خبریں

جے این یو تشدد معاملے میں دہلی پولیس نے خود کو کلین چٹ دی

پانچ جنوری کو جے این یو کیمپس میں نقاب پوشوں کے ذریعے ہوئے حملے کے واقعات اور مقامی پولیس کی لاپرواہی کو لےکر بنی دہلی پولیس کی ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس دن کیمپس میں ماحول ٹھیک نہیں تھا، لیکن پولیس کی دخل اندازی  کے بعد حالات قابو میں آ گئے تھے۔

05 جنوری 2020 کی رات جے این یو کے گیٹ پر تعینات پولیس(فوٹو: رائٹرس)

05 جنوری 2020 کی رات جے این یو کے گیٹ پر تعینات پولیس(فوٹو: رائٹرس)

جنوری کے شروعاتی ہفتے میں دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)میں ہوئےتشدد کے معاملے میں دہلی پولیس نے خود کو کلین چٹ دے دی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس کے ذریعے5 جنوری کی شام کیمپس میں ہوئے تشدد کے ‘واقعات اور مقامی پولیس کے ذریعے ہوئی لاپرواہی’ کی جانچ کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی تھی۔

اب سامنے آیا ہے کہ اس نے پولیس فورس کو اس معاملے میں کلین چٹ دی ہے۔غورطلب ہے کہ پانچ جنوری کی شام جے این یو کیمپس میں اس وقت تشدد بھڑک گیاتھا، جب لاٹھیوں سے لیس کچھ نقاب پوشوں نے طلبااور اساتذہ  پر حملہ کیا اور کیمپس میں ملکیت کو نقصان پہنچایا، جس کے بعد انتظامیہ کو پولیس کو بلانا پڑا تھا۔

اس شام بڑی تعداد میں چہرہ ڈھکے اور ہاتھوں میں ڈنڈے لیے نوجوان لڑکےاور لڑکیاں لوگوں کو پیٹتے اور گاڑیوں کو توڑتے دکھے۔ سابرمتی ہاسٹل سمیت کئی عمارتوں میں جم کر توڑ پھوڑ کی گئی۔حملہ آوروں نےاساتذہ اور اسٹاف کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس مارپیٹ میں طلبہ یونین کی صدراوئشی گھوش کو بھی کافی چوٹیں آئی تھیں۔کل ملاکر پینتیس سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔

اس تشدد کو لےکر ایف آئی آر بھی ہوئی تھی اور معاملہ کرائم برانچ کو سونپ دیا گیا تھا۔ حالانکہ اب تک اس معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

تشدد کے بعد اس بارے میں کئی سوال اٹھے تھے کہ جب کیمپس میں مارپیٹ اور توڑ پھوڑ چل رہی تھی، تب پولیس مین گیٹ کے باہر ہی کیوں کھڑی تھی۔ یہ پولیس کے ذریعے اس سے کچھ ہفتہ پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کی گئی کارر وائی سے بالکل الٹ تھا، جہاں پولیس کیمپس میں گھس گئی تھی اور مبینہ طور پر لائبریری کے اندر جاکر طلبا کے ساتھ مارپیٹ کی گئی تھی۔

اس بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ وہ جامعہ میں‘فسادیوں’ کا پیچھا کرتے ہوئے گھسے تھے، جبکہ جے این یو میں وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بنا نہیں جا سکتے تھے۔پولیس کمشنر امولیہ پٹنایک کے آرڈر پر جوائنٹ کمشنر(مغربی رینج)شالنی سنگھ کی صدارت میں بنی دہلی پولیس کی کمیٹی میں چار انسپکٹر اور دو اےسی پی تھے۔

اپنی جانچ کے دوران کمیٹی نے ڈی ایس پی(جنوب مغربی)دیویندر آریہ،اس وقت کے اےسی پی رمیش ککر، وسنت کنج (شمالی)کے تھانہ انچارج ریتوراج اور انسپکٹر آنند یادو، جو ہائی کورٹ کے وی سی  کے دفتر کے سو میٹر کے دائرے میں احتجاج نہ ہونے دینے کے آرڈرکی تعمیل کے تحت 5 جنوری کی صبح ایڈمنسٹریٹو بلاک پر تعینات تھے، کے بیان ریکارڈ کیے۔

ایک سینئرپولیس افسر نے اس اخبار کو بتایا کہ تمام پولیس اہلکاروں نے 5 جنوری کی صبح آٹھ بجے سے رونما واقعات کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک جیسے ہی بیان دیے ہیں، جب سادے کپڑوں میں خواتین  سمیت 27 پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی کے لیے پہنچے اور رات کی شفٹ کے لوگ واپس گئے۔

ایک افسر نے بتایا،‘ان کا کام ہائی کورٹ کے آرڈر کے مطابق یہ یقینی بنانا تھا کہ ایڈمن بلاک کے سو میٹر کے دائرے میں کوئی مظاہرہ  نہ ہو۔ ان میں سے کسی بھی پولیس اہلکار کے پاس کوئی ہتھیار یا لاٹھی نہیں تھی۔ اس دن پی سی آر کالز دوپہر ڈھائی بجے سے شروع ہوئیں اور کیمپس کے اندر سے پولیس کوکل 23 کال ملے تھے۔’

اپنی رپورٹ میں کمیٹی نے بتایا ہے کہ شام پونے چار بجے سے سوا چار بجے کے بیچ آٹھ پی سی آر کالز ملی تھیں، جو بنیادی طور پر پیریار ہاسٹل میں طلبا کو پیٹنے کے بارے میں تھیں۔ اس کے بعد سوا چار بجے سے چھ بجے کے بیچ 14 پی سی آر کالز کی گئیں، جو الگ الگ جگہوں پر ہو رہے جھگڑے کے واقعات اور طلبا کے اجتماع کے بارے میں تھیں۔

افسر نے بتایا،‘ڈی ایس پی آریہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ پانچ سوا پانچ بجے کے لگ بھگ کیمپس گئے تھے، لیکن وہ واپس مین گیٹ پر لوٹ آئے کیونکہ انہیں حالات نارمل لگے۔ پوچھ تاچھ کے دوران حکام نے وی سی  ایم جگدیش کمار کے ذریعے آریہ، اےسی پی اور تھانہ انچارج کو 6.24 منٹ پر بھیجا ہوا وہاٹس ایپ میسیج بھی دکھایا، جس میں انہوں نے ان سے گیٹ پر تعینات رہنے کو کہا تھا۔ پونے آٹھ بجے رجسٹرار پرمود کمار نے دہلی پولیس کو ایک خط دیا، جس میں انہوں نے کیمپس میں پولیس کی تعیناتی بڑھانے کی مانگ کی تھی۔’

افسر کے مطابق، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے یہ تمام بیان درج کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالاکہ کیمپس میں دن بھر ماحول ٹھیک نہیں تھا، لیکن پولیس کی دخل اندازی  کے بعد حالات قابو میں آ گئے۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)