فکر و نظر

لو جہاد فحش پروپیگنڈہ ہے

بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف  بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت  ہے اور وہی برتری  کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی  ہر شادی یا رشتے کی مخالفت  کی جانی  ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

ہم پرینکا کھروار اور سلامت کو ہندو اور مسلمان کی طرح نہیں دیکھتے، بلکہ دو بالغ افرادکے طور پر دیکھتے ہیں جو اپنی مرضی اور پسند سے سال بھر سے پرامن اور خوشی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔اگر ایک بالغ اپنی مرضی سے کسی دوسرے کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ آزادانہ طور پر اس فرد کا حق ہے۔

اگر اس میں خلل پیدا کیا جاتا ہے تو یہ اس کی زندگی  اور آزادی  کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس حق میں انتخاب کے اختیار کی آزادی ، اپنا ساتھی چننے کی آزادی اور عزت کے ساتھ رہنے کا حق  شامل ہے۔ یہ آئین  کے آرٹیکل 21 کے موافق ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ  نے بنا لاگ لپیٹ کے کہا کہ پرینکا بالغ ہیں اس لیے وہ اپنے ماں باپ کی ملکیت نہیں ہیں، انہیں اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا مکمل حق ہے۔ایک بار عدالت میں اگر ایک بالغ کہہ دے کہ اس نے اپنی مرضی سے فیصلہ کیا ہے تو عدالت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ سرپرست بن جائے۔

جسٹس پنکج نقوی اور وویک اگروال کی دو رکنی بنچ  نے الہ آباد ہائی کورٹ  کی ہی ایک رکنی بنچ  کے اس فیصلے کو قانون کی رو  سے برا بتلایا، جس نے یہ کہا تھا کہ اگر صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کیا جاتا ہے تو وہ قابل قبول  نہیں ہے۔ یہ 2014 کے نورجہاں بیگم @ انجلی مشرااور دیگر سے جڑے معاملے میں ایک رکنی بنچ  کا فیصلہ تھا۔

اسی طرح کا ایک اورفیصلہ حال میں ایک دوسری ایک رکنی بنچ  نے دیا۔ ان معاملوں میں جج کی یہ سمجھ تھی کہ صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل  کر لینا ایک مطلب پرست  قدم ہے، جس کی حمایت  نہیں کی جانی  چاہیے۔

اس سال ستمبر کے مہینے میں جس جوڑے کوتحفظ دینے کی اپیل عدالت نے ٹھکرا دی تھی، اس میں لڑکی  پہلے مسلمان تھی اور اس نے شادی  کے کچھ پہلے ہی اپنا دھرم چھوڑکر ہندو مذہب اپنایا تھا۔عدالت کو اس لیے اس کا مذہب تبدیل کرناقابل اعتماد اور مصدقہ نہیں لگا اور اس نے ان دونوں کو راحت دینے کے لیے اپنی طرف سے کسی بھی دخل اندازی سے انکار کر دیا۔

اس کے برعکس  دو ججوں کی بنچ نے حیرانی کا اظہار کیا کہ دو بالغ لوگوں کے ساتھ رہنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ ان کی دلیل بہت صاف ہے۔ وہ بیگانی شادی میں عبداللہ کو دیوانہ ہونے سے روکنے کے لیے ہے۔ یا اس پرانی کہاوت کو یاد دلانا ہے کہ جب میاں بیوی راضی توکیا کرےگاقاضی!

عدالت کے اس فیصلے کے فوراً بعد اتر پردیش سرکار نے ایک بل  کا اعلان کیا ہے، جس کے مطابق جبراً یا لالچ دےکر یا دھوکے سے عورت کامذہب تبدیل  کرانے پر قید اور جرما نے کی سزا ہے۔ اگر عورت ایس سی ایس ٹی  کی ہو تو سزائیں اور بھی سخت ہیں۔

اس بل کومناسب  اور ضروری ٹھہراتے ہوئے اتر پردیش کے وزیروں  نے دعویٰ کیا ہے کہ لو جہاد کے واقعات  ناقابل برداشت طریقے سے بڑھ رہے تھے اور ‘ہماری’عورتوں پرظلم میں اضافہ ہو رہا تھا، اس لیےیہ قانون لانا پڑا۔

حالانکہ جس دن یہ بل لایا گیا اس کے کچھ دن  پہلے ہی کانپور پولیس کی اسپیشل جانچ ٹیم کی رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ لو جہاد کا الزام بےبنیاد ہے۔شالنی نام کی خاتون  نے ویڈیو جاری کرکے عوامی طور پر اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے اور شادی کی ہے۔ شالنی کے ماں باپ اسے اغوا اور جبراً تبدیلی مذہب کا معاملہ  بتا رہے تھے۔

