہا تھا۔

یوگی کے بیان کو نتیش نے کشن گنج میں چار اکتوبر کو اپنے انتخابی اجلاس میں‘فالتو بات’بتایا ہے۔ یوگی نے مذکورہ بیان کٹیہار کے عوامی اجلاس میں دیا تھا۔

آخری  دور میں سات نومبر کو ریاست کی 78اسمبلی سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے۔ ان میں جے ڈی یو 37، آرجے ڈی 46، کانگریس 25، بی جے پی35،سی پی آئی ایم 5، سی پی آئی2، وی آئی پی 5 اور ہم ایک سیٹ پر چناؤ لڑ رہی ہیں۔

اسی لئے یوگی ہی نہیں وزیر اعظم  نریندر مودی نے بھی سیمانچل میں اپنے اجلاس میں پولرائزیشن  کی بھرپور کوشش کی۔

انہوں نے سیمانچل میں آخری ریلی میں مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں پر ان لوگوں کے حامی  ہونے کا الزام لگایا تھا، جو بھارت ماتا کی جئے اور جئے شری رام بولنے سے پرہیز کرتے ہیں۔سیمانچل میں جےڈی یو اور مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کے بیچ اقلیتی ووٹ بٹورنے کا زبردست مقابلہ ہے کیونکہ اسدالدین اویسی کی پارٹی نے بھی اس حلقہ میں اپنے امیدوار اتارے ہوئے ہیں۔

راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے گٹھ بندھن میں ساجھی دار اےآئی ایم آئی ایم نے پچھلے سال کشن گنج میں اسمبلی  کا ضمنی انتخاب  جیت کر اس بار سیمانچل کی اقلیتی اکثریت والی سیٹوں پر اپنا مضبوط دعویٰ پیش کیا ہے۔کشن گنج سیٹ دراصل کانگریس ایم ایل اے محمد جاوید کے پچھلے سال لوک سبھا کے لیے منتخب  ہونے سے خالی ہوئی تھی۔ اس سیٹ پر کل ووٹرس میں اقلیتی  ووٹروں کی تعداد 70 فیصدی بتائی جاتی ہے۔

سال 2015 میں نتیش لالو کانگریس مہاگٹھ بندھن کو ریاست میں اقلیتوں  کے کل ووٹوں میں تھوک مطلب 77 فیصدی ووٹ اور این ڈی اے کو محض چھ فیصدی ووٹ ملے تھے۔نتیش یہ بخوبی جانتے ہیں کہ آر جے ڈی  اور کانگریس کے مقابلے محض 35 فیصدی اقلیتی  امیدواروں کے بوتے وہ 2015 کا کرشمہ تو دوہرا نہیں سکتے۔

اس کے باوجود اپنے کام گنا کر اور اپنے راج میں اقلیتوں  کوتحفظ کا احساس کرواکر نتیش سیمانچل کو اپنے امیدواروں کے لیے بھنانا چاہتے ہیں۔انت بھلا سو بھلا کہہ کر نتیش اقلیتوں کو خبردار بھی کر رہے ہیں کہ ان کی وداعی کے بعد اگربی جے پی  کا راج آیا تو وہ اپنے مستقبل کا خود ہی اندازہ  لگا لیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے اقلیتوں کو بھاگلپور دنگے میں انصاف اور مالی امداد دلانے، سرکاری مدرسوں کے طلبا کووظیفہ دلانے، پسماندہ مسلمانوں کے لیے اپنی  خدمات، قبرستانوں کی چہار دیواری کروانے وغیرہ کی یاد دلائی اور سبھی مڈل اسکولوں میں اردو ٹیچر کے تقرری کی منشا جتائی۔

اقلیتوں کے من میں 2019 میں نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد جموں وکشمیر میں دفعہ 370 ختم کرنے اور ہندو پناہ گزینوں کو سی اے اےکے تحت مذہبی بنیاد پر شہریت دےکر بی جے پی  کا ہارڈکور ایجنڈہ نافذ ہونے سے بی جے پی کو ریاست میں اقتدار سے اکھاڑنے سکنے والے کا ساتھ دینے کی رائے ہے۔

اقلیت بابری مسجدانہدام معاملے میں بھی اڈوانی، اوما بھارتی سمیت تمام  ملزمین کو عدالت کے ذریعے بری کر دیےجانے سے مضطرب ہیں۔ رام مندر کے بھومی پوجن کا ذکر کرکے یوگی ان کے زخموں کو اور کرید گئے۔ سو اقلیت  بے چین ہیں۔

پھر دس لاکھ سرکاری نوکری دینے کے وعدے نے جس طرح سے نوجوانوں کو تیجسوی کے پیچھے صف بند کر دیا، اس سے اقلیت کا رجحان مہاگٹھ بندھن کے حق  میں ہونے کے شدیدآثار ہیں۔سیمانچل میں اقلیتی ووٹرس کی تعداد کشن گنج میں جہاں 70 فیصدی ہے، وہیں ارریہ میں 45 فیصدی، کٹیہار میں 40 فیصدی اور پورنیہ میں 30 فیصدی سے زیادہ ہے۔

آخری دور کی 78 میں ایک تہائی سیٹوں پر اقلیتوں  کی اچھی تعداد ہے۔ بہار میں اقلیتی ووٹرس کی کل تعدادیادووں کےلگ بھگ برابر 17 فیصدی ہے۔رہی بات وزیراعلیٰ کے ‘آخری انتخاب’کے داؤ کی، تو اپنی بات سے مکرنے کا نتیش کمار کا پرانا ریکارڈ ہے۔

سال 2013 میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو بی جے پی کی جانب سےوزیر اعظم  امیدواربنانے کے بعد نتیش گٹھ بندھن توڑ کر این ڈی اے سے باہر آ گئے تھے۔

تب اسمبلی میں انہوں نے کہا تھا، ‘رہیں یا مٹی میں مل جا ئیں گے، آپ لوگوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔’پر اپنے اس جملے کو بھلاکر انہوں نے جولائی 2017 میں ہی مہاگٹھ بندھن کی سرکار گراکربی جے پی  کے ساتھ نئی سرکار بنا لی تھی۔

اسی طرح سال 1996 میں اپنا سارا وقت بہار میں لگانے کے اعلان کے بعد نتیش دہلی گئے اور اسمبلی  سے استعفیٰ دےکر لوک سبھا میں بنے رہ گئے۔اسی لئے اپنا آخری انتخاب بتانے کی ان کی بات پر آرجے ڈی ، ایل جے پی اور کانگریس وغیرہ نے ان پر چناؤ ہارتے دیکھ کر میدان چھوڑکر بھاگنے کاالزام لگایا ہے۔

(مضمون نگارسینئر صحافی  ہیں۔)