الیکشن نامہ

کیا ہندوستانی مسلم رائے دہندگان کو متبادل حکمت عملی کی ضرورت ہے؟

مودی کے رتھ کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ دارکانگریس ہے، جس کی من مانی اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں لڑنے کی ضد نے سیکولر اتحاد کی کامیابی میں روڑے اٹکائے۔اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا جنوبی صوبہ کیرالا کا ماڈل اپنا لیں؟

نریندر مودی اور راہل گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

نریندر مودی اور راہل گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

امریکی ووٹروں نے تو صدارتی انتخابات میں کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی، ابتر معیشت اور سیاہ فاموں کے خلاف نسلی تشدد کے لیے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وہا ئٹ ہاؤس سے باہر کا راستہ تو دکھا دیا، مگر ہزاروں میل دور ہندوستان کی مشرقی ریاست بہار کے حالیہ انتخابات میں جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کے زیر قیادت اتحاد نے اقتدار میں واپسی کی، اس سے لگتا ہے کہ دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات،کورونا وائرس سے نپٹنے میں ناکامی یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کی حالت زار ہندوستانی ووٹروں کو پسیج نہیں پائی۔

تمام تر ناکامیو ں کے باوجود، وہ مودی کی گفتار اور ہندو تواکی سیاست  کے اسیر ہیں۔ مگر باریک بینی سے انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرنے سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ مودی کے رتھ کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری اپوزیشن کانگریس کے سر جاتی ہے، جس کی من مانی اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں لڑنے کی ضد نے سیکولر اتحاد کی کامیابی میں روڑے اٹکائے۔

اب اس کے لیڈران مع چند بندھوا مسلم لیڈران و علما سیکولر اتحاد کی ہار کا پورا ٹھیکرا حیدر آباد کے ممبر پارلیامان اسدالدین اویسی کے سر پر پھوڑکر یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے مسلم ووٹ بکھر گیا اور ہندو ووٹ یکجا ہوگیا۔

او یسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اےایم آئی ایم)دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی جنتا دل کے ساتھ مل کر 20 نشستوں پر قسمت آزمائی کر رہی تھی اور پانچ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ کانگریس نے پچھلی بارکل  243نشستوں میں سے 40نشستوں پر انتخاب لڑا اور20جیت گئی تھی۔ اس بار اس نے 70سیٹوں پر لڑنے کی ضد کی، مگر بس 19میں کامیابی حاصل کی۔اگر یہ سیٹیں بائیں بازو یا راشٹریہ جنتا دل کے کھاتے میں چلی جاتی تو نتائج کچھ مختلف ہوتے۔

مجھے یاد ہے کہ کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے ایک ماہ بعد دہلی کے سری فورٹ آڈیٹوریم میں سونیا گاندھی کی تقرری پر مہر لگانے کے لیے اپریل 1998میں کانگریس کمیٹی کا سیشن منعقد ہوا۔ لوک سبھا میں پارٹی کے لیڈر شرد پوار نے میٹنگ میں یاد دلانے کی کوشش کی کہ اب یہ عہد رفتہ کی کانگریس نہیں ہے۔ انہوں نے کانگریس کی تشبیہ کسی زمیندار سے دی، جس کی زمینیں بک چکی ہیں، حویلی خستہ حال ہو چکی ہے۔ وہ خود مقروض ہوکر زندگی کھنچ  تو رہا ہے، مگر زمینداری کا نشہ برقرار ہے۔

مگر ملک بھر سے آئے کانگریس کے اراکین کو یہ تشبیہ سخت ناگوار گزری اور انہوں نے پوار کی اس قدر ہوٹنگ کی کہ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنی تقریر ختم کی۔ اس سیشن میں جو سیاسی قرار داد پاس ہوئی، اس کا لب ولباب تھا کہ گاندھی فیملی نے اب چونکہ دوبارہ کانگریس کی قیادت سنبھالی ہے، اس لیے ا ب پارٹی عروج کی طرح گامزن ہو جائےگی اور اپنے دم پر اتحادیوں کے بغیر انتخابات لڑے گی۔

مگر متواتر انتخابات ہارنے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہر کشن سنگھ سرجیت کی ایما پر 2004کے انتخابات میں کانگریس نے سیٹوں کی تقسیم میں دریا دلی دکھا کر متحدہ ترقی پسند اتحاد تشکیل دےکر دیگر پارٹیوں کی مدد سے بی جے پی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ مگر جلد ہی اناعود کر آگئی۔ چند برسوں کے بعد جب 2009کے پارلیامانی انتخاب کی تیاریاں ہو رہی تھیں، تو بہار کی سب سے بڑی پارٹی لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل(آر جے ڈی) نے کانگریس کو 40میں سے پانچ نشستیں لڑنے کی پیشکش کی۔

