خبریں

آن لائن نیوز پورٹل اور اسٹریمنگ پلیٹ فارم وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت لائے گئے

آن لائن نیوز پورٹلوں اورکنٹینٹ پرووائیڈرز کو وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت لانے کے لیےمرکزی حکومت  نے ایک حکم جاری کیا ہے۔دلچسپ یہ ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پردستیاب خبروں اورعصری موضوعات  سے متعلق مواد کو ‘پریس’کے ذیلی زمرہ کے تحت نہ رکھ کر ‘فلم’کے ذیلی زمرہ  میں رکھا گیا ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: آن لائن نیوز پورٹلوں اور کنٹینٹ پرووائیڈرز کو وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت لانے کے لیےمرکزی حکومت  نے ایک آرڈر جاری کیا ہے۔

گزشتہ10 نومبر کو صدر رام ناتھ کووند کی جانب سے جاری ایک گزٹ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ آن لائن پلیٹ فارمز پردستیاب فلم، آڈیو ویوژول اور خبروں اورعصری موضوعات  سے متعلق موادکو حکومت ہند کے دوسرےشیڈول  میں وزارت اطلاعات و نشریات میں حکومت ہند کے دوسرے شیڈول(کاروبار ی تخصیص)ضابطہ، 1961کے تحت لایا جائےگا۔

خبروں  او رعصری موضوعات  سےمتعلق مواد کو فلم کے زمرے میں رکھا گیا

وزارت اطلاعات و نشریات کےتحت آنے والے کاروباری قواعد1961 کے الاٹمنٹ کے شیڈول میں نو بڑے زمرےآتے ہیں جن میں نشریاتی پالیسی اور انتظامیہ، کیبل ٹیلی ویژن پالیسی، ریڈیو، دوردرشن، فلمیں،اشتہار اور ویڈیو اشتہار، پریس،اشاعت، اورریسرچ اورریفرنس شامل ہیں۔

دلچسپ یہ ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پر دستیاب خبروں  اورعصری موضوعات سے متعلق مواد کو ‘پریس’ کے ذیلی زمرہ  کے تحت نہ رکھ کر ‘فلم’کے ذیلی زمرہ میں رکھا گیا ہے۔

وزارت نے 2018 سے شروع کی آن لائن میڈیا پر لگام لگانے کی کوشش

آن لائن میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا قدم پہلی بار مارچ 2018 میں اس وقت کی وزیراطلاعات ونشریات ا سمرتی ایرانی نے شروع کیا تھا۔

اس کے ایک مہینے بعد ان کی وزارت نے ایک سرکولر جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں بڑھتے فرضی خبروں کو روکنے کے لیےسرکار نے فیصلہ کیا ہے کہ جن صحافیوں کے خلاف فرضی خبریں بنانے/پروپیگنڈہ کرنے کی شکایت آئیں گی ان کی منظوری فوراًرد کر دی جائےگی۔

حالانکہ،وزیر اعظم دفتر کی دخل اندازی کے بعد سرکولر واپس لے لیا گیا لیکن یہ طے ہو گیا کہ آن لائن میڈیا کی آزادی  پر لگام لگانے کی تیاری شروع ہو چکی تھی۔دہلی میں نیشنل لاء یونیورسٹی میں سینٹر فار کمیونی کیشن گورننس(سی سی جی)کی ایک رپورٹ نے تب انکشاف کیا تھا کہ آن لائن پلیٹ فارم پہلے سے ہی بہت زیادہ ریگولیٹ ہیں۔

آن لائن پورٹل کو آئی ٹی ایکٹ، 2000 کے ذریعےکنٹرول کیا جاتا ہے، جس کے کچھ حصوں کو عدالتوں کے ذریعے غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ حالانکہ سرکار کو ابھی بھی آن لائن کنٹینٹ کو بلاک کرنے، فلٹر کرنے اور ہٹا لینے یا انٹرنیٹ ایکسیس پوری طرح سے بند کرنے کا اختیار ہے۔ یہ آپشن حکومت ہند کے ذریعےباقاعدگی  سے جاری کیے گئے ہیں۔

سی سی جی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالاں کی  آن لائن میڈیا اسپیس(خبریں  اور دیگر دونوں)مواد کامقداراور پلیٹ فارم پرنشر کرنےکے نوعیت  کے سیاق میں بنا قانون کےذریعے ریگولیٹ لگتا ہے پھر بھی ہندوستانی قانون آن لائن اسپیس میں پہلے سے ہی کافی سخت ہیں۔ رپورٹ میں دیکھا گیا کہ یو پی اے سرکار کے ذریعے پیش کئی تادیبی تدابیر کو این ڈی اے سرکار نے آگے بھی جاری رکھا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ69 اے کے تحت آن لائن مواد پوری طرح سے ہٹائے جا جا سکتے ہیں۔ حالانکہ، اس دفعہ کو بھی عدالت میں چیلنج دیا گیا تھا، لیکن اسے غیر آئینی  مانا گیا۔

حال ہی میں یوپی ایس سی اگزام  پاس کرنے والے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی توہین کرنے والے سدرشن نیوز کے پروگرام کی شنوائی کرنے کے دوران مرکزی حکومت  نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ میڈیا کا ریگولیشن ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ شروع ہونا چاہیے نہ کہ الکٹرانک میڈیا کے ساتھ۔مرکز نے کہا تھا کہ آن لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمزتیز اور زیادہ  پہنچ والے ہیں۔

وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک انڈرسکریٹری کے دستخظ شدہ  حلف نامے میں مرکز نے کہا تھا کہ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سلسلے میں خاطر خواہ خاکہ  اور قانونی اعلانات پہلے سے موجود ہیں۔ حالانکہ، ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

اکتوبر 2019 میں رائٹرس نے رپورٹ کیا تھا کہ سرکار کئی عدالتی معاملوں اور شکایتوں کے بعد نیٹ فلکس، ہاٹ اسٹار اور امیزون پرائم جیسے پلیٹ فارم کو سینسر کرنے کے لیے ایک قانون پر غور کر رہی تھی۔ ان شکایتوں میں الزام لگایا گیا تھا کہ کچھ مواد فحش یا توہین آمیز اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے تھے۔

کوئی قانون نہ ہونے کی صورت میں چاروں بڑے آن لائن پلیٹ فارم نے اس سال فروری میں ایک سیلف ریگولیشن کوڈ پردستخط کیا تھا، جس کے بعد ایسی تشویش تھی کہ یہ قدم سیلف سینسرشپ کے لیے بلاوا دے رہا ہے جس کے بعد آن لائن اسٹریمنگ بھی ٹی وی کے راستے پر چلا جائےگا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