خبریں

امریکہ: صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد پہلے خطاب میں جو بائیڈن نے کہا، زخموں کو بھر نے کا وقت

 صدارتی انتخاب کے بے حدسخت مقابلے میں تاریخی  جیت حاصل کرنے کے بعد ڈیموکریٹک رہنما جو بائیڈن نے کہا کہ میں ایسا صدر بننے کاعہد کرتا ہوں، جو بانٹنے نہیں، بلکہ متحد کرنے کی کوشش کرے گا، جو ڈیموکریٹک ری پبلکن ریاستوں میں فرق نہیں کرےگا، بلکہ پورے امریکہ کو ایک نظر سے دیکھےگا۔

جو بائیڈن۔ (فوٹو: رائٹرس)

جو بائیڈن۔ (فوٹو: رائٹرس)

امریکہ میں صدارتی انتخاب کے بےحدسخت مقابلے میں تاریخی  جیت حاصل کرنے کے بعد ڈیموکریٹک رہنما جو بائیڈن نے ملک  کو متحدکرنے کا عہد لیا اور کہا کہ اب ‘زخموں کو بھرنے کاوقت’آ گیا ہے۔بائیڈن اور ری پبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے بیچ صدارتی عہدے کے لیے ہوا مقابلہ کڑواہٹ بھرا رہا۔ اس انتخاب میں امریکیوں نے ریکارڈ تعداد میں حق رائے دہی کا استعمال کیا اور بائیڈن کی جیت کو یقینی بنایا۔

بائیڈین نے سنیچر رات جیت کے بعد اپنے خطاب میں کہا، ‘میں ایسا صدر بننے کاعہد کرتا ہوں، جو بانٹنے نہیں، بلکہ متحد کرنے کی کوشش کرےگا، جو ڈیموکریٹک ری پبلکن ریاستوں میں فرق نہیں کرےگا، بلکہ پورے امریکہ کو ایک نظر سے دیکھےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘یہ امریکہ میں زخموں کو بھرنے کا وقت ہے۔’

بائیڈن نے کہا، ‘آپ لوگوں نے مجھ میں جو بھروسہ دکھایا، میں اس کے لیے آپ کاشکرگزار ہوں۔’

ناظرین کی تالیوں کے بیچ انہوں نے کہا، ‘میں اپنی مدت کار میں امریکہ کی روح کو دوبارہ زندہ کرنے، ملک کی ریڑھ کی ہڈی متوسط طبقہ کو پھرسے مضبوط کرنے، دنیا بھر میں امریکہ کی عزت  بڑھانے اور ملک  کے اندر ہمیں متحد کرنے کے لیے کام کروں گا۔’

پینسلوینیا میں جیت کے ساتھ ہی بائیڈن کو 270 سے زیادہ‘الیکٹورل کالج ووٹ’مل گئے جس کے بعد وہ اکثریت کے مطلوبہ اعدادکو پار کر گئے۔گزشتہ منگل کو ختم  ہوئے انتخاب کے بعد ان کی جیت کااعلان چار دنوں تک چلے کانٹے کی ٹکر کے بعد ہوا، جس کے بعد سے ان کے حامی سڑکوں پر نکل کر جشن منا رہے ہیں۔

د ی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، ڈیلاوییر کے اپنے آبائی شہر ولمنگٹن میں خطاب  کے دوران جشن منا رہے حامیوں سے کہا، ‘اس ملک  کے لوگوں نے اپنی آواز دی ہے۔ انہوں نے ہمیں واضح  جیت دی ہے جو کہ ایک ٹھوس جیت ہے۔

ٹرمپ حامیوں  کی طرف رخ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘اب ہمیں ایک دوسرے کو موقع دینا چاہیے۔ یہ وقت سخت بیان بازی اور غصے کو کم کرنے کا ہے۔ یہ وقت ایک دوسرے کو دیکھنے اور سننے کا ہے۔’

بائیڈن نے کہا،‘آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنے مخالفین کے ساتھ دشمن کی طرح برتاؤ کرنا بند کرنا ہوگا۔ ہم دشمن نہیں ہیں۔ ہم امریکی ہیں۔ بائبل ہمیں بتاتا ہے کہ سب کچھ کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے اوریہ زخموں کو بھرنے کا وقت ہے۔یہ امریکہ میں زخموں کو بھرنے کا وقت ہے۔’

اس دوران انہوں نے اپنے انتخابی مہم  کی تاریخی نوعیت اورحامیوں کےجدوجہد کا بھی ذکر کیا۔

بائیڈن نے کہا، ‘ہماری حمایت  کرنے والے لوگوں سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں مجھے اس مہم پر فخر ہے جسے ہم نے بنایا اور چلایا۔ مجھے اس اتحاد پرفخر ہے، جسے ہم نے تاریخ  میں سب سے جامع  اور سب سے متنوع صورت میں رکھا ہے۔ ڈیموکریٹس، ری پبلکنس اور انڈیپینڈینس۔’

انہوں نے کہا ، ‘ترقی پسند ، اعتدال پسند اور قدامت پسند ۔ جوان اور بوڑھے۔ شہری ، مضافاتی اور دیہی۔ ہم جنس پرستوں ،اسٹریٹ ، ٹرانس جینڈر سفید فام ،لاطینی ایشین امریکی اور خاص طور پر ان لمحوں کے لئے جب یہ مہم انتہائی نچلی سطح پر تھی  تب افریقی نژاد امریکی کمیونٹی دوبارہ میرے لئے کھڑی ہوئی۔ انہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور میں اب آپ کا ساتھ دوں گا۔ ‘