مگر کانگریس نے اس کو حقارت سے ٹھکرا کر اعلان کیا کہ وہ سبھی سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرےگی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس خود کوئی سیٹ لینے میں کامیاب تو نہیں ہوئی، دوسری طرف ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے آر جے ڈی بس چار سیٹیں جیت پائی۔ پارٹی اسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے بجائے کانگریس ابھی بھی گاندھی فیملی کو ہی انتخابات میں بھنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس کے لیڈران ابھی تک اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ موجودہ دور کا  عام ووٹر پریوں اور راجے مہاراجوں کی کہانیان سن کر پروان نہیں چڑھا ہے۔ بلکہ وہ اب اسی لیڈر کو ترجیح دیتا ہے جو قابل رسائی ہو یا  ماضی میں اس کی ہی جیسی زندگی گزار چکا ہو۔ کانگریس اب ایسا بوجھ بن گئی جسے کوئی اتحادی اب شاید ہی اپنے ساتھ رکھنا چاہے۔پڑوسی ریاست اترپردیش میں تو سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی نے ضمنی انتخابات میں کمان سنبھالی تھی، مگر پھر بھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔


یہ بھی پڑھیں:بہار: کیا اویسی واقعی بی جے پی کے ایجنٹ ہیں؟


ان انتخابات میں ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر ہندوستان میں بسنے والے 200ملین مسلمان کیا کریں؟ سیکولر پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ  پچھلے سال ماہ رمضان سے دو ماہ قبل اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ نے ضلعی صدور کو پیغام بھیجا  تھا کہ تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو وہاں ملائم سنگھ یادویاان کے صاحبزادے اکھلیش کی تصویر یا پارٹی کا بینر آویزاں  نہیں ہونا چاہیے۔

مزید ہدایت تھی کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔اس پارٹی کے ایک مقتدر مسلم لیڈر اعظم خان فی الوقت اپنے اہل و عیال کے ساتھ جیل میں بند ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے سماج وادی پارٹی کے کسی لیڈر نے کوئی مہم چلانا تو دور کی بات، زبانی جمع و خرچ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ چند برس قبل کانگریس کے مقتدر لیڈر اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد کو شکوہ کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے ہندو اراکین اب ان کو اپنے حلقوں میں جلسے اور جلوسوں میں مدعوکرنے  سے کتراتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا 1973میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لےکر آج تک انہوں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اورہندو لیڈر،  ان کو اپنے انتخابی حلقوں میں لے جانے کے لیے بے تاب ہوتے تھے۔ پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں ان کو مدعوکرنے کے لیے95فیصد درخواستیں ہندو لیڈروں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض 20فیصد رہ گئی ہیں۔ 2017میں گجرات کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر کانگریس نے کارکنوں کو باضابطہ ہدایت دی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم لیڈر براجمان نہ ہو۔ حتیٰ کہ گجرات سے کانگریس کے مقتدر لیڈر اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو پس پردہ رہنا پڑا۔

امیدوارں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے، جلوسوں میں لمبی داڑھی و ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ اسی طرح کی حکمت عملی بعد میں 2019   کے عام انتخابات میں بھی اپنائی گئی۔ ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے راہل گاندھی نے  مندروں اور مٹھوں میں جاکر آشیر واد بھی لی تاکہ خود کو مودی سے زیادہ ہندو ثابت کرسکیں۔ پارٹی نے مسلم لیڈروں کو  یہ بھی بتایا تھا کہ انتخابات میں وہ ٹکٹ یا مینڈیٹ کے حصول کے لیے تگ و دو نہ کریں اور حلقہ کے لیے کسی مضبوط سیکولر ہندو امیدوار کر ترجیح دےکر اس کو کامیاب بنائیں۔

انتخابات کے دوران اتر پردیش کا دورہ کرتے ہوئے د یو بند شہر میں معروف وکیل ندیم اختر نے راقم کو بتایا  تھاکہ بی جے پی کو پتہ ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا ہے اس لیے ا ن کا امیدوار ووٹ مانگنے ہی نہیں آتا ہے۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ ادھر سیکولر پارٹیوں کو معلوم ہے کہ مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انہی کو ملنا ہے، اس لیے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرتے ہیں۔ اتر پردیش کے ہی کوسی کلان قصبہ میں مسلمان محلوں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی کہ چند لمحے وہاں گزارنا محال تھا۔ٹوٹی سڑکوں اور گندے نالے کے کنارے واقع اس محلے میں بدبو پھیلی ہوئی تھی۔

میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا بلدیہ اس علاقے میں صفائی نہیں کرواتی ہےتو لوگوں کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں پچھلے کئی سالوں سے بی جے پی کا کونسلر انتخاب جیت رہا ہے، اس لیے اس علاقے میں خاکروب وغیرہ آتے ہی نہیں ہیں۔ بریلی کے مسلم اکثریتی علاقہ شامت گنج کی تقریباً چار لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک بینک اور چار اے ٹی ایم تھے۔ یہ علاقہ زردوزی کے لئے مشہور ہے۔ علی گڑھ کے جو علاقے تالے بنانے کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں مگر ان میں کوئی بینک نہ پوسٹ آفس تھے۔ البتہ ان دونوں علاقوں میں تین چار پولیس اسٹیشن اورکئی درجن پولیس پوسٹیں قائم تھے۔

