خبریں

خواتین کمیشن کی صدر کے ’بڑھتے لو جہاد کے معاملے‘ کے دعوے کے بعد کمیشن  نے کہا-ایسا کوئی ڈیٹا نہیں

گزشتہ اکتوبر میں قومی خواتین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کی تھی اور بتایا تھا کہ اس دوران ریاست میں لو جہاد کے بڑھ رہے معاملوں سمیت کئی مدعوں پر بات ہوئی تھی۔ اب ایک آر ٹی آئی کے جواب میں کمیشن نے کہا ہے کہ اس طرح کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔

این سی ڈبلیو کی صدر ریکھا شرما اور مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری (فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر)

این سی ڈبلیو کی صدر ریکھا شرما اور مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری (فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر)

نئی دہلی: آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں قومی خواتین کمیشن(این سی ڈبلیو)نے کہا کہ ان کے پاس لو جہاد سے متعلق  کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔کمیشن  کا یہ بیان اس کی چیف ریکھا شرما کےان دعووں کے الٹ ہے،جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مہاراشٹر میں لو جہاد کے معاملے بڑھ رہے ہیں۔

بتا دیں کہ این سی ڈبلیوصدر نے 20 اکتوبر کو مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ اس دوران انہوں نے بات چیت میں لو جہاد کا معاملہ اٹھایا تھا۔

اس ملاقات کے بعد این سی ڈبلیو کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کرکےیہ جانکاری دی گئی تھی کہ اس کی صدرریکھا شرما نے مہاراشٹر کےگورنربھگت سنگھ کوشیاری سےملاقات کی اور دونوں کے بیچ ریاست میں بڑھ رہے لو جہاد کے معاملوں سمیت کئی مدعوں پر چرچہ ہوئی۔

گزشتہ 16 نومبر کواشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر انکیت آگا نے آر ٹی آئی کے جواب میں ٹوئٹ کرکے کہا کہ کمیشن نے کہا کہ وہ لو جہاد کے معاملوں کا ڈیٹا نہیں رکھتا ہے۔آگا نے بتایا کہ آر ٹی آئی کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ این سی ڈبلیو نے لو جہاد کو لےکر کوئی اعدادوشمار جاری نہیں کیا ہے، جو این سی ڈبلیو صدر کے دعووں کو پختہ کر سکے۔

آر ٹی آئی کے جواب سے پتہ چلا ہے کہ مہاراشٹر میں بڑھ رہے لو جہاد کے معاملوں کو لےکر ریکھا شرما کا دعویٰ ثبوتوں پر نہیں بلکہ سیاست  سےمتاثر تھا۔بتا دیں کہ لو جہاد ہندووادی تنظیموں کے ذریعہ استعمال میں لائی جانے والی اصطلاح ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو عورتوں کو زبردستی یا بہلا پھسلاکر ان کا مذہب تبدیل  کراکر مسلمان سے اس کی شادی  کرائی جاتی ہے۔

اکتوبر میں گورنر سے ملاقات کے بعد کمیشن کے کئے ٹوئٹ کی کافی تنقید ہوئی تھی۔ اس دوران ہی صدر ریکھا شرما کے کچھ پرانے ٹوئٹ کےا سکرین شاٹ بھی وائرل ہوئے تھے، جس میں انہوں نے خواتین کےخلاف قابل اعتراض  زبان  کا استعمال کیا تھا۔

اس کے بعدعام آدمی پارٹی نے ان کی تنقید کرتے ہوئے این سی ڈبلیو کے صدرکے عہدے سے ریکھا شرما کو ہٹائے جانے کی مانگ کی تھی، جس کے بعد ریکھا شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہیک کیا گیا تھا۔اس کے بعد ان ٹوئٹ کو ہٹا کر ریکھا شرما نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو پروٹیکٹ کر دیا تھا۔ غورطلب ہے کہ ریکھا شرما نے کوشیاری سے ملاقات کے بعدصحافیوں  سے بات بھی کی تھی۔

ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اس دوران انہوں نے آپسی رضامندی سے دو الگ مذاہب کے لوگوں کی شادی اور لو جہاد کے بیچ فرق کو نشان زد کیا اور کہا تھا کہ اس پر دھیان دیے جانے کی ضرورت ہے۔حالانکہ تب بھی این سی ڈبلیو صدر نے ریاست میں لو جہاد کی بڑھ رہی شکایتوں کو لےکر کسی طرح کا ڈیٹادستیاب نہیں کرایا تھا۔

وہیں، اس کے بعد سماجی کارکن ساکیت گوکھلے نے بامبے ہائی کورٹ میں عرضی  دائر کرکے شرما کو این سی ڈبلیو کے صدر عہدے سے ہٹائے جانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا،’این سی ڈبلیو خواتین کے حقوق  کے تحفظ کے لیے ایک آزاد ادارہ  ہے اور اس کی صدرواضح طورپر فرقہ وارانہ  اور باٹنے والی  بیان بازی میں ملوث ہے، جو ایک سیکولر طریقے سے کام کرنے کی ان کی اہلیت پر سوال کھڑے کرتا ہے۔’