این ڈی ٹی وی نے جب دہلی میں شالنی سے ملاقات کی تو اس نے کہا کہ وہ پڑھی لکھی ہے، ایم بی اے کی ڈگری اس کے پاس ہے۔ کیا اسے کوئی بہلا پھسلاکر اس کا مذہب تبدیل  کروا سکتا ہے؟ یہ اس کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا۔

شالنی اور اس کی طرح ہی ایکتا نے اپنے ماں باپ کی بات کو غلط بتاتے ہوئے تبدیلی مذہب اور شادی کو اپنی مرضی کا انتخاب  بتلایا۔ان کے اس عوامی اعلان کے باوجود اتر پردیش کی سرکار اور پولیس دعویٰ کرتی رہی کہ ہندو لڑکیوں کامذہب تبدیل  کرکے شادی کرانے کی ایک منظم  سازش ہے۔

بہت سارے لوگ اور ان میں کئی بار جج بھی شامل ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں لو میرج  سے پریشانی نہیں ہے، وہ تو صرف شادی کے لیے تبدیلی مذہب کے خلاف ہیں۔ہمیں اس دلیل پر غور کرنا چاہیے۔ اس کے پیچھے یہ سمجھ ہے  کہ میرا مذہب ہی میری پہچان ہے۔ اسے بدلنے کا مطلب  ہے اپنی پہچان بدل لینا۔ یہ بہت سنگین فیصلہ ہے۔

کسی کی پہچان بدل دینا ایک طرح کا جر م  ہے۔ وہ اگر چھوٹی وجہ سے کیا جا رہا ہے تو اور بڑا جرم ہو جاتا ہے۔ شادی کو ایسا ہی چھوٹا موٹا دنیاوی وجہ مانا جاتا ہے۔مذہب کا لوگوں کی زندگی سے رشتہ بہت پیچیدہ  ہوتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بنا اس مذہب  کو مکمل طور پر جانے اور اس پر غور کیے اپنامذہب چھوڑکر اس میں کیسے جایا جا سکتا ہے؟

ایسا کہنے والے یہ نہیں سوچتے کہ جس مذہب میں وہ ہے کیا اس کے بارے میں ہی اسےسب  کچھ معلوم ہے اور کیا اس کا ہر پہلوجانچ کر ہی وہ اس مذہب میں رہنے کافیصلہ کرتا ہے؟ کیا اس مذہب  میں اس کا بنے رہنا سوچا سمجھا ہے؟

مذہب میں پیدا ہونا اور اس میں زندگی کاٹ دینا ہی فطری مانا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگی میں مذہب  کا رول محدود بھی ہو سکتاہے۔ اور اس سے ایک رشتہ لین دین کا بھی ہو سکتا ہے۔

کئی لوگ، بلکہ زیادہ تر لوگ صحیح طور پرمذہبی  ہوتے ہیں۔ بنا کسی مذہبی صحیفہ  کا مطالعہ کیے مذہبی ہونا ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ وہی شایداصول ہے۔ اس بنا مرضی کے مل گئےمذہب میں بنے رہنے کے لیے اگر مجھے اپنی ہر خواہش  کی قربانی  دے دینی ہو تو پھر مذہب رکھ کر میں خود کو کھو دیتا ہوں۔ ویسی حالت  میں میں کیا کروں؟

خواہشات کی اہمیت زندگی  میں مختلف اوقات میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ ایک وقت میں محبت کی کشش بری ہو سکتی ہے اور اس کے لیے کچھ بھی کر گزرا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ دوسرے زیادہ اہم دنیاوی اورعملی پہلو کو بھی نہیں نظر انداز کرنا چاہیے۔ اگر دو بالغ لوگ ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں تو جدید ریاست کے طور پرہندوستان  انہیں ایک راستہ دیتا ہے۔ وہ خصوصی شادی کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔ اس کا استعمال کرکے آپ بنا مذہب  بدلے شاد ی کر سکتے ہیں۔

لیکن ہندوستان  کی اصلیت یہ ہے کہ جن حقوق  کو اس کا ذمہ دیا گیا ہے، وہ اکثرہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ اس اہتمام  کا استعمال کیا ہی نہ جا سکے۔

دومذاہب  کے جوڑے جب ان دفتروں میں پہنچتے ہیں تو ان کا استقبال نہیں ہوتا ہے۔ کئی بار اہلکارگارجین کی طرح عورت کو ماں باپ کی مرضی کا خیال کرنے کی صلاح ہی نہیں دیتے آگے جاکر دباؤ ڈالتے ہیں۔ غیرضروری سوال جواب سے دونوں کی بے عزتی اور حوصلہ شکنی کی کوشش کی جاتی ہے۔