سب سے نوکم عمر سینیٹر سے عمردراز امریکی صدر بننے کا سفر

امریکہ کی سیاست میں قریب پانچ دہائی  سے متحرک  جو بائیڈن نے سب سے کم عمر سینیٹر سے لےکرعمردراز امریکی صدر بننے تک کا شاندار سفر طے کرکے سنیچر کو تاریخ رقم کردیا۔قابل ذکر ہے کہ 77سالہ بائیڈن چھ بار سینیٹر رہے اور اب امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ہراکر ملک  کے صدر چنے گئے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ کامیابی انہوں نے اپنی  پہلی کوشش میں حاصل کی  ہے۔ بائیڈن کوسال 1988 اور 2008 میں صدارتی عہدے کی دوڑ میں ناکامی ملی تھی۔

صدر بننے کا خواب دیکھنے والے ڈیلاوییر سے آنے والے رہنما بائیڈن کو سب سے بڑی کامیابی  اس وقت  ملی، جب وہ جنوبی کیرولائنا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری میں29 فروری کو اپنے تمام حریفوں  کوپیچھے چھوڑ کر صدارتی امیدوار کی دوڑ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔

واشنگٹن میں پانچ دہائی گزارنے والے بائیڈن امریکی عوام کے لیے ایک جانا پہچانا چہرہ تھے کیونکہ وہ دو بار امریکی صدر براک اوباما کےزمانے میں نائب صدر رہے۔بتادیں کہ 74سالہ  ٹرمپ کو ہراکر وہائٹ ہاؤس میں جگہ پانے والے بائیڈن امریکی تاریخ  میں اب تک کے سب سے عمردراز صدر بن گئے ہیں۔

پینسلوینیا میں سال1942 میں پیداہوئے جو رابنیٹ بائیڈن جونیئر نے ڈیلاوییریونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور بعد میں سال 1968 میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔بائیڈن ڈیلاوییر میں سب سے پہلے 1972 میں سینیٹر چنے گئے اور انہوں نے چھ بار اس عہدے پر قبضہ جمایا۔ 29سال کی عمر میں سینیٹر بننے والے بائیڈین اب تک سب سے کم عمر میں سینیٹر بننے والے رہنما ہیں۔

ہندوستان اورامریکہ کےتعلقات کو مضبوط کرنے کے حمایتی

ڈیلاوییر ریاست میں لگ بھگ تین دہائی تک سینیٹر رہنے اور اوباما کے دوراقتدار میں آٹھ سالوں کی  اپنی  مدت کار میں وہ ہمیشہ ہی ہندوستان اور امریکہ  کے رشتوں  کو مضبوط کرنے کے حمایتی رہے۔بائیڈن نے ہندوستان  امریکہ جوہری معاہدے کے پاس ہونے میں بھی اہم رول نبھایا تھا۔ ہندوستانی رہنماؤں سے مضبوط رشتہ رکھنے والے بائیڈین کے دائرے میں کافی تعداد میں ہند امریکی بھی ہیں۔

انتخاب کے لیےفنڈمہیا کرنےکی  ایک مہم کے دوران جولائی میں بائیڈن نے کہا تھا کہ ہندوستان  امریکہ ‘قدرتی  ساجھے دار’ ہیں۔

انہوں نے بطور نائب صدرآٹھ سال کی مدت  کار کو یاد کرتے ہوئے ہندوستان سے تعلقات  کو اور مضبوط کیے جانے کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوتے ہیں توہندوستان  امریکہ کے بیچ رشتہ ان کی ترجیحات میں ہوگا۔

ایچ 1بی ویزا کی مدت  بڑھا سکتے ہیں

امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن ایچ 1بی سمیت دیگر اعلیٰ مہارتی  ویزا کی مدت  بڑھا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ مختلف ممالک  کے لیے روزگار پر مبنی  ویزا کے کوٹا کو ختم  کر سکتے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ ان دونوں ہی قدموں سے ہزاروں ہندوستانی  پیشہ وروں کو فائدہ ہوگا۔

ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسیوں سے ہندوستانی پیشہ ور بری طرح متاثر ہوئے تھے۔مانا جا رہا ہے کہ بائیڈن ایچ 1 بی ویزاہولڈرس کے شریک حیات کے لیے ورک  ویزا پرمٹ کو رد کرنے کے ٹرمپ انتظامیہ  کے فیصلے کو بھی پلٹ سکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے امریکہ میں رہنے والے ہندوستانی فیملی متاثر ہوئے تھے۔

بائیڈن انتظامیہ کا منصوبہ امیگریشن کی ایک جامع اصلاح پر کام کرنے کا ہے۔ انتظامیہ ان اصلاحات کو مکمل طور پر یا ٹکڑوں میں نافذ کرے گی۔بائیڈن مہم کی جانب سے جاری دستاویز میں کہا گیا ہے، ‘اعلیٰ مہارت کے عارضی  ویزا کا استعمال پہلے سے امریکہ میں مختلف  عہدوں  پر کام کرنے کے لیے موجود پیشہ وروں کی تقرری  کی حوصلہ شکنی کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے۔’

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)