کئی برس قبل تک میں بی جے پی کے مسلم لیڈروں جیسے شاہنواز حسین اور علما میں مولانا وحید الدین خان کی اس دلیل کا کسی حد تک قائل ہوگیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو منفی ووٹ دینے کے بجائے بی جے پی اور دائیں بازوکی دیگر جماعتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہیے تاکہ ان کی موجودگی سے ان پارٹیوں کا رویہ مسلمانوں کے تئیں نرم ہو اور سیکولر پارٹیا ں بھی ان کو بس ترنوالہ نہ سمجھیں۔

بہار کے نوادہ میں آر جے ڈی رہنما تیجسوی یادو کے ساتھ راہل گاندھی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بہار کے نوادہ میں آر جے ڈی رہنما تیجسوی یادو کے ساتھ راہل گاندھی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

مگر اس میں اب سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی خود ہے جس نے شدت پسند ہندو نظریات کو اپنا محور بنایا ہوا ہے اور اس میں اقلیتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔2014میں کئی کشمیر ی مسلمانوں نے بی جے پی میں شمولیت کی تھی۔ ان میں حنا بھٹ اور شیخ خالد جہانگیر بی جے پی کا خوف دور کرنے کے لیے وعدے کر رہے تھے کہ پارٹی کشمیر کے خصوصی تشخص اور اختیارات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرےگی۔ حنا بھٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ایسی کوئی کوشش ہوتی ہے تو آگے آکر پہلے اس کی مخالفت کرےگی۔

پتہ نہیں وہ اب اپنے اس ویڈیو کو دوبارہ دیکھتی ہیں کہ نہیں اور کس طرح یہ لیڈران اپنے ضمیر کو کچل کر بی جے پی کے ا یجنڈہ کے حصہ بن کر اپنے ہم وطنوں کا قافیہ تنگ کر رہے ہیں؟  کشمیر کے بعد تو اب آسام میں بھی مسلم اکثر یتی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بی جے پی کی پچھلی اوتار یعنی بھارتیہ جن سنگھ، ہندوستانی سیاست میں 50 کی دہائی سے لے کر 80 تک دائیں بازو کی اہم جماعت تھی۔مگر اس کے اعلیٰ عہدوں پر کئی مسلمان بھی براجمان تھے۔ اندرا گاندھی کے خلاف 1977کے انتخابات میں مسلمانوں اور دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری نے جن سنگھ کے امیداروں کے حق میں مہم چلاکر جتوا بھی دیا تھا۔مگر بی جے پی جس طرح  اب ہندو شدت پسندی کو گلے لگا کر مسلمانوں کو معتوب و مغضوب بناکر ووٹ بٹوررہی ہےاس کے مد نظر کسی باضمیر مسلمان کا بی جے پی کو ووٹ دینا یا اس کی صفوں میں شامل ہونا نا ممکن ہے۔

حکومت گجرات کے ایک سابق افسر ہر ش مندر کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کی تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ ہندوستان  میں ہے، مگر اس کے باوجود  وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ ان میں اب تعلیم و ترقی کے بجائے سکیورٹی کا احساس زیادہ ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔

اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا جنوبی صوبہ کیرالا کا ماڈل اپنا لیں؟  کیرالا میں مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعت ہے اور چونکہ اس صوبہ میں مخلوط حکومت ہی اقتدار میں آتی ہے، اس لیےیہ حکومت میں شریک بھی رہتی ہے۔ سیاسی نمائندگی کی وجہ سے اس صوبہ میں مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی صورت حال خاصی بہتر ہے۔

مبصرین کے مطابق شمالی ہندوستان یا کسی دوسرے صوبے میں ایسی سیاسی جماعت بنانا ناممکن ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہندو خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوکر فرقہ پرست جماعتوں کا دامن تھام کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔ معروف مصنفہ ارندھتی رائے نے ایک بار مشورہ دیا تھا کہ  ہندوستان میں ”مظلوموں کا اتحاد“ قائم کرنے کے  وافر مواقع ہیں کیونکہ مسلمانوں کی طرح دلت اور قبائلی بھی موجودہ نظام کا شکار ہیں۔ اس طرح کا  ہی کوئی اتحاد ہندوستان میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اُویسی اس راہ پر گامزن ہیں۔

مہاراشٹرا میں بھی انہوں نے دلت پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر انتخابات میں شرکت کی تھی۔ مگر سیکولر پارٹیوں نیز چند علما  ان کے خلاف ایسی تیر اندازی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان کے عقائد پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں، لگتا ہے کہ انتخابات میں شرکت کرکے وہ گناہ عظیم کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے مطابق سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو ایک ریوڑ کی طرح ہانکتی رہی ہیں۔

اگر مسلمان ان استحصالی پارٹیوں سے دامن چھڑا کر اپنی سیاست اور اپنی قیادت کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور کوئی خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کے بل پر سیاست میں کامیابی حاصل کرتا ہےتو اس کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاکر معتوب کرایا جاتا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ مسلمان لیڈران اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کریں کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکیں ہیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈران بھی ا پنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا 20کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ ہندوستان  کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیں گے؟