جب یہ راستہ اتنا مشکل بنا دیا جاتا ہے تو شادی  کے لیے تیار جوڑا آسان راستہ چنتا ہے۔ وہ تبدیلی مذہب کا ہے۔ اس کے بعد مذہبی رسومات سےشادی میں رکاوٹ  نہیں ہے۔کم سے کم اس کے بعد جوڑے کے پاس ایک قانونی کاغذ ہے، جو ماں باپ کی زبردستی کے سامنے زره بکتر ہے۔ اسے لےکر وہ عدالت جا سکتے ہیں اور سکیورٹی کی مانگ کر سکتے ہیں۔ اب یہ نسبتاًآسان راستہ بند کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

شادی  کے لیےمذہب تبدیل کر لینے کا مطلب جوڑوں کی زندگی کا پوری طرح بدل جانا نہیں ہے۔ ہم نے ایسے کئی معاملے دیکھے ہیں جن میں شادی کے بعد عورت اورمرد پہلے کی طرح اپنے رسم و رواج ہی مانتے رہتے ہیں۔ شادی کے لیےاپنایا گیا نام بھی بس کاغذ میں رہ جاتا ہے۔ لیکن اس سے الگ زندگی  کے طور طریقے بدل بھی سکتے ہیں۔ لیکن اگر ساتھ رہنا کہیں زیادہ اہم  ہو تو اس تبدیلی پر دوسروں کو کیوں اعتراض  ہو؟

یہ ضرور ہے کہ زیادہ تر معاملوں میں عورت  ہی مذہب بدلتی ہے۔ اس کی وجہ  پھر وہ پدری نظام کا نظریہ ہے جس میں مذہب  بدلے یا نہ بدلے، عورت کا درجہ ثانوی  مانا جاتا ہے جسے مردکے مطابق بدل جانا چاہیے۔

شادی کے بعد پہلے نام بدل دیے جاتے تھے، کنیت  بھی بدل دی جاتی ہیں۔ جو عورتیں اپنی شادی سے پہلےکی کنیت جاری رکھتی ہیں، وہ بھی اس المیہ کو جانتی ہیں کہ یہ آخرکار ان کےوالد کا ہے، ماں کا نہیں۔ گھر لڑکی کا بدلتا ہے، لڑکے کا نہیں۔ بنا اس بناوٹ  کو سمجھے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کیوں زیادہ تر معاملوں میں لڑکیاں ہی مذہب بدلتی ہیں۔

لیکن مذہب زیادہ تر کی زندگی میں اس طرح اہم نہیں ہوتا، جیسا مانا جاتا ہے۔ جیسا ہم نے پہلے کہا وہ  مذہب کے ساتھ موقع اور افادیت کی بنیاد پر رشتہ بنا سکتے ہیں۔یہ بات ہمیں بری لگ سکتی ہے لیکن ہم خود اپنی  زندگی کا امتحان  کریں تومذہب بدلے بنا ہم اکثرمذہب مخالف سلوک کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایک طرح سے مذہب  کا ترک کرناہی ہے، لیکن وہ ہمیں برا نہیں لگتا۔ کیوں؟

ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاروں کے ذریعے لو جہاد نام کے نئے جرم  کی دنیاتخلیق  کی جا رہی ہے۔ اس کے پیچھے دلیل ہے کہ منظم سازش کے کے ذریعے ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ باربار اس الزام  کی جانچ کی گئی ہے۔

اتر پردیش کی پولیس کی حال کی جانچ میں تو یہ الزام غلط پایا گیا، اس کے پہلے کرناٹک اور کیرل میں بھی اس الزام  کی جانچ کی گئی تھی اور یہ جھوٹ پایا گیا تھا۔

لیکن عام سمجھ یہ بنا دی گئی ہے کہ مسلمان کوئی بھی کام شخصی فیصلہ سے نہیں کرتے، وہ ایک اجتماعی فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ چاہے کاروبار کرنا ہو یاایڈمنسٹریٹو سروس میں جانا، وہ سب کچھ ایک مہم ہے،  اور ہندوستان  کے ہر حصہ پر قبضہ کرنے کی سازش ہے! ویسے ہی محبت  اورشادی  بھی شخصی نہیں مانی جا سکتی!

کیوں اس راگ کو بی جے پی نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں  کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’ اپنی تعدادبڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یارشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

اس دلیل کے مطابق ایک بھی ‘ودھرمی’ کا بڑھنا ہندوستان  کے لیے خطرہ ہے۔ شادی  اس کا وسیلہ ہے، اس لیے اس پر پہرہ ضروری ہے۔ اس دلیل کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ احمقانہ  ہے، لیکن اس سے اس دلیل  کی فحاشی کم نہیں ہو جاتی۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)